1947 کے ماہِ اگست میں جہاں پاکستان اور بھارت کے نام سے دو نئی مملکتیں دنیا کے نقشے پر اُبھریں ،وہیں ہجرت کے دَوران ایسے الم ناک انسانی المیوں نے بھی جنم لیا، جس سے انسانیت بھی تھرّا اُٹھی۔ان انسانیت سوز واقعات کا تذکرہ تاریخِ پاکستان کی کتب میں تو ملتا ہی ہے،جب کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے کئی ایسے معروف لوگوں نے بھی اپنی آپ بیتیوں میں اس موضوع پر لکھا، جن کے گھرانے اس کرب سے گزرے یا جو ایسے حالات و واقعات کے عینی شاہد تھے۔ہماری دانست میں ایسے عینی شاہدین کی گواہی تاریخ کی روایتی کتب سے کہیں زیادہ معتبر ہے۔
اس بابت کوئی دو رائے نہیں کہ بانیٔ پاکستان، حضرت قائدِ اعظمؒ اور اُن کے رفقا کئی برسوں سے دو قومی نظریے کا بیانیہ اسلامیانِ ہند کے رُوبرو پیش کر رہے تھے، لیکن قیامِ پاکستان سے بھی پہلے بہار اور کلکتہ میں متعصّب ہندووں کے ہاتھوں ہونے والے مسلمانوں کے قتلِ عام نے انہیں عملی طور پر سمجھا دیا تھا کہ دو قومی نظریے کا مطلب کیا ہے۔ صوبہ بہار کے ایک رئیس گھرانے میں آنکھ کھولنے والے، شہاب الدّین رحمت اللہ انگریز دَور کے آئی سی ایس افسر تھے۔
قیامِ پاکستان کے بعد اُنہیں ڈھاکا کا پہلا ڈپٹی کمشنر تعیّنات کیا گیا ۔وہ اپنی خود نوشت ’’شہاب بیتی‘‘میں لکھتے ہیں کہ’’ حصولِ آزادی کی تمام جدوجہد جو ہندوؤں نے کی، گاندھی جی کی ستیہ گرہ اور عدم تعاون کی تحریکیں، وہ سب ناکام رہیں۔پنڈت جواہر لال نہرو نے بھی بہت سر مارا، مگر یہ بھی لاحاصل ثابت ہوا۔حصولِ آزادی کی تحریکات اُس وقت قابلِ عمل نظر آنے لگیں، جب قائدِ اعظم دو قومی نظریے کو منظرِعام پر لائے، جس کا عملی ثبوت المیۂ بہار اور کلکتہ کے قتلِ عام سے بروقت فراہم ہوا، جو انگریزوں کو یہ باور کروانے کے لیے یقینی ثابت ہوا کہ ہندوستان کی آزادی کا واحد حل تقسیم کی صُورت ہی میں ممکن ہے۔بیگم ایچ اے حکم (ایم ایل اے بنگال )نے مجھے یہ بات بتائی کہ جب وہ بحیثیت مسلم لیگ کونسلر دہلی گئیں اور وہاں اُس کے آخری اجلاس میں شریک ہوئیں، تو اُنہوں نے قائدِ اعظمؒ کو غیر رسمی طور پر یہ کہتے سنا،’’مَیں نہیں سمجھتا تھا کہ پاکستان میری زندگی میں قائم ہو سکے گا، لیکن بہار کے المیے نے اسے قائم کر دیا‘‘۔
مولوی محمّد سعید معتبر اخبار نویس تھے۔سیال کوٹ کے علاقے پسرور میں پیدا ہوئے۔مرے کالج سیال کوٹ،اسلامیہ کالج پشاور اور علی گڑھ یونی ورسٹی کے فیض یافتگان میں سے تھے۔اوائل عُمری میں مجلسِ احرار اور خاکسار تحریک کے عشق میں بھی مبتلا رہے ۔بڑے بڑوں کی آنکھیں دیکھ رکھی تھیں۔اردو اور انگریزی میں لکھتے نہیں تھے، بلکہ موتی پروتے تھے ۔اُن کی آپ بیتی ’’ آہنگ بازگشت‘‘ اُردو کی بہترین آپ بیتی قرار دی جاتی ہے۔قیامِ پاکستان سے چند ماہ پہلے پنجاب میں خضر وزارت ٹوٹنے کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کو ایک صحافی کی نظر سے دیکھا اور وہ ساری صُورتِ حال بلا کم و کاست اپنی آپ بیتی میں بیان کر دی۔
