• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں پچھلے کئی برسوں سے خواتین، بچیوں اور بچوں کے ساتھ جنسی و جسمانی تشدد کے واقعات اتنی تیزی سے سامنے آرہے ہیں کہ عقل حیران ہے کہ ہمارے معاشرے کو ہو کیا گیا ہے؟ یہ واقعات عالمی سطح پر ملک کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں جبکہ حکومت اور سیاسی جماعتیں ان واقعات کی روک تھام میں بےبس نظر آتی ہیں۔ عورت خواہ ماں ہو، بہن ہو، بیوی ہو، بیٹی ہو، خادمہ ہو یا معاشرے میں اِس کا کوئی بھی کردار ہو اُسے اسلام میں ہر لحاظ سے بلند مقام عطا کیا گیا ہے اور مردوں کو ان کے ادب و احترام کا حکم دیا گیا ہے۔پسماندہ معاشرے کی عورت بھی اُن حقوق ، عزت اور وقار کی حقدار ہے جو جدید معاشرے کی عورتوں کو حاصل ہیں۔پاکستان میں خواتین آبادی کا 52فیصد ہیں مگر یہاں خواتین کے حالاتِ زندگی بدتر ہوتے جا رہے ہیں، ان کو کوئی تحفظ حاصل نہیں، عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے، ہر دن اس قسم کی پریشان کن خبریں سامنے آرہی ہیں جن کی وجہ سے قوم کے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ ان واقعات کا شکار اکثر عورتیں سماجی اور ذہنی دباؤ کی وجہ سے خود کشی کر لیتی ہیں یا ذہنی بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہیں، اِن واقعات کی روک تھام کے لئے اقدامات محض دکھاوا بن کر رہ گئے ہیں اسی لئےایسے گھنائونے جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے،پاکستان میں خواتین اور بچوں کے ساتھ تشدد کی ایک بڑی وجہ قانونی مشکلات ہیں کیونکہ جو قوانین خواتین کو تحفظ فراہم کرتے ہیں، ان پر عملدرآمد ہی نہیں کیا جاتا۔ ایک اور بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ متاثرہ خاتون کو ہی مورد الزام ٹھہر اکر اس کی کردار کشی شروع کردی جاتی ہے ،اس وقت خواتین کو انصاف ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن نظر آرہا ہے۔خواتین اور بچوں پر تشدد کو روکنے کے حوالے سے معاشرے کو تعلیم اور شعور دینے کی اشد ضرورت ہے، لڑکوں کو خواتین کے احترام کی تعلیم دینی ہوگی تاکہ وہ اپنی ماں اور بہن کے علاوہ دیگر خواتین کو بھی عزت کی نگاہ سے دیکھیں۔قانون سازی اپنی جگہ ایک درست عمل ہے مگر ہمارے معاشرے کو ذہنی تربیت اور کردار سازی کی بھی اشد ضرورت ہے، جب تک مرد اور خواتین کو اپنے اداروں میں احساسِ تحفظ حاصل نہیں ہو گا وہ یوں ہی خوف کے عالم میں زندگی گزاریں گی، مہذب قومیں اپنی عورتوں کے حقوق اور عزت کا تحفظ کرتی ہیں۔ پاکستان ہمارا ملک ہے اور ہم سب کو مل کر اپنی ماؤں،بہنوں اور بیٹیوں کی عزت کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے تمام ناگزیر اقدامات کرنے چاہئیں ۔

یہ وقت کا تقاضا بھی ہے اور ضرورت بھی۔ بلاشبہ نئے اور بدلتے ہوئے حالات میں پاکستانی مرد اور خواتین ہی اپنی قوم کے شاندار مستقبل کی ضمانت ہیں،یہ مسئلہ مخلوط تعلیمی اداروں تک ہی محدود نہیں بلکہ ہمارے دینی مدارس میں بھی آئے دن ایسے اندوہناک واقعات پیش آتے رہتے ہیں جنہیں دیکھ اور سن کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ہر طرح کےتعلیمی اداروں میں ہمارے مستقبل کاسرمایہ ہماری نوجوان نسل تعلیم حاصل کر رہی ہے، ان اداروں میں خفیہ کیمرے نصب کرنے چاہئیں تاکہ ایسے واقعات جو ان کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیںان کی روک تھام ہوسکے، پاکستان میں روزی روٹی کے لئے گھر سے نکل کر مختلف النوع کام کرنے والے معصوم بچے بھی جنسی درندوں کی درندگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔تمام ملکوں کی حکومتیں، ادارے، این جی اوز اور سماجی و اصلاحی تنظیمیں ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے ہر ممکن اقدامات کرتی ہیں۔ ان اقدامات کے مثبت اور دور رس نتائج بھی برآمد ہوتےہیں۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم مسلمان تو ہیں مگر گھر سے اسکول اور دیگر تعلیمی اداروں سے ہمیں وہ تعلیم نہیں مل رہی جو اسلام کی اصل تعلیم ہے،ہم مغرب زدہ نہیں ہیں مگر ان کی نقل میں اس قدر اندھے ہوگئے ہیں کہ والدین کو اپنے بچوں کی فکر نہیں رہی، موبائل فون اور دیگر جدید ٹیکنالوجی کے غلط استعمال سے ہمارے بچے بگڑ رہے ہیں ، والدین کو بھی اپنے بچوں پر نگاہ رکھنا ہوگی،والدین خود اس قدر مصروف ہوگئے ہیں کہ انہیں دوسری جانب دھیان دینے کی فرصت نہیں ہے،تمام تعلیمی اداروں میں صورت حال اب ماضی جیسی نہیں ہے،کھیلوں سے بچے دور ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے ان کی جسمانی اور ذہنی نشو نما نہیں ہورہی، فیملی سسٹم میں بھی اب وہ بات نہیں رہی جو ماضی کا حصہ تھی،ایک اور مسئلہ ملک میں اچھے رشتوں کی تلاش میں بچے اور بچیوں کی عمر کا لحاظ نہ رکھنا ہے جس کو ہمیں تسلیم کرنا ہوگا، اگر ہم اسلامی اصولوں کے مطابق اپنے بچوں کی شادی وقت پر کردیں تو اس سے بھی ایسے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے،دوسری جانب میڈیا کو بھی ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے اپنا مناسب کردار ادا کرنا ہوگا،اسے جنسی تشدد کے خلاف پروگرامز پیش کرنا چاہئیں، اسمبلی اور دیگر منتخب ایوانوں میں سخت قانون سازی ضروری ہے،گرفتار ہونے والے ملزمان کو نامرد بنانے کی تجویز اچھی ہےوالدین کو بھی اپنی بچیوں کے لباس پر توجہ دینی چاہئے،سخت سزائیں اس ضمن میں معاون ثابت ہوں گی،ہمیں اسلامی اور اخلاقی خطوط پر اپنے بچوں اور نوجوانوں کی تربیت کو لازمی بنانا ہو گا تاکہ خواتین اور بچے کسی بھی زیادتی سے محفوظ رہیں۔ جنسی ہراساں کئے جانے کے مقدمات کی سماعت کے لئے کئی ممالک نے الگ عدالتیں قائم کی ہیں جن میں خواتین جج مقدمات کی سماعت کرتی ہیں اور ان کے فیصلے بھی تیزی سےہوتے ہیں جس کی وجہ سے کئی ملکوں میں اس حوالے سے اچھے اور مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین