• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قوم کل اپنا 74واں یومِ آزادی کامل شعور کے ساتھ منائے گی کہ آزادی دنیا کی سب سے عظیم نعمت ہے جس کی حفاظت ہم سب پر فرض ہے۔ آج کی نسل اِس حقیقت سے واقف ہی نہیں کہ تشکیلِ پاکستان میں ﷲ تعالیٰ کی مشیت نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ہر شے برصغیر کے مسلمانوں کے خلاف جا رہی تھی۔ تاریخ کا دھارا مخالف سمت میں بہہ رہا تھا اور دنیا کی سب سے بڑی طاقت برطانیہ کسی حال میں بھی نوآبادیات کو اقتدار منتقل کرنے پر تیار نہیں تھی۔ ہندو تعداد میں مسلمانوں سے تین گنا زیادہ اور تعلیم، صنعت و حرفت، تجارت اور سرکاری ملازمتوں میں بہت آگے تھے۔ اُنہوں نے انڈین نیشنل کانگریس کے تحت اپنے آپ کو سیاسی طور پر منظم کر لیا تھا اور اُنہیں گاندھی جی کی شخصیت میں ایک ایسی قیادت میسر آ گئی تھی جس نے ایک طرف ’اہنسا‘ (عدم تشدد) کا فلسفہ پیش کیا اور عالمی برادری میں شہرت پائی اور دُوسری طرف ہندو قوم اُن کی پرستش کرنے لگی۔مسلمان جنہوں نے برطانوی حکومت کی چیرہ دستیوں کا جان پر کھیل کر مقابلہ کیا تھا، وہ سیاسی ا ور ذہنی اعتبار سے کئی دھڑوں میں تقسیم تھے۔ انگریز حکمران اُن کے مقابلے میں ہندوؤں کو ترجیح دیتے۔ برصغیر کے مسلمانوں میں بڑی بڑی تحریکیں اُٹھیں جو زیادہ تر جذبات کی پیداوار تھیں۔ اُن میں تحریکِ خلافت اور تحریکِ مجاہدین نے بہت گہرے اثرات مرتب کیے اور بڑے بڑے مقرر اور خطیب پیدا کیے، مگر وہ قوم کے مستقبل کا کوئی واضح لائحہ عمل نہ دے سکے۔ واضح نصب العین کی پہلی سنجیدہ کوشش دسمبر 1906 میں اُس وقت ہوئی جب نواب آف ڈھاکہ جناب سلیم ﷲ نے پورے برِصغیر سے دو ہزار کے لگ بھگ مندوبین کو ایک اجتماع میں ڈھاکہ آنے کی دعوت دی۔ افتتاحی اجلاس میں جناب وقارالملک نے اپنے صدارتی خطبے میں حاضرین کی توجہ اِس نازک ترین مسئلے کی طرف مبذول کرائی کہ جب انگریز ہندوستان چھوڑ دینے پر مجبور ہو جائیں گے، اُس وقت مسلمانوں کو ہندوؤں کی بےرحم اکثریت کا سامنا ہو گا۔ اُس گھمبیر صورتِ حال سے نمٹنے کیلئے ہمیں آج منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔ اُس تاریخی اجتماع میں جناب سر آغا خان کی زیرِصدارت آل انڈیا مسلم لیگ قائم ہوئی۔ اُس عظیم الشان پیش رفت سے چند ماہ پہلے ہی سرآغا خان کی قیادت میں مسلم زعما کا ایک وفد وائسرائے ہند سے ملا اور مسلمانوں کو جداگانہ انتخابات کا حق دینے کا مطالبہ کیا جو تسلیم کر لیا گیا۔ اِ س طرح برصغیر میں یہ اعلان مسلم قومیت کا سنگِ بنیاد ثابت ہوا۔