واضح رہے، اسی کشیدگی کے باعث بعد ازاں پنجاب کے لہلہاتے کھیت کھلیان قبرستان کا منظر پیش کرتے رہے اور عشق و محبّت کا استعارہ خیال کیا جانے والا چناب، دریائے خوں میں بدل کر رہ گیا تھا۔ اِس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں کہ’’ 4مارچ کی صبح کو ماسٹر تارا سنگھ نے پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر اپنی کرپان بے نیام کرکے کہا،’’ فیصلہ اب اس کے ہاتھ ہے۔‘‘گیانی کرتار سنگھ نے کہا،’’سو برس گزرا، ہمارا بسنتی پھریرا لاہور کے شاہی قلعے پر لہرا رہا تھا۔اب پھر اس کے لہرانے کا وقت آ گیا ہے۔‘‘رہتک کے لہری سنگھ نے کہا،’’ مَیں جاٹ ہوں، جاٹ زیادہ باتیں نہیں کیا کرتے۔جاٹوں نے سِکھ مت کو اختیار کیا کہ وہ مسلمانوں کو تباہ کر سکیں۔اب جاٹ پھر اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔‘‘
ہندوؤں کی جانب سے کرشن گوپال دت نے کہا،’’ ایسے حالات پیدا کردو کہ ممدوٹ کے لیے وزارت بنانا مشکل ہو جائے۔دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں، جو ہمیں ہماری ماں کی گود سے جدا کرکے ممدوٹ کی گود میں ڈال دے۔‘‘ ٹریبیون ، ملاپ، ویر بھارت ، پرتاپ، پربھات ، اجیت ، بندے ماترم اور جے ہند میں جو کچھ چَھپ رہا تھا، اس پر مستزاد تھا۔مئی کے وسط میں مسلمانوں کے عزم اور ہندو، سِکھ مزاحمت کو لندن کے ڈیلی میل نے یہ کہہ کر ایک جملے میں سمیٹ دیا کہ’’ اب کسی وقت بھی دنیا کے نقشے پر یہ نام (پاکستان) ابھر سکتا ہے۔قلم سے لکھا جائے یا نوکِ خنجر سے، دس کروڑ مسلمان اسے لکھ کر رہیں گے۔‘‘
قیامِ پاکستان کے وقت مولوی محمّد سعید نے دلّی سے لاہور تک فسادات کی بھڑکتی آگ کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا۔ اس ہول ناک مشاہدے کا تذکرہ اُنہوں نے یوں کیا ہے،’’ حد بندی کا اعلان ہوتے ہی پھر مار دھاڑ کا بازار گرم ہو گیا۔دونوں جانب یہ کوشش ہو رہی تھی کہ زیادہ سے زیادہ لوگ گوشۂ عافیت میں پہنچائے جائیں اور حالت یہ ہو گئی تھی کہ جب کسی سہمے ہوئے اور بے آسرا ہندو خاندان کو دیکھتے تو جذبۂ انسانیت اُبھر آتا کہ اس بے چارے کا کیا قصور اور جب سُنتے کہ مشرقی پنجاب کے شہروں میں دوشیزاؤں کے برہنہ جلوس نکالے جاتے ہیں اور سرِ بازار اُن کی عِصمتیں لُوٹی جاتی ہیں، تو آتشِ انتقام بھڑک اٹھتی۔
