تینوں درست ہیں لیکن سب کا مفہوم مختلف ہے ۔
۱۔زُہرہ (زے پر پیش اورآخر میں ہاے مختفی کے ساتھ) ایک سیّارے (planet)کا نام ہے۔ اسے انگریزی میں وینس (venus)کہتے ہیں ۔اس کا ایک نام ناہید بھی ہے اور اسے رقاصۂ فلک بھی کہا جاتا ہے۔ کسی ناچنے یا گانے والی کو بھی کنایۃً زہرہ کہتے ہیں ۔اسی زُہرہ سے زُہرہ جبیں، زہُرہ جمال ،زُہرہ رُخ اور زُہرہ رُو کی تراکیب بنی ہیں جو کنایۃً حسین کے معنوں میں مستعمل ہیں۔ کہتے ہیں کہ بابل میں زُہرہ نامی ایک نہایت خوب صورت عورت تھی جس پر ہاروت اور ماروت عاشق ہوگئے تھے اور عذاب ِ الہٰی میں مبتلا کیے گئے تھے، واللہ اعلم ۔
۲۔زَہرہ(زے پر زبر اور آخر میں ہاے مختفی کے ساتھ) پِتیّ کے معنی میں ہے۔ پِتّا انسانی جسم میں ایک اندرونی عضو ہے جو ایک رطوبت بنا تا ہے ۔بعض لغات کے مطابق اس رطوبت کو صفرا کہتے ہیں۔پِّتے کو انگریزی میں gall-bladder کہتے ہیں۔ زَہرہ مجازاً ہمت ، دلیری، بہادری اور شجاعت کے معنوں میں بھی آتا ہے اور اسی لیے زَہرہ گدازکے لفظی معنی ہیں پتے کو پگھلانے والا لیکن اس کے مجازی معنی ہیں سخت تکلیف دِہ ، جیسے اس کی زَہرہ گدا داستان سن کر میں رو پڑا۔ کبھی کبھی مجازاً دل نشین اور مؤ ثر کے معنی میں بھی زَہر ہ گداز کی ترکیب آتی ہے، مثلاً ؒ: کیا زَہرہ گداز شعر ہے۔
چونکہ پِتّا( یا زَہرہ) ہمت یا بہادری کے مفہوم میں بھی آتا ہے اس لیے زَہرہ آب ہونا محاورہ ہے اور اس کے معنی ہیں بہت زیا دہ ڈرنا،دہشت زدہ ہوجانا، پست ہمت ہوجانا، مثلاً :اس آسیب زدہ مکان میں جاتے ہوئے زَہرہ آب ہوتا ہے۔ ار دو میں’’ پِتّا پانی ہونا ‘‘کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کا مفہوم وہی ہے یعنی بہت خوف کھانا یا ہمت بالکل ٹوٹ جانا ۔ مثلاً :وہ ایسی ویران اور ہَول ناک جگہ ہے کہ بڑے بڑے سُورمائوں کا پِتّا پانی ہوتا ہے۔
البتہ زَ ہرہ (یعنی اسی اِملے کے ساتھ ) ایک اور لفظ بھی ہے جس کے معنی ہیں پھول یا کلی۔ فرہنگ ِ عامرہ کے مطابق کلی یا پھول کے معنی میں زَہر ہ کا ایک تلفظ زُہرہ بھی ہے۔ اسی پھول یا کلی کے معنی میں جو لفظ زُہرہ ہے اس کی تصغیر ہے زُہیَر یا زُہَیرہ ، معنی ہیں چھوٹا پھول یا چھوٹی کلی۔عربی کا ایک مشہور شاعر زُہیر نام کا گزرا ہے۔
اب ناسخ ؔکا یہ شعر دیکھیے جس میں زُہرہ (بمعنی سیارہ یا بابل کی زہرہ نامی عورت) اور زَہرہ دونوں استعما ل ہوئے ہیں :
رقص کو تیار جب وہ غیرت ِ مہتاب ہو
چاہ ِ بابل کی طرح زُہرہ کا زَہرہ آب ہو
یہاں غیرت کا لفظ رشک یا حسد کے معنی میں آیا ہے، غیرتِ مہتاب کا مطلب ہے اتنا حسین کہ اسے دیکھ کر چاند کو بھی رشک آئے۔چونکہ غیرت، زُہرہ اور ناہید کا ذکر ہے تو مومن خاں مومن کا مشہور شعر یاد آگیا:
اس غیرت ِ ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا چمک جائے ہے آواز تو دیکھو
یعنی وہ ایسا گاتی ہے کہ ناہید (یعنی زہرہ ) کو بھی رشک آئے(کلیات ِمومن میں یہ شعر اس طرح درج ہے کہ اس کے دوسرے مصرعے میں ’’ چمک ‘‘ کا لفظ ہے لیکن چمک کے بجاے’’ لپک‘‘ لوگوں کی زبان پر ہے )۔
۳۔زَہرا (زے پر زبر اور آخر میں الف)کا ایک املا زہراء ( یعنی ہمزہ کے ساتھ ) بھی ہے اور یہ ازہر کی تانیث ہے۔ ازہر خود’’ زاہِر‘‘ کی تفضیل ہے(یاد رہے کہ ظوے سے ’’ ظاہر ‘‘ایک الگ لفظ ہے اور سرِ دست اس کا ذکر نہیں ہورہا) ۔ زاہِر کے معنی ہیں : سفید، روشن، چمک دار ۔ ازہر چونکہ زاہر کی تفضیل ہے لہٰذا’’ازہر ‘‘کا مفہوم ہوا زیادہ سفید، بہت چمک دار، روشن تر، سب سے زیادہ چمک دار۔
ازہر کنایۃًچاند کو بھی کہتے ہیں اور یہ خوب صورت کے مفہوم میں بھی آتا ہے ۔زَہرا (یا زَہراء، یعنی آخر میں ہمزہ کے ساتھ) چونکہ ازہر کی تانیث ہے لہٰذا بنیادی مفہوم تو وہی رہے گا جو ازہر کا ہے یعنی زیادہ روشن یا سب سے زیادہ چمک دار ، خوب صورت ، لیکن یہ مونث کے لیے استعمال ہوگا ۔زَہرارسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا لقب بھی ہے۔