وہ اکتوبر کی ایک خنک صبح تھی۔فرات کے کنارے والیٔ کوفہ کے لشکر نے ایک چھوٹے سے قافلے کا رستہ روک رکھا تھا ۔لشکر کا کمان دار، سالارِ قافلہ کی غیر مشروط گرفتاری چاہتا تھا، جب کہ سالارِ قافلہ کا اصرار تھا کہ’’ اُنہیں وہیں واپس جانے دیا جائے، جہاں سے وہ آئے ہیں، یا پھر دارالسّلطنت، دمشق پہنچنے دیا جائے تاکہ حاکمِ وقت کے ساتھ براہِ راست بات چیت کر سکیں یا پھر اُنہیں مملکتِ اسلامیہ کی سرحدات کی طرف جانے کا رستہ دیا جائے تاکہ باقی زندگی میدانِ جہاد میں گزار سکیں۔‘‘، لیکن اُن کے یہ تینوں مطالبے نامنظور ہوئے۔جب سالارِ قافلہ نے دیکھا کہ والیٔ کوفہ کے فرستادہ سپاہی اُن کی جان کے درپے ہیں، تو بارگاہِ الٰہی میں عرض گزاری،’’اے اللہ! تُو ہی ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان انصاف فرما۔
انہوں نے ہمیں بلایا کہ ہماری مدد کریں اور اب ہمیں قتل کر رہے ہیں۔‘‘جانتے ہو، وہ سالارِ قافلہ کون تھے؟وہ سبطِ رسول ؐ، جگر گوشۂ بتولؓ ،گلشنِ حیدرِ کرارؓ کے حَسین پھول، سیّدنا حُسینؓ بن علی ؓ تھے۔وہ حسینؓ بن علیؓ ،جن کے نانا امام الانبیاء ؐ، حضرت محمّدﷺ ہیں، جو سرتاج الرسل ، شافعِ محشر، ساقیٔ کوثر ،وجہِ تخلیقِ کائنات ہیں۔وہ حسینؓ بن علیؓ ،جن کی اَمّی سرکارِ دوعالم ؐ کے جگر کا ٹکڑا ہیں۔آقائے کریم ؐ کی سب سے لاڈلی بیٹی، جن کے بارے میں آپؐ فرمایا کرتے تھے ،’’میرے اہلِ بیت مَیں مجھے سب سے زیادہ محبوب فاطمہؓ ہیں۔‘‘جب اپنے بابا ؐ کی خدمت میں حاضر ہوتیں ،تو آنحضرتؐ کھڑے ہو کر استقبال کرتے۔جب آپ ؐمدینے سے باہر کسی سفر پر تشریف لے جاتے، تو سب سے آخر میں سیّدہ زہرا ؓ سے ملاقات فرماتے اور سفر سے واپسی پر سب سے پہلے اُنہی کے گھر تشریف لے جاتے۔
اُمّ المومنین، سیّدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں،’’مَیں نے گفتگو میں حضرت فاطمہؓ سے بڑھ کر رسول اللہؐ کے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا۔ اُن کی چال ڈھال(بھی) رسول اللہ ؐ کی طرح تھی۔‘‘صحیح مسلم کی روایت کے مطابق، ایک روز آنحضرت ؐ نے منبر پر ارشاد فرمایا،’’فاطمہؓ میرے جسد کا ٹکڑا ہے، جس نے اُسے پریشان کیا،اُس نے مجھے پریشان کیا۔جس نے اُسے ایذا دی، اُس نے مجھے ایذا دی۔‘‘سنن ترمذی کی روایت کے مطابق، ایک شب سرکارِ دو عالم ؐ نے ارشاد فرمایا،’’ابھی ایک ایسا فرشتہ آسمان سے نازل ہوا،جو اِس رات سے پہلے زمین پر نہیں اُترا تھا۔
