• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خلافِ معمول اس روز وہ بے حد اداس تھا۔ پھر میرے اصرار پر اس نے مجھے اپنی داستان سنائی۔ اس نے کہا ’’میں اس وقت چار برس کا تھا ،جب پہلی بار ان سے واسطہ پڑا۔ وہ امریکہ سے آئے تھے اور فر فر انگریزی بول رہے تھے۔ گو میں اپنے باپ کا لاڈلا تھا لیکن امریکی بچوں کی توچھب ہی نرالی تھی۔ جب یہ بتایا گیا کہ پہلی بار گدھا دیکھ کر چھوٹے امریکی نے کیا کہاتو قہقہے بلندہوئے۔ ہر چند سال بعد وہ آتے۔ جب بھی آتے، ہماری شمع گل ہو جاتی۔

ہماری مسیں بھیگنے لگیں۔ کچھ کچھ انگریزی بھی پلے پڑنے لگی۔ انہی دنوں انکشاف ہوا کہ کسی بڑے کی بات ناگوار گزرتی تو زیرِ لب وہ اسے گالی بھی دے ڈالتے۔ خاندان کے بزرگ میٹھی انگریزی میں لپٹی ہوئی یہ گالی تبرک سمجھ کے وصول کرتے۔ اب کی بار امریکی آئے تو جون ہی بدلی ہوئی تھی۔ امریکہ میں ٹین ایج لڑکوں والی آزادی سے وہ لطف اندوز ہو رہے تھے۔ کئی قصے ان کی زبان پر تھے۔ ہماری پسماندگی اور خشخشی داڑھیوں پر انہیں ترس آرہا تھا۔ زندگی کا تیسرا عشرہ شروع ہوچکا تھا۔ اب ہم یونیورسٹی میں تھے اورکلین شیو، اب کی بار مگر وہ آئے تو دوبارہ جون بدل چکی تھی۔ لمبے جبّے، ٹوپیاں، اونچی شلواریں اور گھنی داڑھیاں۔ ایک امریکی نے میرا کلین شیو چہرہ دیکھا تو بولا’’لڑکی آگئی، لڑکی‘‘۔ ہم نے مذہبی ہو کر دیکھا، پھرماڈرن ہو کر دیکھا مگر بے سود۔

تری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی

وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی

قرآن میں نے بھی حفظ کیا تھا لیکن ہماری مارکیٹنگ کرنے والا کوئی نہ تھا۔ ڈرائیور کی موجودگی میں اچانک بڑا امریکی بولا :سنا ہے ایک بینکر سے تم نے اپنی بہن بیاہ دی۔ کوئی حلال کمانے والا نہ مل سکا؟ ایک امریکی، اوپر سے مذہبی، وہ دو آتشہ ہو چکے تھے۔ زہر آلود جملے اگلنے کا گرین کارڈ ان کی جیب میں تھا۔ایک کہنے لگا کہ اسے کوئی مذہبی مسئلہ پوچھنا ہے۔ میں نے پروفیسر احمد رفیق اختر کا نام لیا تو بھڑک کر بولا : وہ عالمِ دین ہیں تو داڑھی کیوں نہ رکھی ؟ لوگ خلاف سنت اِن کے ہاتھ کیوںچومتے ہیں ؟حیرتوں کی حیرت ،جب کسی مسئلے میں پھنس جاتے اور سب راستے بند ہو جاتے تو یکایک گوجر خان قبلہ و کعبہ بن جاتا۔

انہی دنوں ان کے والدِ بزرگوار نے انکشاف کیا کہ دختر محترمہ پاکستان آنے والی ہیں ’’ وہ خاندان کے صرف تین لوگوں سے ملنے پاکستان آرہی ہے ‘‘ انہوں نے کڑکتے ہوئے لہجے میں کہا۔ اگلا پورا مہینہ ہم بدقسمتوں کو اسی فقرے کی گردان سننا تھی۔ خاندان کا ہر وہ مسکین جو ان تین خوش نصیبوں میں شامل نہیں تھا، اسے اس کے منہ پر یہ خبر سنا کر ذلیل کیا گیا۔ وہ توپاکستان نہ آسکی۔ سورج مگر اسی طرح طلوع ہوتا رہا۔ بارش برستی اور فصل اگتی رہی۔ لہجے کی کڑک سے البتہ گمان یہ ہوتا تھا کہ امریکہ میں کم سے کم وہ آرمی چیف لگی ہوئی ہے۔