انسان دوستی اور انتقام کی اس آویزش میں توازن رکھنا بہت دشوار ہو چُکا تھا۔مجھے پسرور کے اُس سِکھ خاندان کے مارے جانے کا بے حد صدمہ ہوا، جس نے اپنا آبائی شہر چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا، جو یہاں کی آگ میں جل بجھا۔میرے اپنے عزیزوں کا ایک پورا کنبہ چندی گڑھ میں تہہ تیغ کر دیا گیا۔اُن کے چند ہم دردوں نے اُنہیں ہاتھوں میں کڑے پہنا کے اور وقتی طور پر سِکھ ظاہر کرکے بچانے کی کوشش کی، لیکن اُنہوں نے چند لمحوں کے لیے بھی غیر مسلمان کہلانا گوارا نہ کیا ۔سب کے سب یکے بعد دیگرے موت کے گھاٹ اُتر گئے۔ایک صبح مَیں نے دفتر جاتے ہوئے مِصری شاہ( لاہور کا ایک علاقہ ) کا پُل عبور کیا تھا کہ ایک سپاہی نے کہا’’ دلّی دروازے کی طرف نہ جائیے،لاشیں پڑی ہوئی ہیں۔‘‘مَیں نے اسٹیشن کی جانب نکلنے کی کوشش کی۔فیض باغ کے پُل کے آگے پولیس نے نہ جانے دیا کہ ریلوے اسٹیشن پر لاشیں تھیں۔ مَیں مجبوراً گھر لَوٹ آیا۔
پنجاب کے میدانوں میں جو خون بہہ رہا تھا ،اس کے دھونے کا اہتمام خود فطرت نے یوں کیا کہ اُس سال دریاؤں میں شدید طغیانیاں آ گئیں۔کچھ خون دُھل گیا اور کچھ دریاؤں نے اپنے سَر لے لیا۔لاتعداد لوگ جو تلوار سے بچ نکلتے تھے، وہ ان کی موجوں کی نذر ہو گئے۔ہمارا قیام وسن پورے میں تھا۔راوی کے کناروں سے اچھلی ہوئی لہریں لاہور کی شکستہ فصیلوں سے آ ٹکرائیں ۔ہماری آبادی میں پانی چھتوں تک پہنچ گیا ۔گلی کے آر پار مکانوں کے درمیان تیر کر پیغام رسانی ہوتی ۔مستورات اور بچّوں کو تو فوجی موٹر بوٹ نکال لے گئے ۔والد اور مَیں تین دن تک مکان کی چھت پر رہے‘‘۔
’’ روڈ ٹو مکّہ‘‘ جیسے علمی و ادبی شاہ کار سے عالمی شہرت حاصل کرنے والے علّامہ محمّد اسد کسی تعارف کے محتاج نہیں۔اِس کتاب کے دوسرے حصّے کو اُن کے انتقال کے بعد اُن کی اہلیہ، پولا حمید اسد نے مکمل کیا ۔محمّد اکرام چغتائی نے ’’بندۂ صحرائی ‘‘کے نام سے اس کا اردو ترجمہ کیا ہے۔ماہِ اگست میں وہ اپنی اہلیہ اور صاحب زادے، طلال کے ساتھ ڈلہوزی کے پُرفضا مقام میں قیام پذیر تھے کہ حالات یکایک کشیدہ ہو گئے ۔شہر میں راشٹریہ سیوک سنگھ کے چُھرے باز مسلمانوں کو ذبح کرنے لگے ۔ علّامہ کی قیام گاہ میں ایک سو سے زیادہ مسلمان مَردوں، عورتوں اور بچّوں نے پناہ لے رکھی تھی۔
بلوائیوں نے ایک شب اس مکان کا بھی گھیراؤ کیا۔علّامہ تمام رات اپنے میزبان رحیم اللہ کے ساتھ پہرہ دیتے رہے ۔ان پُر آشوب حالات میں گورکھا سپاہیوں کے ایک دستے نے اُنہیں وہاں سے نکال کر بخیر و عافیت لاہور پہنچایا ۔اس دَوران اُنہوں نے کئی ایسے مناظر دیکھے، جنھوں نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ایسے ہی ایک دل خراش واقعے کا ذکر کرتے ہوئے وہ’’ بندۂ صحرائی ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’ ایک روز ہمیں مشرقی پنجاب(ہندوستان)کے شہر، فیروز پور کے اسٹیشن ماسٹر کا ٹیلی فون موصول ہوا۔اس نے اطلاع دی کہ مقرّرہ پروگرام سے ہٹ کر ابھی ابھی مہاجر عورتوں کی ایک گاڑی روانہ ہوئی ہے اور وہ چند گھنٹوں میں قصور کی سرحد پر پہنچ جائے گی۔
