• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

British Pakistanis: Perceptions, Realities and The Way Forward

خیال تازہ…شہزادعلی
برطانیہ میں پیدا ہونے والی پاکستانی نئی نسل کو آج اس آگاہی کی ضرورت ہے کہ آخر برطانیہ میں ہم پاکستانیوں کی مائیگریشن کا مقصد کیا تھا، پھر برطانیہ کے اندر بھی جب بعض نسل پرست ہم پاکستانیوں کو برطانیہ پر ایک بوجھ کے طور پر پیش کرتے ہیں تو بھی اصل حقائق سامنے لانا ضروری ہوجاتا ہے کہ بات اتنی سادہ نہیں کہ یہ پاکستانی صرف اپنی معاشی حالت بہتر بنانے کے لئے برطانیہ وارد ہوئے بلکہ خود برطانوی سلطنت کو بھی ہماری ضرورت تھی، اس حوالے محققین ڈاکٹر کرامت اقبال، ڈاکٹر سرینا حسین اور عمران عارف کی ایک تحقیق British Pakistanis: Perceptions, Realities and The Way Forward ہے، مقالہ میں مائیگریشن اور اس کا پس منظر یہ بیان کیا ہے کہ دوسری جنگ عظیم نے برطانیہ کو افرادی قوت کی کمی کے مسئلے سے دوچار کر دیا، کیونکہ اس کی بہت سی صنعتوں کو قوم کی تعمیر نو کے لیے اضافی مزدوروں کی ضرورت پڑ گئی جس باعث برطانیہ نے اپنی سابقہ ​​کالونیوں کی طرف دیکھا اور اس کی ریکروٹمنٹ مہم کیریبین، پاکستان، بھارت اور بعد میں بنگلہ دیش کے افراد پر مرکوز تھی جب کہ اس ریسرچ میں اس حقیقت کا بھی ادراک کیا گیا ہے کہ پاکستان سے متعلق برطانیہ سیٹل ہونے والے باشندوں کی بھاری اکثریت بلاشبہ آزاد کشمیر کے لوگوں پر مشتمل ہے،یہ حقیقت بھی سامنے رکھی گئی ہے کہ اگرچہ 1950 سے قبل بھی برٹش انڈیا اور وہ خطے جو موجودہ پاکستان پر مشتمل ہیں سے برطانیہ مائیگریشن ہوئی مگر مائیگریشن کی بلند سطح پوسٹ وار پیریڈ میں ہی ہوئی، ہماری پہلی جنریشن کے لوگوں کو برطانیہ میں کن کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا، کیسی کیسی ملازمتیں کرنی پڑیں، کس نوعیت کے نسلی تعصبات کا سامنا کرنا پڑا کسی مخصوص جغرافیائی علاقے میں بودوباش کیوں اختیار کرنا پڑی اس پر بھی روشنی پڑتی ہے، کالم کی محدود جگہ کے پیش نظر ہم صرف چند حوالے ہی دے سکتے ہیں مگر ہمارے بچوں کو یہ علم ہونا چاہئے کہ ان کے بزرگ کس عظمت کے مالک تھے، اس تحقیق کی رو سے پاکستانیوں کی بڑی تعداد کو ابتدائی طور پر اسٹیل اور ٹیکسٹائل کی صنعتوں میں کام کرنے کے لئے بھرتی کیا گیا (قارئین تصور کر لیں کہ اسٹیل اور ٹیکسٹائل ملوں میں آج سے70 سال پہلے کیا حالات ہمارے بزرگوں کو درپیش ہوئے ہوں گے) ملازمتوں کے مواقع کی فراہمی کی وجہ سے ہی اہم صنعتی مراکز جیسے یارکشائر، لنکا شائر، ویسٹ مڈلینڈز، لوٹن، سلائو اور مشرقی لندن کے شہری علاقے تھے کہ جہاں کمیونٹی رہائش پذیر ہوتی رہی جب کہ دلچسپ طور پر سفید فام لوگ دوسرے زیادہ امیر علاقوں میں منتقل ہوتے رہے، مائیگریشن کے ابتدائی دنوں کے دوران پاکستانیوں اور دیگر اقلیتوں نے نسل پرستی کے جو تجربات کیے، نے بھی اقلیتوں کو مزید ان علاقوں میں رہنے کی ترغیب دی جہاں ان کی کمیونٹی کا زیادہ حصہ رہتا تھا(تاکہ مل کر نسل پرستوں کا مقابلہ کر سکیں) نسل پرستی سے نمٹنے اور اقلیتی برادریوں کو مساوی مواقع فراہم کرنے کے لیے ریس ریلیشن ایکٹ 1965 جیسی پالیسیاں متعارف کروائی گئیں، اس ایکٹ کے بعد بعدازاں قانون سازی کی گئی، جیسے ریس ریلیشنز ایکٹ 1976، جس سے مثبت سمت میں پیش رفت ممکن ہوئی، اس نے کم نمائندگی کے معنی کی وضاحت بھی کی، برطانوی پاکستانیوں سمیت تمام تارکین وطن گروپوں میں نسل پرستی کے خلاف تحریکیں منظم کی گئیں جنہوں نے ٹریڈ یونینوں اور مقامی سطح کی سیاست میں اپنی شرکت بڑھانا شروع کی، بڑھتی ہوئی لابنگ کے نتیجے میں ریس ریلیشنز ترمیمی ایکٹ 2000 بشمول نسلی مساوات کو فروغ دینے کے لیے عوامی اداروں پر ایک قانونی ڈیوٹی عاید ہوئی کہ وہ یہ ظاہر کریں کہ نسلی امتیاز کو روکنے کے ان کے پروسیجرز موثر ہیں لیکن ان قوانین کے باوجود پاکستانی بدستور عدم برابری کا سامنا کرتے رہے اس کی وجوہات میں ان کو پاکستانی کے بجائے بطور ایشین، اقلیتی طبقہ، برطانوی اقلیتی طبقات یا مسلم کے طور پر پہچان شامل ہے یعنی جب آپ کسی بھی وسیع کیٹگری کے طور پر پہچان رکھتے ہوں گے تو کئی مخصوص سروسز اور فنڈز سے محروم رہ جاتے ہیں جب کہ آپ کی اپنی کمیونٹی کی مخصوص شناخت ہو تو پھر پالیسی میکرز اور سروسز مہیا کرنے والوں کے لیے ایک ٹارگٹیڈ کمیونٹی تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے ، انگلینڈ اور ویلز میں 1991 کی قومی مردم شماری تک نسلی اقلیتوں بشمول پاکستانیوں کے بارے میں جامع اعداد و شمار دستیاب نہیں تھے۔ اس سے یہ کیس بنانے میں مدد ملی کہ مختلف سروسز کی فراہمی کی ضروریات نسلی بنیادوں پر درکار ہیں_ محولہ بالا اور بعض دیگر تحقیق کا ماحصل یہ ہے کہ برطانوی پاکستانی اب بھی غربت اور محرومیوں میں زندگیاں گزارنے کا سب سے زیادہ امکان رکھتے ہیں، ان کے بچے ہم عصر کمیونٹیز کی نسبت تعلیم میں پیچھے رہ گئے ہیں سو اعلیٰ ملازمتوں میں بھی ان کا تناسب کم ہے ۔
تازہ ترین