• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ کالم میں ’’ریڈرز ڈائجسٹ‘‘ کے بانی بارے اس کے ایک دوست کا یہ تبصرہ لکھا تھا

"HE LISTENS FAR MORE THAN HE TALKS"شائع ہونے پر FAR.... "FOR" میں تبدیل ہو چکا تھا جو بیہودہ ہونے کی حد تک غلط ہے۔ اک اور ضروری وضاحت بھی ہے اور وہ یہ کہ بہت سے قارئین پوچھ رہے ہیں کہ میں ’’طالبان‘‘پر قلم کیوں نہیں اٹھا رہا تو عرض یہ ہے کہ ہر موضوع پر منہ مارنا ضروری نہیں ہوتا اور یہ تو یونہی ہے کہ کسی کی شادی سے بھی پہلے یہ پیش گوئی کی جائے کہ اس شخص کی اولاد کتنی اور کیسی ہوگی؟ ایکسپرٹس کی بات اور ہے۔ افغانستان کی تاریخ، اس کا ماضی سامنے ہے اس لئے مجھ جیسے کودن کا اس کے آنے والے کل پر تبصرہ سے گریز ہی بہتر ہے۔ دھند در دھند در دھند چھٹنے اور گرد در گرد در گرد بیٹھنے دیں، آپ کو خود ہی اندازہ ہو جائے گا کہ میں نے اس مقبول عام موضوع کو بائی پاس کرنا کیوں ضروری سمجھا؟ اور یوں بھی مجھے تو بین الاقوامی کیا ’’قومی‘‘ معاملات ہی سمجھ نہیں آتے، خارجہ کیا ’’داخلہ‘‘ امور ہی پلے نہیں پڑتے مثلاً اس مینار پاکستان پر ہونے والا واقعہ جسے شروع شروع میں ’’یادگار پاکستان‘‘ کہا جاتا رہا تو کسی نابغے نے کہا تھا کہ یادگاریں تو مرحومین کی ہوتی ہیں پاکستان تو زندہ ہے اور ہم زندہ قوم ہیں۔

مینار پاکستان پر دن دیہاڑے سرعام ایک خاتون کو شٹل کاک بنانے والے سات ’’شاہینوں‘‘ کی شناخت ہوچکی اور میں مسلسل سوچ رہا ہوں کہ کیا دنیا کی کوئی مشین، کوئی تحقیق یا تفتیش اس مخلوق کی ’’شناخت‘‘ کربھی سکتی ہے یا نہیں جو نہ انسان ہیں نہ جانور، نہ درندے نہ مردار خور گدِھوں جیسے پرندے نہ آبی مخلوق تو شناخت کیسی؟ذرا معلوم تو کرو کہ کن مائوں نے انہیں جنا، کن باپوں نے کیسے رزق سے انہیں اس طرح پروان چڑھایا کہ انہوں نے ماں،بہن، بیٹی کو ہی کھلونا سمجھ کر اس کے ساتھ کھیلنا شروع کردیا۔ اوباشوں کے ہجوم میں گھری ٹک ٹاکر عائشہ کا کہنا ہے کہ . .. .’’مجھے بچانے والے بھی مجھے نوچتے رہے۔ ہجوم میرے ساتھ کھیل رہا تھا، جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں جس پر نشان نہ ہو۔ جینے کی کوئی وجہ نہیں بچی‘‘۔

عائشہ کا یہ بیان حرف بحرف اخبار سےمستعار لیا اور اسے لکھتے وقت یہ عجیب سا خیال میرے ذہن میں آیا کہ یہ عائشہ نہیں،پاکستان بول رہا ہے کہ...

’’مجھے بچانے والے بھی مجھے نوچتے رہے‘‘

ملکوں کے دو ہی تو محافظ ہوتے ہیں۔ ایک اس کی اشرافیہ، دوسرے اس کے عوام، اشرافیہ ہماری اشرف غنی اور عوام وہی مینار پاکستان والے۔ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی اور المیہ تو یہ کہ دنیا میں کوئی فائر فائٹر اور فائر بریگیڈ ایسا نہیں جو ہوس کی آگ بجھا سکے اوریہاں تو ’’زر، زن، زمین‘‘ ہمارے محاوروں میں موجود ہے۔ میں نے ہفتہ دس دن پہلےہی کہیں کہا یا لکھا کہ قبل از اسلام والے عرب معاشرہ کی طرح بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے کو ’’قانونی‘‘ درجہ دے دیا جائے لیکن خدا کی پناہ کہ یہاں تو دفن شدہ کفن میں بھی محفوظ نہیں تو مسئلہ کا حل کیا ہے؟

بڑی بڑی خبریں چل رہی ہیں

پولیس بالآخر ایکشن میں ہے

شناختوں کا عمل جاری ہے

آئی جی پنجاب نے وزیراعظم کو تفصیلات سے آگاہ کردیا ہے

3 رکنی انکوائری کمیٹی بھی قائم ہو چکی

نادرا سے بھی رابطے ہو رہے ہیں

’’انصاف ہوتا نظر آئے گا‘‘ جیسے نعرے بھی لگ رہے ہیں۔

قصور والی ننھی منی معصوم سی زینب سے لے کر مینار پاکستان فیم یا ڈی فیم عائشہ تک یہی کچھ ہوتا ہے اور کب تک ہوتا رہے گا؟ کم از کم میں نہیں جانتا کہ ایسے مسائل کے حل کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ چند برس پہلے میں نے ایک ریسرچ کی سمری پڑھی تھی۔ اس ریسرچ کا موضوع یہ تھا کہ مٹھی بھر یہودیوں نے پوری دنیا کو آگے لگا رکھا ہے تو اس کی وجہ یا وجوہات کیا ہیں؟پہلی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ ان کی مائیں بہترین مائیں ہوتی ہیں۔ تب مجھے نپولین کا وہ شہرۂ آفاق قول یاد آیا کہ ’’تم مجھے اچھی مائیں دو، میں تمہیں اچھی قوم دوں گا‘‘(مفہوم) اور ظاہر ہے یہ کام سطحی چھچھورے انداز میں دو چار دس برس میں ممکن نہیں اور طویل المدتی منصوبہ سازی اور پھر کنٹی نیوٹی ہمارے جینز یا خمیر میں ہی نہیں سو زینب کے بعد عائشہ، عائشہ کے بعد کوئی صغریٰ اور صغریٰ کے بعد کوئی فاطمہ ۔

جہاں عورت یعنی ماں کو پائوں کی جوتی سمجھا جاتا ہو وہاں ’’جوتیوں‘‘ کی کوکھ سے جنم لینے والی عفریت نما مخلوق نہ جنم لے گی تو کیا ہوگا؟

جارج واشنگٹن کہتا تھا۔

"MY MOTHER WAS THE MOST BEAUTIFUL WOMEN I EVER SAW. ALL I AM, I OWE TO MY MOTHER".

ہیری ٹرومین نے کہا

"SINCE A CHILD AT MY MOTHER'S KNEE, I HAVE BELIEVED IN HONOR, ETHICS & RIGHT LIVING FOR ITS OWN REWARD.

جنت ماں کے قدموں تلے اور ماں جوتی؟ . . . . تو انجام جیسا بھی ہو، قابل فہم ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین