" میرا جسم میری مرضی" سے " تیرا جسم میری مرضی " تک کا سفر اتنا ہولناک اور لرزہ خیز ہوگا۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا واقعی نعروں سے کچھ نہیں ہوتا۔ دو تین سال پہلے عورت مارچ کے ذریعے مشہور ہونے والے کچھ نعروں پر بہت تنقید کی گئی ان میں سے ہی ایک نعرہ " میرا جسم میری مرضی " تھا جو واقعی سننے میں کچھ عجیب بلکہ نامناسب سا لگا تھا مختلف لوگوں نے اپنی سوچ کے مطابق اس کی تشریح کی کچھ نہایت پڑھے لکھے افراد کی تشریح اس نعرے سے بھی زیادہ بے ہودہ اور اخلاقیات سے عاری تھی۔ البتہ جب اس نعرے کو تخلیق کرنے والی خاتون نے اس نعرے کی تشریح کی تو بات کچھ سمجھ میں آرہی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ زبردستی کی شادی، جنسی ہراسانی، جنسی زبردستی، کس طرح کا لباس پہنا جائے ، برقعے یا چادر سے بدن کو ڈھکا جائے یا نہیں ۔یہ سب فیصلے کرنے کا اختیار عورت کو خود ہونا چاہیے ۔ اب ہم ان خیالات سے متفق ہیں یا نہیں لیکن دیکھا جائے تو مطالبہ اتنا بھی غلط نہیں جتنا اس کو غلط رنگ دے کر تنقید کی گئی۔ اب تو پھر بھی کچھ لڑکیاں اپنی مرضی سے اپنے آپ کو چادر یا برقعے سے ڈھانکنے کا فیصلہ کر لیتی ہیں لیکن پچیس تیس سال پہلے عورت کے بولنے کا تصور بھی نہیں تھا ۔ شادی کے بعد جس کا شوہر پردہ کرواتا وہ آزاد تتلی کی طرح گھومنے پھرنے والی لڑکی برقعہ پہن لیتی اور جس کا شوہر اپنی باپردہ بیوی کا برقع اتروانا چاہتا وہ گلے میں دوپٹہ ڈالے گھومنے لگتی، اپنی مرضی کا واقعی کوئی تصور نہیں تھا ۔
شعور آنا اچھی بات ہے لیکن خدا ایسا شعور بھی نہ دے جو اسلامی تعلیمات سے متصادم ہو لیکن اس کے لئے سب سے پہلے تو مسلمان ہونا ضروری ہے ،اگر مسلمان ہیں تو اپنی حدود یاد رکھنی ہوں گی، یاد رکھنا ہوگا کہ ایک دن جواب دہی کا بھی آئےگا ، اپنی مرضی کی زندگی گذارنے والے جانور تو ہوسکتے ہیں مسلمان نہیں ۔ ضابطہ حیات دے دیا گیا ہے اس پر عمل کرنا ہوگا ۔ اگر یوم حساب پر اعتقاد ہے تو رکنا ہوگا۔ دنیا میں سب کچھ اپنی مرضی سے نہیں ہوتا اور یہی ہم سب بھول گئے ہیں ۔
کہیں پیسے کے نشے نے آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے تو کہیں طاقت کے نشے نے سب کچھ بھلا دیا ہے ۔پیسے کی بھی کوئی حد نہیں رہی ہے۔ لکھ پتی اور کروڑ پتی نہیں ارب کھرب پتی لوگوں کی بھی پیسے کی ہوس ختم نہیں ہورہی والدین پیسہ کمانے کی مشین بنے ہوئے ہیں اور اولاد ’’ ظاہر جعفر‘‘ اور ’’ شاہ رخ جتوئی ‘‘ جیسی بدمست اور طاقت کے نشے میں چور تیار ہورہی ہے ۔ مرد مضبوط اور طاقتور ہوتا ہے تربیت کی کمی کے شکار مردوں میں برداشت ختم ہورہی ہے اور نتیجتاً کہیں چار بچوں کی ماں قراۃ العین قتل ہورہی ہے تو کہیں نور مقدم کے جسم کے ٹکڑے کیے جارہے ہیں ! شادی سے انکار کرنے پر ڈاکٹر خدیجہ پر تیئیس بار چاقو سے حملہ کرنے والا مجرم صرف تین سال بعد آزاد کر دیا گیا ۔ موٹر وے پر زیادتی کے واقعے نے بھی پورے ملک میں ہلچل مچادی تھی ۔انصاف کہاں ہے ؟
عورت ’’ماں‘‘ ، ’’ بہن ‘‘، ’’ بیوی ‘‘ ، ’’ بیٹی ‘‘ کی صورت میں تو قابل احترام ہے ناں؟ پھر اس کا احترام کیوں نہیں کیا جاتا ؟ ننھی معصوم بچیوں سے زیادتی کے واقعات ۔عورت پر تشدد، غیرت کے نام پر قتل، جائیداد میں حصہ نہ دینا اور اب پڑھے لکھے اور ماڈرن طبقے میں نور مقدم کا لرزہ خیز قتل جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ گاؤں دیہات یا جاہل افراد کے اس طرح کے واقعات سن کر بھی دل دہل جاتا تھا لیکن شاہ رخ جتوئی، ڈاکٹر خدیجہ پر حملہ کرنے والا مجرم ، قراۃ العین کو قتل کرنے والا اس کا شوہر اور نور مقدم کا قاتل سب پڑھے لکھے لوگ ہیں ۔
نور مقدم کا مبینہ قاتل امیر کبیر خاندان سے تعلق رکھنے والا اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص ہے ۔ ہمارے ملک میں لوگوں کو خود جج بننے کا بہت شوق ہے، خصوصاً مذہب کے نام پر دوسروں پر فتوے دینے والے وہ افراد جو اسلام کے بنیادی فرائض ادا کرتے بھی نظر نہیں آتے۔وہ نور مقدم پر فتوے دینے میں مصروف ہیں لیکن میں کہتی ہوں کہ لڑکی چاہے لڑکے کے گھر تھی ، چاہے اس کی نامحرم دوست تھی ، چاہے اس کے ساتھ رہ رہی تھی اس کا قتل کیوں ہوا؟؟
انصاف ! انصاف اور صرف انصاف!!
ہمیں ہر کیس میں انصاف چاہیے ، زیادتی کے مجرموں کو بھی سر عام پھانسی دی جائے اور خدا وہ دن بھی جلد لائےکہ یہ قاتل کیفرِ کردار تک پہنچیں ۔