• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انفارمیشن کمیشن کا 20 سال پرانی تمام سرکاری رپورٹس منظر عام پر لانے کا حکم

اسلام آباد (انصار عباسی) پاکستان انفارمیشن کمیشن نے پیر کو حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں 20؍ سال پرانی تمام تر سرکاری رپورٹس کو منظر عام پر لانے کی ہدایت کی گئی ہے، ان میں وہ رپورٹس بھی شامل ہیں جو مختلف کمیشنز اور کمیٹیوں نے تحریر کی ہیں۔ 

کمیشن نے وزارت داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس حوالے سے تمام ضروری اقدامات کرے۔ فیصلے میں کمیشن نے حکومت کو یاد دہانی کرائی ہے کہ رائٹ ٹوُ انفارمیشن ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ جو رپورٹس بیس سال پرانی ہوں انہیں منظر عام پر لایا جائے۔ اپنے فیصلے میں کمیشن نے کہا ہے کہ ایسی رپورٹس کو ہمیشہ کیلئے رازداری کے پردے میں لپیٹا نہیں رکھا جا سکتا۔ 

اس لئے وزارت داخلہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ ایسی تمام رپورٹس کو منظر عام پر لانے کیلئے اقدامات کیے جائیں جو بیس سال پرانی ہیں۔ کمیشن نے یہ مسئلہ بھی حل کر دیا ہے کہ ریکارڈ کو کس طرح خفیہ رکھا جائے اور اسے منظر عام پر کیسے لایا جائے۔ 

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ تمام وفاقی اداروں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی حتمی رپورٹس سرگرمی کے ساتھ شائع کرتے رہیں، ان میں سے کچھ رپورٹس یا رپورٹس کے کچھ حصے جائز سیکورٹی یا دیگر خدشات کی بناء پر منظر عام پر لانے سے روکے جا سکتے ہیں۔ 

تاہم، یہ خدشات متعلقہ وزیر کے ذریعے ریکارڈ کرکے محفوظ کیے جائیں اور اس کمیشن کے روبرو پیش کیے جائیں تاکہ فیصلہ کیا جا سکے کہ آیا اس روکی گئی معلومات کے افشاء ہونے سے واقعی عوام مفاد کو نقصان ہوگا۔ 

مزید برآں، کسی بھی حتمی رپورٹ کیلئے مکمل طور پر کوئی استثنیٰ نہیں ہے۔ کمیشن کی رائے ہے کہ کوئی بھی سرکاری ادارہ معلومات تک رسائی دینے سے انکار نہیں کر سکتا کیونکہ اس رپورٹ کے محض کچھ حصے اس ایکٹ کے سیکشن 16؍ کے تحت استثنیٰ کے زمرے میں آتے ہیں۔ 

اگر عوامی مفاد یہ کہتا ہے کہ رپورٹ سامنے لائی جائے، بھلے ہی اس کے کچھ حصے جائز وجوہات کی بناء پر منظر عام پر نہ لائے جائیں اور ان حصوں کو روک کر باقی ماندہ رپورٹ کو سیکشن 16(1) (i) کے تحت منظر عام پر لایا جا سکتا ہے۔ کمیشن نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ جارج سنتیانہ نے درست کہا تھا کہ جو لوگ ماضی کو یاد نہیں رکھ سکتے وہی لوگ ماضی کو دہراتے ہیں۔ 

یہی وجہ ہے کہ دیگر اقوام کی طرح ہمارے معزز ارکان پارلیمنٹ نے بھی قانون میں بیس سال بعد دستاویزات کو منظر عام پر لانے کی شق شامل کی ہے تاکہ قوم اپنا ماضی یاد رکھ سکے اور کسی مخصوص پیرائے میں سیاست دانوں اور ریاستی اداروں کی جانب سے کیے گئے فیصلوں پر بحث و مباحثہ کر سکے۔ 

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ملک میں اس وقت بہتر طرز حکمرانی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے جب ہم نو آبادیاتی نظام سے نکلیں گے کیونکہ اس دور میں رازداری ایک روایت بن چکی تھی، ہمیں جدید دور میں معلومات فراہم کرنا ہوگی کہ ملک میں کیا کس انداز سے ہو رہا ہے اور ساتھ میں یہ بھی ملک میں شفافیت ایک روایت بنے اور رازداری محض استثنیٰ کی بنیاد پر روا رکھی جائے۔ 

لہٰذا، یہ ریاست کے امور چلانے والوں کی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ قابل جواز وجوہات کی بنا پر معلومات کو جاری کرنے سے روکنے کیلئے ایک توازن قائم کرے اور سرگرمی کے ساتھ عوامی مفاد میں کئے گئے فیصلوں کو منظر عام پر لائے جو کہ اب تک نہیں کیا گیا اور معاملات راز کے پردے کے پیچھے چھپائے گئے ہیں۔ 

کمیشن نے وزارت داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایکٹ کے سیکشن 7 ایف کے تحت وجوہات پیش کرے، کمیشن کے سامنے وہ وجوہات پیش کی جائیں جن کی وجہ سے بجٹ کے افشاء نہ کیے جانے والے معاملات کو راز میں رکھا گیا ہے۔ 

ایکٹ کے سیکشن 5(1)(g) پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے، خفیہ رپورٹس کی مجموعی تعداد بتائی جائے اور ساتھ ہی ہر رپورٹ کا عنوان اور وہ تاریخ بھی پیش کی جائے جس پر اس رپورٹ کو خفیہ کیا گیا تھا، تمام رپورٹس کو منظر عام پر لانے کیلئے اقدامات شروع کیے جائیں جو بیس سال پرانی ہیں۔ 

اس ضمن میں سیکشن 5(1)(i)، سیکشن 7(f)، سیکشن 16(1) (i) اور سیکشن 16 (1) (k) پر عمل کیا جائے، اپنی ویب سائٹ پر وہ طریقہ کار وضع کیا جائے جس کے تحت کسی سرکاری ادارے سے معلومات حاصل کی جا سکتی ہے اس سلسلے میں اخراجات (شیڈول آف کاسٹ) بھی بتائے جائیں جو پاکستان انفارمیشن کمیشن نے تیار کیے ہیں (جو کمیشن کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں)۔ کمیشن نے اپنے حکم کی تعمیل کے حوالے سے 30؍ ستمبر 2021ء کو رپورٹ طلب کر لی ہے۔

تازہ ترین