کراچی (ٹی وی رپورٹ)ماہر قانون شاہ خاور نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے عام جج کو ازخود نوٹس لینے کا کوئی اختیار نہیں، سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے کے اختیار سے متعلق فیصلے پر بہت زیادہ اعتراضات آئیں گے، ازخود نوٹس لینے کے اختیار سے متعلق معاملہ سپریم کورٹ کے سترہ رکنی فل بنچ کو دیکھنا چاہئے تھا، ازخود نوٹس لینے کے اختیار کی حدود و قیود واضح ہونی چاہئے۔وہ جیوکے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان منیب فاروق سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر، سینئر صحافی و تجزیہ کار فہد حسین، ارشاد بھٹی اور جاوید چوہدری بھی شریک تھے۔ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ آئین میں آرٹیکل 184/3 کے دائرہ اختیار کے حوالے سے لفظ سپریم کورٹ ہے چیف جسٹس نہیں ہے، ازخود نوٹس کا معاملہ فل کورٹ کو انتظامی سائڈ پر دیکھنے کا تھا جیوڈیشل سائڈ پر دیکھنے کا نہیں تھا،اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ والا بنچ سپریم کورٹ کا تھا تو ان کے نوٹس لینے پر کون سی بڑی بات ہوگئی تھی۔فہد حسین نے کہا کہ حکومت کو سب سے زیادہ نقصان مہنگائی سے ہورہا ہے جو ان سے کنٹرول نہیں ہوپارہی ہے، عمران خان کو معاشی انجن میں خرابی سمجھ نہیں آرہی ہے، حکومت کو تیسرا سال ہے لیکن گاڑی میں سے ابھی بھی دھواں نکل رہا ہے۔جاوید چوہدری نے کہا کہ عمران خان کی حکومت میں تین سال بعد انصاف کی صورتحال پہلے سے بدتر ہوگئی ہے،اس ملک میں تو ججز انصاف تلاش کررہے ہیں مگر انہیں انصاف نہیں مل رہا، ن لیگ میں بہت زیادہ تقسیم ہے جس کی وجہ سے وہ کمزور ہوگئی ہے، اگر یہی صورتحال رہی تو چھ مہینے میں ن لیگ ختم ہونا شروع ہوجائے گی۔ارشاد بھٹی نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت عوام کی توقعات پر پوری نہیں اتری، وزیراعظم نے چند سیٹوں کو چھوڑ کر باقی ہر سیٹ پر عثمان بزدار بٹھادیا، خیبرپختونخوا، پنجاب ،کشمیر عثمان بزدار کے حوالے جبکہ مرکز میں اکثریت عثمان بزدار ہے، وزیراعظم کے احساس پروگرام، ہیلتھ کارڈ، بلین ٹری سونامی جیسے پروگرام بہت اچھے ہیں۔ماہر قانون شاہ خاور نے کہا کہ ازخود نوٹس لینے کے اختیار کی حدود و قیود واضح ہونی چاہئے، ماضی میں ازخود نوٹس لینے کا اختیار بے دریغ استعمال کیا گیا، اس بات کی وضاحت بہت ضروری تھی کہ ازخود نوٹس لینے کا اختیار کس کو ہے، ازخود نوٹس لینے کے اختیار سے متعلق معاملہ سپریم کورٹ کے سترہ رکنی فل بنچ کو دیکھنا چاہئے تھا، آرٹیکل 184/3کی تشریح کرنے کیلئے لمبی ایکسرسائز کی ضرورت تھی۔شاہ خاور کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے کے اختیار سے متعلق فیصلے پر بہت زیادہ اعتراضات آئیں گے، وکلاء تنظیموں نے بھی عدالت سے گزارش کی تھی کہ اس معاملہ کو سترہ رکنی بنچ سنے اور آرٹیکل 184/3کی تشریح بھی کی جائے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان کو ازخود نوٹس لینے کا واحد اختیار مل گیا ہے، فیصلے سے واضح ہوگیا ہے کہ سپریم کورٹ کے عام جج کو ازخود نوٹس لینے کا کوئی اختیار نہیں ہے، اسے بنچ تک محدود کردیا گیا ہے بنچ بھی ازخود نوٹس لینے کی سفارش کرسکتی ہے باقی تمام اختیار چیف جسٹس آف پاکستان کو دیدیا گیا ہے۔سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ازخود نوٹس نہیں لیا تھا، یہاں بنچ لگا ہوا تھا اور صحافیوں کی طرف سے درخواست آئی تو ازخود نوٹس کیسے ہوگیا، آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ درخواست زبانی ہوگی یا تحریری آئے گی۔