• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے سب سے متنازع انتخابات کے ذریعے برسرِ اقتدار آنے والی پاکستان تحریکِ انصاف نے اپنی حکومت کے پہلے تین سال مکمل کر لئے ہیں۔ آئیے اس پی ٹی آئی کی پہلی حکومت کے پہلے تین سالوں کی کارکردگی کا تقابل پاکستان پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کے پہلے تین سالوں سے کرتے ہیں تاکہ پاکستان کی نوجوان نسل کو پتہ چلے کہ حقیقی لیڈر شپ اور کسی کے سہارے آنے والوں میں کیا فرق ہوتا ہے۔ یاد رہے عمران حکومت نے تقریباً 5.8جی ڈی پی کی شرح سے ترقی کرتے ہوئے ملک کو خطّے کا پسماندہ ترین ملک بنا دیا ہے جبکہ ذوالفقارعلی بھٹو نے جب 20ستمبر 1971کو ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو پاکستان چند دن پہلے ایک تاریخی شرمناک شکست سے دوچار ہو چکا تھا۔ پوری قوم شکستہ دل، مایوس اور صدمے سے نڈھال تھی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور مغربی پاکستان کے پانچ ہزار مربع میل علاقے پر بھارت کے قبضے نیز معیشت اور ہرادارے کی تباہی کے بعد بیرونی دنیا پاکستان کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا رہی تھی۔ ایسے مایوس کن حالات میں جناب بھٹو نے دن رات محنت کرکے چند ہی برس میں پاکستان کو پہلے سے زیادہ توانا اور اہم ملک بنا دیا۔ ان کی سیاسی بصیرت، انتظامی صلاحیتوں اور برق رفتار فیصلوں نے نہ صرف پاکستانی عوام کو ایک نئی امید اور حوصلہ بخشا بلکہ ان کا شمار دنیا کے ممتاز اور معتبر سیاسی رہنمائوں میں ہونے لگا۔ بھٹو صاحب کے پہلے تین برس میں قومی اہمیّت کے جتنے کام ہوئے اسکی مثال پاکستان تو کیا دنیا کے دیگر ممالک میں بھی کم ہی ملتی ہے۔ 20 دسمبر 1971سے 20دسمبر 1974 تک کے تین برسوں میں بھٹو شہید نے پاکستان کو دو آئین دئیے۔ ایک 21اپریل 72کا عبوری آئین جس کے تحت ملک سے مارشل لا کا خاتمہ کیا گیا اور دوسرا 10اپریل 1973کو منظور ہونے والا پاکستان کا متفقہ مستقل آئین، 2جولائی 72کو انڈیا کے ساتھ شملہ معاہدہ ہوا جسکے تحت پاکستان کو ترانوے ہزار جنگی قیدی اور پانچ ہزار مربع میل کا علاقہ واپس ملا۔ 30دسمبر 73کو سوویت یونین کے اشتراک سے پاکستان اسٹیل مل کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 22فروری 1974کو لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی گئی اور بھٹو شہید کو اس کا چیئرمین منتخب کیا گیا۔ گویا پاکستان کو مسلم دنیا کا سربراہ تسلیم کر لیا گیا۔ یہ واقعہ بھی دنیا کی تاریخ میں کم ہی دیکھا گیا ہے کہ جس ملک نے کسی دوسرے ملک سے جنگ کے ذریعے آزادی حاصل کی ہو۔ وہ چند سالوں میں دوبارہ ایک دوسرے کے اتنے قریب آگئے ہوں۔پہلے شیخ مجیب الرحمان اسلامی سربراہ کانفرنس میں شرکت کرنے کے لئے لاہور آئے اور پھر چند ماہ بعد ہی 27جون 1974کو بھٹو شہید نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا جہاں ڈھاکہ میں ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا کیونکہ بنگالی عوام 71کے دلخراش واقعات کا ذمہ دار جنرل یحییٰ خان اور اس کے ساتھیوں کو سمجھتے تھے۔ 18اکتوبر 1974کو بھٹو صاحب نے امریکی دھمکیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے فرانس کے ساتھ ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ کا معاہدہ کیا۔ جسے بعد میں جنرل ضیاء نے منسوخ کردیا۔ دسمبر 1974میں ہی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا آغاز ہوا۔ جسکی پاداش میں ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی جان کی قربانی دینی پڑے۔ صر ف یہی نہیں ان کے اقتدار کے پہلے سال ہی یعنی 1972میں وزارتِ سائنسی امور کا قیام عمل میں لایا گیا۔ نئی لیبر پالیسی، زرعی، تعلیمی، قانونی اور پولیس اصلاحات کا نفاذ ہوا۔ یوم ِ مئی منانے کا آغاز ہوا۔ مزدوروں، کسانوں اور محنت کشوں کو یونین سازی کا حق دیا گیا۔ اگلے دو سال میں ملک کے مختلف صوبوں میں 6میڈیکل کالج اور مختلف یونیورسٹیاں قائم کی گئیں جہاں تعلیم تقریباً بلا معاوضہ تھی جبکہ طلباء سے لوکل بسوں میں صرف 10پیسے اور شہر سے باہر جانے کے لئے آدھا کرایہ لیا جاتا تھا۔ 19جولائی 1973کو یونیورسٹی گرانٹس کمیشن قائم کیا گیا، اسی ماہ نیف ڈیک قائم ہوا، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، نیشنل بک فائونڈیشن، پاکستان نیشنل سنٹر اور لاہور میں پاکستان کی پہلی خشک بندرگاہ کے علاوہ پارلیمنٹ ہائوس کا سنگِ بنیاد اور کوئٹہ ٹی وی سنٹر کا آغاز بھی بھٹو شہید کے ابتدائی تین سال میں ہوا۔ قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کا آسان حصول بھی اسی زمانے میں ہوا جس نے بیرونِ ملک خصوصاً مڈل ایسٹ میں پاکستانیوں کے لے ملازمتوں کے دروازے کھول دیے۔ اس کے مقابلے میں اس حکومت کے ابتدائی تین سال میں سیاسی انتقام، کرپشن، مہنگائی، بیروزگاری، میڈیا پر پابندیوں، خارجہ پالیسی کی ناکامیوں اور جھوٹے پروپیگنڈے کے جو ریکارڈ قائم ہوئے ہیں ان سے پوری قوم واقف ہے۔ مختصر الفاظ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کے پہلے تین سالوں میں مایوس لوگوں کو ایک نئی امید، حوصلہ اور ولولہ ملا تھا جسکی وجہ سے عوام خصوصاً غریب طبقہ آج بھی بھٹو کو یاد کرتا ہے لیکن پی ٹی آئی کی پہلی حکومت کے پہلے تین برسوں میں عوام کے دکھوں اور مایوسیوں میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ کسی بھی ’’منصفانہ انتخابات‘‘ میں موجودہ حکومت کی کامیابی محال ہی دکھائی دیتی ہے۔

تازہ ترین