• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں کچھ روز قبل آغا غضنفر ،جو سابق وفاقی سیکرٹری اور ایچی سن کالج کے پرنسپل بھی رہ چکے ہیں، سے بات کر رہا تھا جو آج کل آکسفورڈ میں مقیم ہیں،گفتگو کے دوران انہوں نے مجھے کچھ عرصہ قبل وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ہونے والی اپنی گفتگو یاد دلائی جس میں انہوں نے یہ کہا تھا کہ جس طرح پاکستان کے حالات تیزی کے ساتھ ابتری کی جانب بڑھ رہے ہیں، وہ وقت دور نہیں جب عمران خان وہ واحد شخصیت ہوں گے جو اپنے موقف پر ڈٹے رہیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ حالات میں وقت کے ساتھ اتار چڑھائو آنے کے باوجود عمران خان کبھی متزلزل ہوئے اور نہ ہی انہوں نے پسپائی اختیار کی۔

25 جولائی کو ہونے والے آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران جس انداز میں گالی گلوچ کا استعمال کیا اور جس طرح پوری مہم کے دوران وزیراعظم عمران خان کو منظم طریقے سے تنقید کا نشانہ بنائے رکھا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی لیکن اپوزیشن کا سارا بیانیہ اس وقت زمین بوس ہو گیا جب آزاد کشمیر کے عوام نے تحریک انصاف کو حکومت بنانے کے لئے واضح برتری دلا دیلیکن یہ کامیابی وزیراعظم عمران خان کا پاکستان کا مقدمہ انتہائی محنت اور لگن کے ساتھ لڑے بغیر ممکن نہ تھی۔ خان صاحب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اپنے سیاسی سفر میں سیاسی کامیابیاں سمیٹنا ان کا ہدف نہیں رہا بلکہ وطن عزیز کا وقار بلند کرنا او رلوگوں کا معیارِ زندگی بہتر بنانا ہی ان کا خواب رہا ہے۔ جب دوسرے لوگ سیاسی کامیابیاں حاصل کرنے کی دوڑمیں شریک تھے تو خان صاحب عوامی فلاح کے خواب دیکھ رہے تھے۔ جب دوسرے لوگ خاندانی حکمرانی کے ذریعے اپنی جڑیں مضبوط کر رہے تھے تو خان صاحب عوام کو حقِ حکمرانی دے کر انہیں مضبوط بنانے اور دہائیوں سے ملک پر مسلط سیاسی خاندانوں کاگٹھ جوڑ توڑنے میں مصروف تھے ۔ عمران خان کا مطالبہ تھا کہ عوام آگے آئیں اور اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں۔

اگرچہ بعض سیاسی قوتوں نے موجودہ حکومت کو غیرمستحکم کرنے کیلئے مافیاز کی سرپرستی جاری رکھی لیکن خان صاحب ایسے لوگوں کے مقابل اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ آزاد کشمیر کے انتخابات کے دوران انتخابی مہم میںاپوزیشن جماعتوں نے صرف ووٹ کے حصول کیلئے عوام کے سامنے فریب اور دھوکہ دہی کے نعرے لگائے جبکہ عمران خان بدعنوانی کے خاتمے ، کرپٹ عناصر کا احتساب کرنے، غریب عوام کا معیارِ زندگی بہتر بنانے، یکساں انصاف کی فراہمی اور انتخابی اصلاحات جیسے عظیم مقاصد لے کر میدان میں اترے۔ بعض سیاستدانوں نے محض اقتدار سے چمٹے رہنے کی خاطر اپنے غیرملکی آقائوں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ملکی مفادات پس پشت ڈالے لیکن عمران خان نے مسئلہ کشمیر، افغانستان ، فلسطین اور اسلامو فوبیا جیسے معاملات پر دلیری کے ساتھ پاکستان کا مقدمہ لڑا اور عوامی لیڈر ہونے کا عملی ثبوت دیا۔ کئی عالمی طاقتوں کی جانب سے دبائو کے باوجود عمران خان کے قدم نہیں لڑکھڑائے بلکہ وہ پاکستان کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے کے لئے اپنے پختہ عزم پر قائم رہے۔ عمران خان یہ سب کچھ نیک نیتی کے ساتھ کر رہے تھے، اس کے باوجود کہ انہیں ایک بوسیدہ نظام ورثے میں ملا تھا جس کی وجہ سے ملکی ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچا۔ پولیس میں مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے لوگوں کو بھرتی کیا گیا جبکہ بیورو کریسی میں بھی ایسے لوگوں کو آگے لایا گیا جن کے دامن داغ دار تھے۔ نتیجتاً بڑھتے جرائم نے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر کے رکھ دیں جن سے جان چھڑانے کے لئے سخت اور ٹھوس موقف اپنانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ خان صاحب نے بغیر کسی سمجھوتے کے ایک ایسی مثال قائم کی جہاں تبدیلی کا واضح امکان نظر آ رہا ہے۔ اب جبکہ وہ اقتدار میں ہیں تو اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانا ان کے لئے بہت اہم ہے۔ ان حالات میں اگلے دو برسوں کے لئے انہیں نہ صرف بہتر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے بلکہ ایسے لوگوں کو آگے لانا ہوگا جو عوام کی خدمت کا حقیقی جذبہ رکھتے ہوں۔ ماضی میں چونکہ غریب عوام اور پسماندہ طبقات کا معیارِ زندگی بہتر بنانے کیلئے کبھی سنجیدہ کاوشیں نہیں کی گئیں اس لئے یہ کٹھن مرحلہ ہے تاہم موجودہ حکومت کے جذبے اور لگن سے غریب عوام کی تلافی ہوئی ہے۔ یہی وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے پاکستان ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔ شاید کافی معاملات درست ہو چکے ہیں لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ آئندہ دو برسوں میں وزیراعظم عمران خان کو اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ ملک وقوم کی بہتری کیلئے جو بھی منصوبے شروع کئے جائیں، ان کے ثمرات عوام تک پہنچیں جس منزل پر ہم پہنچ چکے ہیں یہاں سے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ آج پاکستان اندرونی و بیرونی محاذ پر اس مقام پر کھڑا ہے جہاں اسے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ رائے بھی تقویت پکڑ چکی ہے کہ اب پاکستان میں کسی رہنما کو ڈالرز کے عوض استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان اب بیرونی ممالک کی پالیسیوں پر عملدرآمد کرنے کی بجائے اپنی پالیسیاں خود بناتا ہے جن کا اولین مقصد اپنے معاشی اور جغرافیائی مفادات کو تحفظ دینا ہے۔

میرے دوست آغا غضنفر نے عمران خان کے حوصلے اور لگن کو بالکل ٹھیک سمجھا اور پہچانا تھا۔ اب امید کی جا رہی ہے کہ پاکستان کبھی ایسے لوگوں کے ہاتھ میں نہ جائے جنہوں نے ہمیشہ ریاست کے مفادات کی بجائے اپنے ذاتی مفادات کو مقدم رکھا۔ ایسے بدعنوان لوگوں نے ملکی وسائل کو بیدردی کے ساتھ لوٹ کر اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا جبکہ خود ارب پتی بن کر ملکی تقدیر کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہے۔

(صاحبِ تحریر وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات، سیاسی اور دفاعی تجزیہ کار اور ادارۂ علاقائی امن کے بانی ہیں)

تازہ ترین