اُس نے اپنے پروردگار سے اجازت لی کہ مجھے سلام کرے۔اس نے مجھے بشارت دی کہ حضرت فاطمہؓ جنّتی خواتین کی سردار ہوں گی اور حضرت حسنؓ و حضرت حسینؓ جنّتی نوجوانوں کے سردار ہوں گے۔‘‘ وہ حسینؓ بن علی ؓ ،جن کے بابا امیر المومنین، سیّدنا علی المرتضیٰ ؓ ہیں، جو اسداللہ بھی ہیں اور اسدالرسولؐ بھی۔ جنھوں نے پرورش، خانۂ رسول ؐ میں پائی، جن کی تربیت خود رسول اللہ ؐ نے فرمائی۔صحیح بخاری کی روایت کے مطابق، ایک موقعے پر نبی کریمؐ نے حضرت علی المرتضیٰ ؓ سے ارشاد فرمایا،’’کیا تم اِس پر خوش نہیں ہو کہ میرے لیے تم ایسے ہو، جیسے موسیٰؑ کے لیے ہارونؑ تھے،لیکن فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا‘‘۔صحیح مسلم کی روایت کے مطابق، غزوۂ خبیر میں جب یہود کے ایک قلعے کو فتح کرنے میں مشکل پیش آئی، تو نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا،’’کل یہ جھنڈا اُسے دوں گا، جس کے ہاتھ پر اللہ فتح دے گا۔وہ اللہ اور اُس کے رسولﷺ سے محبّت کرتا ہے اور اللہ اور اُس کے رسولﷺ اُس سے محبّت کرتے ہیں‘‘۔
وہ حسینؓ بن علی ؓ ،جو اپنے نانا ؐ کی آنکھ کا تارا تھے۔خطّۂ عرب کے معروف عالم، ڈاکٹر علی محمّد محمد الصلابی نے اپنی کتاب’’ سیّدنا علی بن ابی طالبؓ، شخصیت اور کارنامے‘‘میں یعلیٰ العامریؓ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ وہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک دعوت پر گئے۔اللہ کے رسول ؐ لوگوں کے سامنے ٹھہر گئے۔حضرت حسینؓ دوسرے بچّوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔رسول اللہ ؐ نے اُنہیں پکڑنا چاہا، لیکن وہ اِدھر اُدھر بھاگتے رہے۔ رسول اللہ ؐ بھی اُن کو ہنساتے رہے اور پیچھے دوڑتے رہے، یہاں تک کہ اُن کو پکڑ لیا۔پھر آپؐ نے ایک ہاتھ سے اُن کی گُدی اور دوسرے سے ٹھوڑی پکڑ کر اُن کے منہ کو بوسہ دیا اور فرمایا،’’حسینؓ مجھ سے ہے اور مَیں حسینؓ سے ہوں۔اے اللہ! جو حسینؓ سے محبّت کرے، تو اُسے محبوب رکھ۔
حسینؓ میرے نواسوں میں سے ایک نواسہ ہے۔‘‘سنن ابنِ ماجہ اور سنن نسائی میں حضرت ابو ہریرہؓ سے یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا،’’ جس نے حسنؓ اور حُسینؓ سے محبّت کی، اس نے درحقیقت مجھ ہی سے محبّت کی اور جس نے حسنؓ اور حسینؓ سے بغض رکھا،اُس نے مجھ ہی سے بغض رکھا۔‘‘ ایک بار نبی کریم ؐ مسجدِ نبوی میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اِتنے میں حسنین کریمینؓ تشریف لائے۔صاحب زادوں نے سُرخ رنگ کی قمیصیں زیبِ تن کی ہوئی تھیں اور کم عُمری کے سبب لڑکھڑا کر چل رہے تھے۔سرکار دو عالم ؐ نے شہہ زادوں کو دیکھ کر خطبہ روک دیا، منبر سے نیچے تشریف لائے،دونوں بھائیوں کو اُٹھایا اور اپنے سامنے بِٹھا لیا۔