قائدِاعظم جنہیں 1916 میں سفیرِ امن کا خطاب ملا تھا کہ وہ آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان مفاہمت پیدا کرنے میں کامیاب رہے تھے، مگر وہ ہندو قیادت کی تنگ نظری اور وَعدہ خلافی سے عاجز آ کر انگلستان چلے گئے۔ اُن دنوں مجلسِ احرارکا بڑا غلغلہ تھا جس کی قیادت جناب عطاء اللہ شاہ بخاری کر رہے تھے جو بےبدل خطیب اور مسلم لیگ کی سیاسی جدوجہد کے خلاف تھے۔ یہی عالم جمعیت علمائے ہند کا تھا، گویا اُس عہد کی متحرک مسلم طاقتیں مسلمانوں کے لئے آزاد وطن کے قیام کی مخالف تھیں، البتہ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے آخری آپشن کے طور پر تقسیمِ ہند کا منصوبہ پیش کیا تھا۔ برِصغیر میں تین ایسی عہدساز شخصیتیں ابھر کر سامنے آئیں جنہوں نے مختلف حیثیتوں میں تاریخ کا دھارا بدل ڈالا۔ یہ شخصیتیں سر سید احمد خان، حکیم الامت علامہ اقبال اور قائدِاعظم محمد علی جناح پر مشتمل تھیں۔ اُن کے علاوہ عالمی سطح پر ایک ایسا شخص قدرتِ الٰہی سے نمودار ہوا جس نے قیامِ پاکستان کے لئے سازگار حالات پیدا کیے جس کے دور دور تک آثار نظر نہیں آتے تھے۔ اُس کا نام ہٹلر تھا۔ اُس نے بہت طاقت ور برطانیہ کا بھرکس نکال دیا اور اُسے بدترین شکست سے بچنے کے لئے امریکہ سے امداد طلب کرنا پڑی۔ 1942 میں برطانوی وزیرِاعظم چرچل نے امریکی صدر روزویلٹ (Roosevelt) سے معاہدہ کیا کہ جنگ ختم ہو جانے کے بعد وہ تمام نوآبادیات کو آزاد کر دیں گے۔ چرچل جو کسی قیمت پر ہندوستان کو آزاد کرنے کے لئے تیار نہیں تھے، اُنہیں امریکہ کے سامنے سرنڈر کرنا پڑا۔ جنگ ختم ہوئی، تو برطانیہ میں لیبر پارٹی کے قائد مسٹر اٹیلی (Attlee) برسرِاقتدار آ گئے جو ہندوستان کی تقسیم کے سخت خلاف تھے، مگر اُنہیں مسلمانوں کی زبردست انتخابی طاقت کے سامنے سرنڈر کرنا پڑا اور14؍اگست 1947 کی شب پاکستان معرضِ وجود میں آ گیا۔

اِس دوران قائداعظم اپنی قوم کے مزاج میں عظیم تغیر لا چکے تھے۔ علامہ اقبال نے پاکستان کا تصور 1930 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الٰہ آباد میں پیش کیا، قائداعظم نے اُسے لاہور کے تاریخ ساز اجلاس منعقدہ 1940 میں قومی نصب العین قرار دِیا اور محض سات سال کی مدت میں ﷲ تعالیٰ کی منشا کے مطابق وہ کارنامہ سرانجام دیا جس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ دراصل قدرت اُنہیں ایک عظیم الشان مقصد کے لئے تیار کر رہی تھی۔ والدین نے اُن کا نام محمد علی رکھا تھا اور یوں محمدﷺ کی ذات والی صفات اور اِسلام اُن کی زندگی میں روح کی طرح داخل ہو گئے۔ اُنہوں نے کراچی میں سندھ مدرسۃ الاسلام سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور یوں بچپن ہی سے اسلام کے ساتھ تعلق گہرا ہوتا گیا۔ بعدازاں اُنہوں نے لندن کے اُس ادارے سے قانون پڑھا جس کے صدر دروازے پر یہ جملہ درج تھا ’’محمدﷺ دنیا کے سب سے بڑے قانون دان ہیں۔‘‘ وہ اِسلام کے زبردست شیدائی اور جاںنثار سپاہی تھے۔ ان کی جدوجہد سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست وجود میں آئی تھی اور انہوں نے ریڈیو پر اہلِ لاہور سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اسلام کی جدید تجربہ گاہ قائم ہو گئی ہے جس کے ذریعے اسلام کے قانون، معاشی نظام اور تمدن کا اطلاق کیا جائے گا۔ ہمیں قائداعظم کے اِس مشن کو مکمل کرنے کا عہد یومِ آزادی کے موقع پر کرنا اور اسے اپنا نصب العین بنا لینا چاہئے کہ خدائی معجزےکی یہی سب سے بڑی طاقت ہے۔

تازہ ترین