طالبان کے افغانستان پر 20 سال بعد دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اس کے رہنماؤں کی اپنے ملک میں واپسی کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔
اسی حوالے سے اطلاعات ہیں کہ طالبان کے نائب امیر ملا عبدالغنی برادر کا بھی افغانستان میں واپسی کا امکان ہے جو 20 برس بعد واپسی اپنے ملک آرہے ہیں اور یہاں انھیں اہم ذمہ داری بھی دی جاسکتی ہے۔
ملا عبدالغنی برادر امارات اسلامی افغانستان کے نائب امیر ہیں، اور یہی وہ شخصیت ہے جس نے 2020 میں امریکا کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
ملا عبدالغنی اخوند 1968 میں صوبہ اروزگان کے علاقے ویتمک میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق درانی پشتون قبیلے پوپلزئی سے ہے۔
وہ طالبان کے بانی رہنما ملا محمد عمر کے نوجوانی کے ساتھی رہے، دونوں ایک ساتھ 1980 میں سویت یونین کے خلاف افغان جہاد میں نظر آئے، جہاں عبدالغنی اخوند افغان مجاہدین کے نائب امیر تھے۔
ملا عبدالغنی اخوند کو ان کے دوست ملا محمد عمر نے ہی برادر یعنی بھائی کا لقب دیا تھا جس کے بعد سے انہیں ملا عبدالغنی برادر یا ملا برادر کے نام سے جانا جاتا ہے۔
وہ طالبان تحریک کے بانیان میں سے ہیں، اور 1994 میں اس تحریک کے قیام کے بعد وہ ملا محمد عمر کے نائب مقرر ہوئے۔
طالبان کے دورِ اقتدار میں انہیں کیا عہدے ملے تھے اس بارے میں متفرق آرا سامنے آتی رہی ہیں۔
ان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ 1996 سے 2001 تک وہ افغانستان کے صوبے ہرات اور نمروز کے گورنر رہے، یا پھر وہ افغانستان کی مغربی کمانڈ کے کور کمانڈر تھے۔
امریکا کا اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اپنی دستاویز میں ملا بردار کو طالبان کے دورِ اقتدار میں ڈپٹی چیف آف آرمی اسٹاف اور کمانڈر سینٹرل آرمی کور کابل بتاتا ہے۔
جبکہ انٹرپول کے مطابق طالبان کے دورِ اقتدار میں ملا عبدالغنی برادر ڈپٹی وزیر دفاع تھے۔
امریکا کے 2001 میں طالبان حکومت پر حملے کے بعد ملا عبدالغنی برادر افغانستان سے فرار ہوگئے تھے۔
ملا برادر کے بارے میں افغانستان اور پھر اس کے بعد پاکستان میں گرفتاری کی غیر مصدقہ اطلاعات بھی سامنے آئیں، تاہم وہ امریکا سے امن معاہدے پر بات چیت کے آغاز کے بعد دوبارہ منظر عام پر آئے۔
قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے قیام کے بعد ملا عبدالغنی برادر اس کے انچارج مقرر ہوئے۔
ان کے بارے میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ طالبان کارروائیوں کی نگرانی کرتے رہے ہیں، ملا عبدالغنی برادر تنظیم کے رہنماؤں کی کونسل اور مالی امور چلاتے تھے۔