معراج کی رات سدرۃ المنتہیٰ کے اُس پار لے جانے کے لیے جن کی خدمتِ اقدس میں جنّتی سواری پیش کی گئی، وہ کالی کملی والے آقا ؐ،اپنے لاڈلوں کے لیے خود سواری بن جایا کرتے تھے۔وہ حسینؓ بن علی ؓ ،جن سے نانا ﷺکو اِس قدر محبّت تھی کہ اگر حسینؓ روتے، تو امام الانبیاءؐ بے چین ہو جاتے۔امام طبرانی کی روایت کے مطابق، ایک مرتبہ آقائے کریمﷺ ،اُمّ المومنین سیّدہ عائشہ ؓ کے گھر سے باہر تشریف لائے اور سیّدہ فاطمہؓ کے گھر کے پاس سے گزرے، تو اپنے نواسے، حضرت حُسینؓ کو روتے ہوئے سُنا۔اِس پر اپنی صاحب زادی سے ارشاد فرمایا،’’کیا تمھیں معلوم نہیں کہ اِس کا رونا مجھے تکلیف دیتا ہے۔‘‘
وہ حسینؓ بن علیؓ، نانا ؐ کے جانشینوں نے بھی جن کے ناز اُٹھائے۔ابوبکر ؓو عُمرؓ کو دُخترِ رسولؐ اور اُن کی آل سے بڑھ کر کوئی محبوب نہ تھا۔ایک روایت کے مطابق، سیّدہ فاطمہ زہراؓ جب دارِ فانی سے رخصت ہوئیں،تو سیّدنا علی المرتضیٰ ؓ نے جانشینِ رسولؐ، سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کو مصلیٰ امامت پر کھڑا کر دیا کہ دخترِ رسولؐ کی نمازِ جنازہ پڑھائیں۔امیر المومنین، سیّدنا عُمر فاروق ؓ اپنے زمانۂ خلافت میں تین مرتبہ مدینہ منورہ سے باہر تشریف لے گئے اور تینوں بار دارالخلافہ میں اپنا نائب، حضرت علی المرتضیٰؓ کو مقرّر فرمایا۔آپؓ کے عہد میں جب فتوحات کا دروازہ کُھلا، تو آپؓ نے صحابۂ کرامؓ کے لیے وظائف مقرّر فرمائے۔اِس موقعے پر حسنین کریمین ؓ کا وظیفہ بدری صحابہؓ کے برابر مقرّر فرمایا۔
جب بلوائیوں نے امیر المومنین، سیّدنا عثمان غنیؓ کو شہید کرنے کے لیے قصرِ امارت کا محاصرہ کیا، تو سیّدنا علی المرتضیٰ ؓ نے اپنے شہہ زادوں کو اُن کے دفاع کے لیے بھیج دیا۔شہادتِ عثمانؓ کی خبر ملی، تو بلوائیوں کے ہاتھوں زخمی صاحب زادوں سے سخت ناراضی کا اظہار فرمایا،’’ تمہارے وہاں ہوتے ہوئے امیر المومنینؓ کیسے شہید کر دئیے گئے۔‘‘ باہمی الفت و محبّت کا یہ عالم تھا کہ سیّدنا علی المرتضیٰؓ اور اُن کا گھرانہ اپنے بچّوں کے نام خلفائے ثلاثہؓ کے ناموں پر رکھنے میں فخر محسوس کرتا تھا۔ ذرا کربلا کے شہیدوں کے اسمائے گرامی پر تو نگاہ ڈالیے، جن میں حضرت علی المرتضیٰؓ کے صاحب زادے، عثمان اور ابوبکر، جب کہ سیّدنا حسن ؓبن علیؓ کے صاحب زادے، ابوبکر بھی شامل تھے۔
وہ حسینؓ بن علیؓ ،جنہیں کوفیوں نے ہزاروں خطوط لکھ کر یقین دلایا کہ وہ یزید کی حکومت سے بے زار ہیں اور امامِ عالی مقامؓ کے دستِ مبارک پر بیعت کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں، لیکن حضرت مسلم بن عقیلؓ کے مظلومانہ قتل سے شہادت گاہِ کربلا تک اُنہوں نے قدم قدم پر ثابت کیا کہ اُن کے دل تو نواسۂ رسولؐ کے ساتھ،لیکن تلواریں والیٔ کوفہ کے ساتھ تھیں۔