نائن الیون رونما ہو چکا تھا۔ ادھر ان کی حالت یہ تھی کہ جو غیر مسلم نظر آتا، اسے کلمہ پڑھانے پہ کمر کس لیتے۔ انتہا پسندوں سے ملاقاتیں اور حلیے القاعدہ والے۔ ایجنسیاں تعاقب کرنے لگیں۔ کوئی سعودی عرب نکل بھاگا۔ سب سے معصوم بھائی کو انہوں نے ٹیپو سلطان بنانے کی اتنی کوشش کی کہ ناکام ہوا تو ٹوٹ گیا اور منشیات پہ لگ گیا۔ وہ پھر بھی ہم سے بہت اوپر رہے۔ اس لئے کہ صبح پورا خاندان اکھٹا ’’کوڈی، کوڈی ‘‘ کرتا ہوا نکلتا اورشام کو اکھٹا ’’کوڈی ،کوڈی ‘‘ کرتا پویلین کو لوٹ جاتا۔ادھر ہمارے معصوم والدین تھے، جو سب کے سامنے ہی چھتر پھیر کر ہماری پوزیشن صفر کر دیتے۔ لابنگ کی صلاحیت ایسی خوفناک کہ دنوں میں پورے خاندان سے مقاطعہ کروا ڈالیں۔ میں ان دنوںاپنی ایک میجر سرجری کے انتظار میں سسک رہا تھا، جب ایک امریکی کو میری بے نمازگی بے چین کرنے لگی۔ میری والدہ کے پاس وہ میری نمازوں کی تعزیت کرنے پہنچ گیا۔

انہی دنوں انہیں شک ہوا کہ خاطر مدارت میں کچھ کمی رہ گئی ہے۔ ایک مشترکہ رشتے دار نے انہیں کھانے کی دعوت دی۔ میرے گھر کی طرف دیکھ کر بھرائی ہوئی آواز میں بولے: میں تو کل رات سے بھوکا ہوں۔ پھرایک دوسرے سے کہا: میرا بیٹا دو دن کا بھوکا ہے۔ گویا مہمانوں کو میں بھوکا مار رہا تھا۔ شومئی قسمت اگلے روز میری بیٹی نے شہد گرا دیا۔ ارشاد ہوا : دروازے کی چابی لائی جاوے۔ اللہ کی شان، میرے گھر میں، میری کمائی سے لایا ہوا شہد گرانے پر میری جان سے پیاری بیٹی پر دروازہ بند کر دیا گیا۔ پھر دوسرے کمرے کی باری آئی، جس میں سامان پڑا تھا۔ نماز پڑھنے جاتے تو تالا لگا جاتے۔ بڑا دل گردہ چاہئے، کسی کے گھر جا کر تالہ بندی کے لئے بڑا دل گردہ۔

اس روز میری تین سالہ معصوم بیٹی اپنے عم زاد کے ساتھ کھیلتے ہوئے خوشی سے چیخ رہی تھی، ناگواری سے جب وہ اپنی پاٹ دار آواز میں بولے’’آپ کے بچوں کو سخت تربیت کی ضرورت ہے‘‘۔ ایک تیر میرے کلیجے کے پار ہو گیا۔ ان کا بیٹا آٹھ سال کا تھا، جب دینی تعلیم کے لئے پاکستان آیا۔ ایک روزبیت الخلا جانے کا دل نہ کیا تو ایک رجسٹر کھول کر اسی پہ رفع حاجت کر دی۔ اس کو تربیت کی ضرورت نہ پڑی۔ میں توسمجھتا تھا کہ عالم رویا میں شایدہمیں سے کوئی غلطی سرزد ہوئی تھی مگر اب تویہ بیر اگلی نسل تک آپہنچا۔ اب ہمیں اپنی اولاد کو یہ سبق پڑھانا ہے کہ جو یاجوج ماجوج ان کے ہاں پیدا ہو رہے ہیں، وہ ہیں اصل اشرف المخلوقات۔ ہماری اولادیں تو محض چونگا ہیں‘‘۔

تازہ ترین