• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تاریخ میرا موضوع نہیں ہے۔ نہ اس مختصر کالم میں اس کا احاطہ کیا جا سکتا ہے لیکن تاریخ سے عمومی طور پر نابلد نئی نسل اور ان لوگوں کیلئے جو کشمیر اور کشمیریوں کے بارے میں ابہام کا شکار ہیں چند حقائق کا ذکر ضروری ہے۔ صوبہ جموں، صوبہ کشمیر، لداخ، گلگت بلتستان کے سرحدی صوبے اور پونچھ جاگیر پر مشتمل ریاست جموں و کشمیر جسے اختصار کی خاطر صرف کشمیر بھی کہا جاتا ہے اپنی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں اس وقت بھی ایک آزاد اور خودمختار مملکت تھی جب دنیاکے نقشے پر ہندوستان نام کا کوئی متحدہ ملک موجود نہ تھا، یہ خطہ جو برصغیر کی تقسیم کے وقت ہندوستان کہلاتا تھا صدیوں تک کئی چھوٹی بڑی ریاستوں اور راجواڑوں میں منقسم تھا جن کے اپنے اپنے خودمختار حکمران اور اپنی اپنی سرحدیں تھیں۔ ان کی کوئی مرکزیت تھی نہ مرکزی حکومت۔ آج کشمیر کو جو لوگ اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتے ہیں، ان کے اپنے ”انگ “اس وقت بکھرے ہوئے تھے اور اکثر صورتوں میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا تھے۔ متحدہ ہندوستان تو بہت بعد میں وجود میں آیا جبکہ کشمیر اس سے بہت پہلے ایک الگ، متحد اور طاقتور ملک کے طور پر اپنا وجود منوا چکا تھا۔ اس کے اولین حکمران ہندو راجے تھے جن کے مختلف خاندانوں نے زمانہ قبل مسیح میں تقریباََ ساڑھے چار ہزار سال تک حکومت کی۔ اگر طاقت کے بل پر قبضہ کر کے کسی ملک کو دوسرے ملک کا اٹوٹ انگ بنایا جا سکتا ہے تو ہندوستان ایک سے زائد مرتبہ خود کشمیر کا ”اٹوٹ انگ“ رہ چکا ہے۔ پانڈو خاندان کے راجہ رام دیو نے جو 1813ق م سے 1744ق م تک کشمیر کا حکمران تھا، خلیج بنگال سے بحیرہ عرب تک تمام برصغیر پر قبضہ کر کے اسے کشمیر میں شامل کر لیا تھا۔ ایک اور طاقتور ہندو راجہ للتادت نے جوآٹھویں صدی عیسوی کے نصف اول میں تقریباََ 37 سال تک کشمیر کا حکمران رہا اور جس کے دور میں کشمیر ایک نہایت خوش حال اور پُرامن ملک تھا ہندوستان پر حملہ کیا اور پنجاب، بنگال، قنوح، دکن، بمبئی، مالوہ، گجرات اور دوارکا تک سارے علاقے پر قبضہ کر کے انہیں کشمیر میں شامل کر لیا۔ پشاور، ہزارہ، ٹیکسلا اور کوہستان نمک کے تمام علاقے اس کے زیر نگین تھے۔ اس کے بعد اس نے وسط ایشیائی ملکوں کا رُخ کیا اور سمرقند، تاشقند، بخارا اور کاشغر کو فتح کرتا ہوا سائیبریا (روس) تک جا پہنچا، واپسی کیلئے اس نے تبت کا راستہ اختیار کیا۔ اس طرح اس نے کشمیر کی سرحدوں کو دور دور تک پھیلا دیا۔ مسلم عہد میں سلطان شہاب الدین کشمیر کا ایک عظیم حکمران تھا جس نے 1360ء سے 1378ء تک حکومت کی۔ اس نے ہندوستان کے وہ تمام علاقے دوبارہ فتح کئے جو للتاوت کی موت کے بعدکشمیر سے الگ ہو گئے تھے۔ پنجاب، سندھ، کابل تک شمال مغربی سرحدی علاقے اور کاشغر بھی اس کے دور میں کشمیر کا حصہ تھے۔ اس نے فیروز شاہ تعلق سے ہندوستان کا بہت سا علاقہ چھین لیا تھا اور تبت کو بھی فتح کیا تھا۔ ایک اور عظیم مسلم حکمران سلطان زین العابدین بڈشاہ نے جس کا عرصہ اقتدار 1423ء سے 1474ء تک محیط تھا زیادہ توجہ اپنی رعایا کی خوشحالی اور اندرونی اصلاحات پر دی تاہم حکومت کے آخری عشرے میں پنجاب اور بعض دوسرے علاقوں کو بھی کشمیر کی حدود میں شامل کیا۔ اردگرد کے عصری حکمرانوں سے اس کے تعلقات بہت خوشگوار اور دوستانہ تھے۔ کوئی بھی ملک معاشی اور دفاعی اعتبار سے کشمیر کا ہم پلہ نہ تھا۔ دور ہنود کے ایک راجہ دزیانند نے بھی اپنے عہد میں کشمیر کی حدود میں اضافہ کیا اور کاشغر اور ختن کو فتح کرکے انہیں اپنی مملکت کا حصہ بنایا۔
دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح کشمیر کو بھی تاریخ کے کئی نشیب و فراز سے گزرنا پڑا۔ تیسری صدی قبل مسیح میں کشمیر پر پہلی بار غیرملکی تسلط قائم ہوا جب ریاست مگدھ کے راجہ اشوک نے جو بعد میں اشوک اعظم کہلایا ہندوستان کے بہت سے راجواڑوں کو فتح کر کے ایک مضبوط سلطنت کی بنیاد رکھی اور پھر کشمیر کو بھی فتح کر لیا۔ اس کے بعد کشمیر کشن خاندان کے کنشک کی مملکت کے قبضے میں بھی رہا۔ مہر گل کی قیادت میں سفید ہنوں اور پھر ذوالقدر خان تاتاری نے بھی کشمیر کوتاراج کیا۔ سوات کے ایک باشندے شاہ میر کی قسمت نے یاوری کی تو اس نے یہاں شاہ میری باشاہت کی بنیاد رکھی۔ اس طرح تاریخ خود کو دہراتی رہی اور کشمیر کبھی بیرونی اور کبھی مقامی حکمرانوں کے ہاتھ آتا رہا۔ تاآنکہ سولہویں صدی عیسوی کے اواخر میں مغل بادشاہ اکبر اعظم نے اس پر قبضہ کر لیا۔ مغلوں کے زوال کے بعد 1753 ء میں احمد شاہ ابدالی نے کشمیر کو فتح کر کے افغان عہد کی بنیاد ڈالی۔ 1819 میں پنجاب کے حکمران رنجیت سنگھ نے افغانوں کو شکست دے کر سکھوں کی حکومت قائم کی۔
ان تمام ادوار میں کشمیر بیرونی تسلط میں تورہا مگر اس کی جغرافیائی وحدت قائم رہی۔ صرف گورنر باہر سے آتے رہے۔ انگریزوں کا دور آیا تو انہوں نے لاہور کی سکھا شاہی کے ذریعے کشمیر کوجموں کے ہندو ڈوگروں کے ہاتھوں بیچ ڈالا۔ ڈوگروں نے خریدے ہوئے ڈھورڈنگروں کی طرح پہلے تو کشمیر اور کشمیریوں کے ساتھ انتہائی بہیمانہ سلوک کیا پھر جاتے جاتے ایسے حالات پیدا کئے کہ آج کشمیر ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر اپنی وحدت کھو چکا ہے۔ کشمیریوں کیلئے اب سب سے بڑا مسئلہ آزادی اور اپنی وحدت بحال کرنا ہے۔ مسئلہ کشمیر کا قابل عمل حل وہی ہو گا جو کشمیر کی وحدت کو یقینی بنائے۔ اس سے ہٹ کر ریاست کی بندر بانٹ کی گئی تو کسی کو پسند آئے یا نہ آئے، کشمیری اسے قبول نہیں کریں گے ان کی جدوجہد ایک نیا رخ اختیار کرے گی۔ وہ ماضی اور حال کی طرح مستقبل میں بھی اپنی مملکت کی وحدت اور آزادی کے لئے قربانیاں دیتے رہیں گے جو کبھی نہ کبھی ضرور رنگ لائیں گی۔ خود پاکستانی قوم بھی جس نے جموں وکشمیرکے لئے بے پناہ جانی و مالی قربانیاں دی ہیں ایسے حل کو قبول نہیں کرے گی۔
تازہ ترین