حرمین شریفین کا تقدّس اِس قدر عزیز تھا کہ جب حضرت عبداللہ بن عباس ؓ، حضرت عبداللہ بن عُمرؓ ، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ اور چند دیگر صحابہؓ نے کوفہ جانے سے روکا کہ’’ وہاں مت جائیے، کیا آپ کو معلوم نہیں کہ کوفہ والوں نے آپؓ کے والدِ گرامی اور برادرِ بزرگ کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟ ‘‘تو جواب میں فرمایا،’’مجھے کہیں اور قتل ہو جانا،اللہ اور اُس کے رسولؐ کے مقدّس شہروں میں خون ریزی برپا ہونے سے زیادہ عزیز ہے۔‘‘
وہ حسینؓ بن علیؓ ،جنھوں نے کربلا کے مقتل میں صرف اِس لیے جامِ شہادت نوش فرمایا کہ باطل کو حق کہنے کے لیے تیار نہ تھے، جنھیں اپنے نانا ؐ کے لائے ہوئے دین میں تحریف گوارا نہ تھی۔جو ظلم کی حکومت کی بجائے عدل و انصاف کی حکومت پسند فرماتے تھے۔جنھیں احکامِ الٰہی سے اِس قدر محبّت تھی کہ عین لڑائی میں بھی نماز ادا کی۔ جنھوں نے اپنا کنبہ ذبح کروا کے اُمّت کو یہ سبق دیا کہ جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنا، سب سے افضل جہاد ہے۔جنھوں نے کسی دنیوی منفعت،عُہدے یا اقتدار کے لیے کوفہ کا قصد نہیں فرمایا تھا، بلکہ اُن کا مطمعِ نظر دین کی سربلندی و سرفرازی تھی۔اُن سے عشق و محبّت کا یہی تقاضا ہے کہ اُن کے اسوۂ حسنہ کو حرزِ جاں بنایا جائے۔اُن کے اخلاقِ عالیہ کو اپنایا جائے اور اُنھوں نے جن مقاصد کے لیے قربانی دی،اُنہیں اپنا مقصدِ حیات بنایا جائے۔
وہ حسینؓ بن علیؓ ،جن کی مظلومانہ شہادت کے بعد مدّتوں عالمِ اسلام کی فضا سوگوار رہی۔ ایک بار کسی عراقی نے حضرت عبداللہ بن عُمرؓ سے حالتِ احرام میں مچھر مارنے کے بارے میں پوچھا، تو آپؓ نے ٹھنڈی آہ بھر کرحاضرین سے فرمایا،’’اِسے دیکھو تو سہی!یہ مجھ سے مچھر مارنے کا حکم پوچھ رہا ہے ، حالاں کہ انہوں نے نبی کریم ؐ کے نواسے کو شہید کردیا تھا اور مَیں نے خود حضورؐ سے سُنا ہے کہ ’’یہ دونوں ( حضرت حسنؓ وحضرت حسین ؓ ) میرے گلشنِ دنیا کے دو پھول ہیں۔‘‘
وہ حسینؓ بن علیؓ ،جن کی شہادت کے بعد امام زین العابدین ؒ اور دخترِ رسولؐ کے گھرانے کی عفّت مآب خواتین پر مشتمل لُٹا پٹا قافلہ جب مدینہ منوّرہ پہنچا، تو اُن کا استقبال کرنے والوں میں امامِ عالی مقامؓ کی چچا زاد، سیّدہ زینب بنتِ عقیلؓ بھی شامل تھیں، جو رو رو کر اشعار پڑھ رہی تھیں۔مولانا محمّد اسماعیل ریحان نے’’تاریخ اُمّتِ مسلمہ‘‘ میں ان عربی اشعار کو نقل کیا ہے، جن کا ترجمہ یہ ہے،’’لوگو!تم کیا جواب دو گے، جب پیغمبرؐ تم سے پوچھیں گے…کہ تم نے آخری اُمّت ہو کر کیا کیا؟…میرے بعد میری اولاد اور میرے گھر والوں سے کیا سلوک کیا؟…ان میں سے کچھ قیدی بنے،کچھ مقتول ہو کر خاک و خون میں نہلا دیے گئے…مَیں نے تمھاری جو رہنمائی کی تھی، اُس کا بدلہ یہ تو نہ تھا…کہ میرے بعد میرے اقارب سے بدسلوکی کرو۔‘‘