• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی سیاسی مخالف، اتحادی یا پُر اعتماد قریبی دوست کا ڈنک نکالنا تو کوئی خان اعظم سے سیکھے، تین سال (ق) لیگ کی قیادت کو نیب میں رگڑا لگوانے کے بعد آخر کار مونس الٰہی بھی وفاقی وزیر آبی وسائل بنا دیئے گئے۔ چودھری برادران کا ایک دیرینہ خواب پورا ہوا۔ چودھری مونس الٰہی کو وزارت ملنے پر یہی تبصرہ کیا جاسکتا ہے کہ’’ ہور کوئی خدمت ساڈے لائق۔‘‘ اب تو چودھری برادران کو خان اعظم سے کوئی شکوہ نہیں ہونا چاہئے ۔ مونس الٰہی آئندہ دو سالہ مدت کے دوران وزارتِ آبی وسائل میں ڈبکیاں لگائیں گے اور وفاقی وزیر کا میڈل سینے پر سجائے گجرات کی گلیوں، بازاروں میں عوام سے ووٹ مانگنے جائیں گے، ووٹرز بھی اسی بنیاد پر انہیں کاندھوں پر اٹھائیں گے کہ چودھری صاحب کا سیاسی وارث مستقبل میں ملک کے کسی نہ کسی اعلیٰ سیاسی منصب پر براجمان ہو ہی جائے گا اور ان کے دردکا درماں بنے گا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ آصف زرداری اور شریف برادران کے بعد چودھریوں کا سیاسی جانشین بھی میدان میں آہی گیا۔ آپ بھی حیران ہوں گے کہ خان اعظم نے تمام تر تحفظات کے باوجود اچانک چودھری صاحبان کا یہ دیرینہ مطالبہ کیوں تسلیم کرلیا؟ بھولے بادشاہو! بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے، سیاست اسی کو کہتے ہیں کہ پہلے مخالفین کی ناک سے لکیریں نکلواؤ لیکن جب امتحان سر پر آجائے، سیاسی ضرورتیں مجبوریاں بننے لگیں تو ایسے فیصلے کرنے ہی پڑتے ہیں کہ آخر آزادکشمیر کے انتخابات میں (ن) لیگ کا مکّو ٹھپنے، سیالکوٹ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار احسن سلیم بریار کو کامیابی دلانے کے لئے خان اعظم کو یہ کڑوا گھونٹ پینا ہی پڑنا تھا کہ (ق) لیگ آزاد کشمیر، پنجاب خصوصاً سیالکوٹ کے انتخابی حلقوں میں کشمیری ووٹ بینک کے ساتھ ساتھ عام ووٹروں میں اپنا کچھ نہ کچھ تو اثر ورسوخ رکھتی ہے۔ دراصل سیالکوٹ ضمنی انتخاب خان اعظم نہیں چودھری صاحبان کی کامیابی ہے ، یہ الگ معاملہ ہے کہ جب سے مونس الٰہی وفاقی وزیر بنے ہیں بالکل خاموش ہیں اور چودھری صاحبان نے سیالکوٹ ضمنی انتخاب میںاحسن سلیم بریار کی کامیابی پر اپنی ہی جماعت کے سینئر رہنما چوہدری سلیم بریار اور ان کے کامیاب صاحبزادے کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دی ۔ آزادکشمیر انتخابات میں تحریک انصاف کی واضح کامیابی سیالکوٹ ضمنی انتخاب میں (ن) لیگ کے امیدوار کی شکست کے بعد خان اعظم کی ٹیم کا اعتماد اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ وہ یہ دعویٰ کرنے لگے ہیں کہ (ن) لیگ میں چچا بھتیجی کے اختلافات کے باعث قیادت کا فقدان ہے اور یہ دعویٰ بھی کہ (ن) لیگ بہت جلد گروپوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ عوام نے خان اعظم کے ہاتھ پر بیعت کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ تبدیلی کو دل و جان سے قبول کرنے لگے ہیں۔ کیسا عجیب سیاسی منظر ہے کہ ایک طرف عوام آئے روز بجلی، پٹرول، ایل این جی کی آسمان کو چھوتی قیمتوں پر حکومت کو بددعائیں دیتے ہیں، کشمیر پالیسی پر اختلاف رائے بھی رکھتے ہیں لیکن جب ووٹ کی باری آتی ہے توحکومتی امیدوار ہی کامیاب قرار پاتے ہیں۔ پنجاب کے تمام ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدواروں کی مسلسل شکست کے بعدآزاد کشمیر اور سیالکوٹ میں اچانک ایسا کون سا چمتکار ہوگیا کہ سیاسی ہواؤں کا رخ (ن) لیگ کے خلاف محسوس ہونے لگا ہے۔

تحریک انصاف کی حالیہ کامیابیوں کے پس منظر میں کچھ حکومتی سیاسی فیصلوں کے ساتھ ساتھ اس بات کو مت بھولئے کہ آزاد کشمیر کے عام انتخابات میں کچھ انوکھا نہیں ہوا، ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہو یانہ ہو اس محاذ پر جتنی بھی پسپائی کیوں نہ ہو جائے عالمی سطح پر فیس سیونگ کے لئے یہی فارمولہ اختیار کیا جاتا ہے کہ وفاق میں جس پارٹی کا اقتدار ہو اسی جماعت کو آزادکشمیر میں بھی برسراقتدار لانے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام اورحکمرانوں کے معاشی مفادات کیونکہ وفاق سے جڑے ہیں اسی لئے باامرِ مجبوری انہیں وفاق میں برسراقتدار جماعت کو ہی ووٹ دینا پڑتا ہے۔ آزادکشمیر کے انتخابات میں اس بار اگر کچھ انوکھا ہوا ہے تووہ ہے خان اعظم کی یہ سوچ کہ سیاسی کارکنوں اور مخلص رہنماؤں کی بجائے ارب پتی امیدواروں کو انتخابی سیاست میں آگے لاکر انہیں ہر قیمت پر کامیاب کرایا جائے، خان اعظم کی یہ سوچ انہیں اقتدار تو دلا سکتی تھی لیکن اس طرح وہ عوام کے دلوں پر راج نہیں کرسکتے۔ ابھی عشق میں امتحان اور بھی ہیں۔ آج کے اتحادی کل کے سیاسی حریف بھی بن سکتے ہیں۔ عام انتخابات قریب آتے ہی پاکستان کا سیاسی منظر نامہ نیا رُخ اختیار کرسکتا ہے۔ اگرچہ یہ تا ثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان میں پہلی بار خیبرپختونخوا کی طرح خان اعظم کے اقتدار کو مزید پانچ سال جاری رکھنے کا تجربہ زیر غور ہے۔ اس تاثر کو تقویت دینے کے لئے ماحول بھی ساز گار بنایا جارہا ہے۔ اسی لئے سندھ میں پیپلز پارٹی سے قبل از انتخابات اقتدار چھیننے کی ایک کوشش درونِ خانہ جاری ہے لیکن یہ کام اتنا بھی آسان نہیں کہ جب میدان میں جی ڈی اے اور (ق) لیگ جیسے مضبوط سیاسی اتحادی موجود ہوں، پنجاب میں (ق ) لیگ انتخابی سیاست میں پہلے سے بہتر تا ثر دے کر اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دے رہی ہو کہ پنجاب میں (ن) لیگ اور تحریک انصاف کا متبادل (ق) لیگ ہی ہے اور اسٹیبلشمنٹ بھی اس شش و پنج میں مبتلا ہو کہ (ن) لیگ کی سیاسی طاقت کو ختم کرنے کے لئے کون سی جماعت بہترین چوائس ہوسکتی ہے تو یقیناً (ق) لیگ ہی وہ جماعت ہے جو (ن) لیگ کے ایک بڑے دھڑے کو کسی مناسب وقت پر اپنے ساتھ ملا کر ہواؤں کا رخ بدل سکتی ہے، جب مجبوریاں ضرورتیں بن جائیں، بلاول بھٹو آزادکشمیر انتخابات میں سرپرائز دیں، پنجاب میں جہانگیر ترین تمام تر سختیوں کے باوجود سیاسی طور پر پوری طرح متحرک ہوں تو اشارے بڑے واضح ہیں کہ کہیں نہ کہیں نیا سیاسی منظر نامہ لکھا جارہا ہے۔

تازہ ترین