مَیں نے جلدی جلدی لاریوں کا انتظام کیا اور رضاکاروں کو ان پر سوار کرکے قصور کی طرف روانہ ہو گیا۔قصور پہنچا، تو وہاں میرے انتہائی مخلص اور پُرانے دوست مولانا عبداللہ قصوری اور ان کے بیٹے محمّد علی قصوری سے ملاقات ہوئی۔ہم سب ریلوے اسٹیشن پہنچے۔ایک گھنٹے بعد وہ گاڑی بھی پہنچ گئی ۔اس میں ہر عُمر کی کم از کم دو سو عورتیں تھیں اور یہ دیکھ کر ہم سب کے اوسان خطا ہو گئے کہ یہ سب مادر زاد برہنہ تھیں۔ وہ تمام مسلمان خواتین تھیں، جو زیادہ تر خود کو سر سے پاؤں تک برقعے میں چُھپائے رکھتی تھیں۔ کچھ خواتین برقعہ نہیں اوڑھتی تھیں ، لیکن اُنہوں نے شرم و حیا اور ضبطِ نفس کے نسوانی ماحول میں پرورش پائی تھی اور اب انہیں گاڑی سے برہنہ حالت میں نیچے اُتارا جا رہا تھا۔
گاڑی میں نوجوان، ادھیڑ عُمر، عُمر رسیدہ عورتوں اور نابالغ لڑکیوں کی لاشیں بھی پڑی تھیں،مگر ہمارے پاس ان کا تَن ڈھانپنے کے لیے اِتنی تعداد میں کمبل نہیں تھے۔رضاکاروں نے اپنی قمیصیں اور کوٹ اتار کر ہندوؤں کی بربریت اور وحشی پن کا نشانہ بننے والی، سسکیاں بَھرتی ہوئی ان عورتوں کی برہنگی چُھپانے کی کوشش کی،لیکن ان کی تعداد بھی اِتنی نہیں تھی کہ تمام عورتوں کے تن ڈھانپ سکتے۔ مجبوراً ہم نے ان مصیبت زدہ عورتوں کو بعجلتِ ممکنہ لاہور کے اسپتالوں اور عارضی پناہ گاہوں میں پہنچایا۔ یہ میری زندگی کے انتہائی کرب ناک تجربات میں سے ایک تھا ۔لیکن گندے جوہڑ میں کِھلنے والے کنول کی مانند اس خون خوار ماحول میں کچھ ایسے نجیب لوگ بھی ابھی باقی تھے، جو احترامِ آدمیت پر یقین رکھتے تھے، جو بلاتفریقِ مذہب و ملّت سب سے محبّت کرتے تھے۔‘‘
نقی محمّد خان خورجوی انگریزی عہد کے سینئر پولیس افسر تھے۔ریٹائرمنٹ کے بعد ڈیرہ دون میں مستقل رہائش اختیار کی۔انگریزی اقتدار کے خاتمے کا اعلان ہوتے ہی ڈیرہ دون میں بھی حالات بدتر ہوتے چلے گئے۔ہندووں اور سِکھوں کے مسلّح جتھے مسلمانوں کے گھروں پر چڑھائی کرنے لگے، جن میں نقی محمّد خان خورجوی کا گھر بھی شامل تھا۔ان حالات میں شہر کا ایک معزّز ہندو ایک مسجد کی حفاظت کے لیے اپنے ہم مذہبوں کے مقابل کھڑا ہو گیا۔نقی محمّد خان خورجوی اپنی خودنوشت’’ عُمرِ رفتہ ‘‘ میں اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں’’مجھے یہ سن کر سخت تعجب ہوا کہ رائے بہادر لالہ اگر سین، جو پلٹن بازار کی بڑی مسجد کے زیرِ سایہ رہتے تھے اور معزّز رئیس تھے، اُنہوں نے وہ کام کیا، جس کو مسلمان کبھی نہیں بھول سکتے۔
بلوے کے وقت سِکھ، مسجد کی بے حرمتی کرنا چاہتے تھے اور مسلمان مرد و خواتین کو، جنھوں نے مسجد میں پناہ لے رکھی تھی، مارنا چاہتے تھے۔لالہ اگرسین پستول لے کر مسجد کے پھاٹک پر پہنچ گئے اور سِکھوں سے کہا کہ مَیں برس ہا برس سے اس مسجد کے زیرِ سایہ رہتا ہوں، جہاں خدا کا نام لیا جاتا ہے۔اگر تم مسجد اور اس میں پناہ لینے والے مسلمانوں پر حملہ کرو گے، تو مَیں تمہارا مقابلہ کروں گا۔چوں کہ وہ ہردل عزیز تھے،اس لیے حملہ آوروں کی ہمّت پست ہو گئی اور وہ چلے گئے۔ لالہ صاحب نے مسلمانوں کو محفوظ مقام پر پہنچا دیا ۔مسجد کا مؤذن اور پیش امام یا تو مارے گئے تھے یا بھاگ گئے تھے۔ایک مؤذن تن خواہ دار لالہ سہارن پور سے لالہ صاحب نے بلوایا اور کہا کہ خواہ نمازی ہوں یا نہ ہوں،تم پانچ وقت اذان دیا کرو، کیوں کہ جس اللہ کے نام کی آواز کو میں برس ہا برس سے سُن رہا ہوں،کان اُس کے عادی ہو گئے ہیں۔بِلا اس کے سُنے تکلیف ہوتی ہے ‘‘۔
علّامہ محمّد اسد کچھ رضاکاروں اور ایک محافظ فوجی دستے کے ہم راہ گورداسپور کے علاقے،جمال پور سے اپنے میزبان چوہدری نیاز علی ، ان کے اہلِ خانہ،سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور ان کے کئی ساتھیوں کو لے کر لاہور آ رہے تھے کہ رستے میں ایک سِکھ بزرگ نے ان کی بس روک لی اور اُنہیں بتایا کہ گزشتہ تین دن اور تین راتوں سے ایک مسلمان خاندان نے اس کے گھر پناہ لے رکھی تھی۔اپنے مسلمان مہمانوں کی حفاظت کے لیے اس سِکھ کے چاروں بیٹے تلواریں سونتے گھر کے باہر پہرہ دے رہے تھے ۔سِکھ بزرگ نے خدشہ ظاہر کیا کہ گاؤں کے دیگر سِکھ بپھرے ہوئے تھے کہ وہ ان مسلمانوں کو ان کے حوالے کیوں نہیں کر رہے ۔وہ اور اس کے بیٹے زیادہ دیر تک بلوائیوں کے سامنے ٹھہر نہیں پائیں گے۔چناں چہ بوڑھے سِکھ کی درخواست پر علّامہ محمّد اسد اور ان کے ساتھیوں نے اس مسلمان خاندان کو اس گھر سے نکالا اور اپنے ساتھ لاہور لے آئے ۔
مولوی محمّد سعید کے والد کے دوست، قاضی ولی محمّد امرتسری کی ایک عزیزہ ہنگامۂ ہجرت کے دَوران اپنے گھروالوں سے بچھڑ گئی، جسے ایک سفید ریش سِکھ نے یہ کہہ کر اپنے گھر میں پناہ دی کہ’’ بیٹی خدا کا شُکر بجا لاؤکہ بچ گئی ہو۔آج سے تم اس گھر میں بیٹی بن کے رہو۔حالات درست ہوں گے، تو تمہیں تمہارے لوگوں تک پہنچا دیا جائے گا‘‘۔چناں چہ اُس سِکھ بزرگ نے اپنے قول کی پاس داری کرتے ہوئے اُس بچّی کو بیٹی کی طرح اپنے گھر میں رکھا ۔بعد ازاں، حالات بہتر ہونے پر اُسے واہگہ پہنچا کر گئے۔