• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روزنامہ ”جنگ“ کی 8 مئی 2010ء کی اشاعت میں میرا مضمون ”ممبئی حملہ کے ذمہ دار سی آئی اے، موساد اور بھارتی آئی بی“ کے عنوان سے شائع ہوا تھا اس میں امریش مشرا جو کانگریس کی انسدادہندو مسلم فسادات کے کمیٹی کے چیئرمین ہیں کے مضمون کا حوالہ دیا گیا تھا اور انہوں نے ایک اخبار راشٹریہ سہارا کے ایڈیٹر عزیز برنی کے مضامین کا حوالہ دیا تھا جنہوں نے ممبئی حملوں پر باقاعدہ تحقیق کی تھی اور اس پر سو سے زائد مضامین لکھ کر یہ ثابت کیا تھا کہ یہ حملہ پاکستان کا کام نہیں، 26 ستمبر 2008ء کو عزیز برنی میری دعوت پر کراچی میں ایک مذاکرہ بعنوان ”جنوبی ایشیائی سیاست میں میڈیا کا کردار“ میں شرکت کے لئے تشریف لائے تھے۔ انڈیا سے نہ صرف وہ آئے تھے بلکہ احمد سعید ملیح آبادی جو روزنامہ ”آزاد ہند کلکتہ“ کے چیف ایڈیٹر کے ساتھ راجیہ سبھا کے ممبر یعنی سینیٹر بھی ہیں۔ زاہد علی خاں روزنامہ ”سیاست“ حیدرآباد دکن کے چیف ایڈیٹر اور ڈویش درما (سہارا ٹیلی ویژن) بھی پاکستان تشریف لائے تھے۔ 27 نومبر 2008ء کو کراچی کے مقامی ہوٹل میں سیمینار میں پاکستان کے نامور صحافی بھی شریک ہوئے تھے۔ اس سیمینار میں پاکستانی صحافیوں نے کھل کر ممبئی حملوں کی مذمت کی جس پر احمد سعید ملیح آبادی نے بعد میں انڈین سینیٹ (راجیہ سبھا) میں تقریر بھی کی تھی کہ یہ حملہ پاکستان کا کام نہیں ہے، اب انڈین وزارت داخلہ کے ڈپٹی سیکریٹری آروی مانی نے عشرت جہاں قتل کیس میں جو بیان حلفی داخل کیا ہے، اس میں انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ 13 دسمبر 2001ء کو انڈین پارلیمینٹ پر حملہ اور 26 نومبر 2008ء کو ممبئی حملہ دونوں بھارتی حکومت کی کارروائی تھی۔ انہوں نے اپنے بیان میں ممبئی حملوں کے تفتیشی افسر ستیش ورما جو اب جونا گڑھ پولیس ٹریننگ کے سربراہ ہیں، کے حوالے سے یہ کہا ہے کہ انہوں نے اُن کو یہ بات بتائی۔ 13 دسمبر2001ء کا پارلیمینٹ پر حملہ اس لئے کیا گیا تاکہ ”پوٹا“ کے قوانین کو زیادہ سخت بنایا جائے۔ امریش مشرا نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ انڈیا کی آئی بی میں بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس جو مسلمان دشمن ہے، کے ممبران گھس آئے ہیں اور وہ مسلمانوں کو ایذا پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے چنانچہ انہوں نے دہلی کے بٹلہ ہاوٴس کا حوالہ بھی دیا کہ وہاں اعظم گڑھ کے دو طالب علم معصوم مسلمان بچوں کو دہشت گرد قرار دے کر مار دیا گیا تھا۔ پارلیمینٹ پر جن کو حملہ آور قرار دیا گیا تھا، اس کی حقیقت یہ ہے کہ 2001ء میں طالبان کی حمایت میں امریکہ کے خلاف جنگ پر جانے والے کوئی سو کے قریب پشتونوں کو گرفتار کیا اور افغانستان کے شمالی اتحاد نے ایئرلفٹ کرکے انڈیا کے حوالے کیا تھا اُن میں سے چند لوگ کو پارلیمینٹ پر بلاہتھیار کے چھوڑ دیا گیا تھا اور پھر اُن کو مار دیا گیا تھا تاکہ کوئی گواہ باقی نہ رہے اور افضل گرو جو ایک استاد تھے اُن کو گرفتار کرلیا تھا۔ اس کی تصدیق اس طرح ہوئی کہ نومبر 2005ء میں چندی گڑھ انڈیا میں ”عالمی اور علاقائی دہشت گردی اور اس کا سدباب“ کے عنوان سے ایک مذاکرہ ہوا تھا، اس میں پاکستان سے یہ کالم نگار، جنرل طلعت مسعود اور سابق سفارتکار نجم الدین شیخ گئے تھے۔ وہاں پر بیرسٹر ننداہسکر نے جو کہ افضل گرو کی وکیل تھیں، مجھ سے پوچھا کہ ان طالب گرفتارشدگان کا کیا بنا جو افغانستان کے شمالی اتحاد نے ایک جہاز بھر کے انڈیا کو تحفہ میں دیئے تھے۔ مجھے یہ علم تھا کہ انڈیا نے اُن کو لکھنو کے قریب رکھا ہوا ہے اور گاہے بگاہے دہشت گردی کے واقعات میں اُن کو اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ اُن کو کسی مقام پر چھوڑ دیتے ہیں اور مار دیتے ہیں اور یہ کریڈٹ لیتے ہیں کہ انہوں نے پاکستانی دہشت گردوں کو مار دیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ افضل گروہ بے گناہ ہے تاہم وہ ایک دانشور اور کشمیر کی آزادی کا علمبردار ہے اس لئے آئی بی اس کو برداشت نہیں کررہی ہے۔ اس طرح اجمل قصاب کو بھی انہوں نے سرحد عبور کرتے ہوئے پکڑا اور اسے ممبئی حملوں میں استعمال کیا اور اس طرح کہ پاکستان کو یکسر کونے میں لگا دیا جائے، جس میں وہ کامیاب رہے۔ انڈیا نے افضل گرو اور اجمل قصاب دونوں کو پھانسی دے دی ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ جب یہ بات جو بہت پہلے سے لکھتے آرہے تھے۔ اس کے درست ثابت ہونے کے ثبوت مل رہے ہیں تو پاکستان کیوں خاموش ہے۔ وزیر اطلاعات کا یہ بیان تو آیا ہے کہ پاکستان نے انڈیا سے اس کی وضاحت مانگی ہے، وضاحت کے ملنے پر پھر اس پر ردعمل ظاہر کریں۔ ہمارا میڈیا بھی اس کو کوئی بڑا مسئلہ نہیں سمجھتا۔ اگرچہ ہم نے ممبئی کے حملوں میں بہت دکھ جھیلے ہیں۔ اس حملہ کے الزام نے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا ہے مگر پھر بھی وزارت خارجہ، وزارت داخلہ سے لیکر انٹر سروس پبلک ریلیشن کا محکمہ بھی خاموش ہے۔ یہ ایک موقع تھا انڈیا کے دباوٴ کو بے اثر کرنے کا جس کو ضائع کیا جارہا ہے، نوازشریف انڈیا سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں، فوج کے ادارے آئی ایس پی آر میں بصیرت کو ڈھونڈنا پڑے گی۔ شاید وہ کہیں کہ یہ ہمارا کام نہیں ہے ہم تو حکومت کے تابع ہیں۔ اچھی بات ہے مگر سچ بات کہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ انڈیا امریکی اسٹائل کو اپنا چکا ہے اس نے 9/11 کو 26/11 سے مسابقت دی۔ وہاں اب ڈپٹی سیکریٹری کو انڈر سیکریٹری کہا جانے لگا ہے۔ انہوں نے ویزا فارم امریکی ویزا فارم کی نقل بنا لی ہے۔ اسی طرح سے وہ مہم جوئی بھی امریکہ کی طرح سے کررہے ہیں۔ سرحدوں میں چھیڑچھاڑ، اسلحہ کی بھرمار، ہزاروں ٹینکوں کا خریدنا جو چین کے خلاف اس لئے استعمال نہیں ہوسکتے کہ پہاڑی علاقے چین اور انڈیا کی سرحد بناتے ہیں۔ پاکستان اگر انڈیا کو اٹکا کر رکھنا چاہتا ہے تو اور بات ہے یا پھر پاکستان کو مشتعل کرنے کی کوشش کو بے اثر کرنا چاہتا ہے تو بھی ٹھیک ہے مگر سچائی کو تو سامنے آنا چاہئے کہ ممبئی حملہ خود انڈیا کا کام تھا، ایسا کرنے میں کیا مضائقہ ہے۔
تازہ ترین