• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر اسرار احمد کا شمار ملک کے چند انتہائی ممتاز مذہبی اسکالر اور محققین میں ہوتاہے، وہ ایک بار حیدرآباد تشریف لائے جہاں انہوں نے ایک اہم تقریب میں خاص طور پر انگریزوں کی حکومت کے دور میں سندھ کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک اور انگریز سامراج کے خلاف چلائی گئی حر تحریک کے بارے میں اہم فرمودات پیش کئے ۔ میں سب سے پہلے اس تقریر کے کچھ اہم اقتباس یہاں پیش کررہا ہوں‘ اس کے بعد اپنی معروضات پیش کروں گا۔ ڈاکٹر اسرار احمد نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’میں اس وقت حیدرآباد میں بیٹھا ہوں جس کی تاریخ بڑی شاندار ہے،یہ وہ شہر ہے جس نے انگریزوں کے خلاف جنگیں کیں اور یہ صوبہ (سندھ) وہ ہے جس نے ایک دن کے لئے بھی انگریز کی حکومت کو دل سے تسلیم نہیں کیا، ہندوستان کی تقسیم سے تین سال پہلے یعنی 1944ء تک حر یہاں انگریزوں کے خلاف بغاوت کررہے تھے، حر کبھی کسی پولیس چوکی پر حملہ کرتے تو کبھی کسی پولیس اسٹیشن پر جاکر آگ لگاتے تھے، انہوں نے انگریز کو کبھی چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔ آپ سمجھ گئے کہ اس کی وجہ کیا تھی؟ اس دور میں پنجاب میں کتنے کالج کھولے گئے، بہاولپور سے شروع ہوجائیں ایس اے کالج بہاولپور، ایمرسن کالج ملتان،ایچی سن کالج، کرسچن کالج فار وومین، ایس اے کالج،مری کالج سیالکوٹ، گارڈن کالج راولپنڈی،ایڈورڈ کالج پشاور یہ سب کالج قائم کئے گئے لیکن سندھ میں انہوں نے کوئی کالج قائم نہ کیا ۔ سندھ میں پارسیوں نے مدرسہ کھولا یا پھر مسلمانوں نے آپس میں مل کر کراچی میں مدرستہ الاسلام کھولا مگر انگریزوں نے سندھ میں کوئی ایسا تعلیمی ادارہ قائم نہیں کیا، انگریز نےایسا کیوں کیا؟ کیونکہ اسے معلوم تھا کہ سندھیوں کے دلوں میں ان کے خلاف بغاوت کے جذبات ہیں۔ ان کو یقین تھا کہ سندھی کبھی بھی ان کے وفادار نہیں ہوں گے، ان کو معلوم تھا کہ سندھیوں کو جب بھی موقع ملا وہ ان پر حملہ کریں گے جبکہ پنجاب اور سرحد کے درمیانی اضلاع انگریز کے وفادار ثابت ہوئے ، یہ پنجاب کی فوج تھی جس نے دلی ،جو 1857 ء میں انگریزوں کے ہاتھ سے نکل گیا تھا،اسے دوبارہ فتح کرکے انگریز کے حوالے کیا۔ مجھے یاد ہے میاں طفیل محمد صاحب‘ جو ابھی زندہ ہیں، انہوں نے اس وقت ایک بہت سخت بیان دیا تھا کہ سندھی تو فوج میں ہیں ہی نہیں، فوج میں آتے ہی نہیں اور یہ بھی کہا کہ ’’سندھی تو نان مارشل Non-Martial قوم ہے جبکہ یہ انگریز کا پروپیگنڈا تھا۔ میاں طفیل محمد نے یہ جو بات کہی تھی، اس کا جواب سید غلام مصطفیٰ شاہ نے دیا تھا جو سیکریٹری ایجوکیشن اور لاہور میں ایک کالج کے پرنسپل بھی رہے تھے(سید غلام مصطفیٰ شاہ بعد میں سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے)۔ سید غلام مصطفی شاہ نے جواب میں کہا کہ (Yes,we were never mercernaries) ہاں ہم کبھی بھی کرائے کے آلہ کار نہیں رہے۔ ہم وہ نہیں تھے جنہوں نے انگریزوں کے سپاہی بن کر کعبۃ اللہ شریف پر گولیاں چلائیں یا انگریزوں کے سپاہی بن کر یروشلم کا قبضہ انگریز جنرل کو دیا‘‘۔ ڈاکٹر اسرار احمد نے مزید کہا کہ میں آپ کو ایک اور بات یاد دلائوں کہ سندھ پاکستان کا واحد صوبہ ہے جہاں تقسیم سے پہلے بھی مسلم لیگ کی حکومت تھی جبکہ پنجاب میں یونینسٹ پارٹی کی حکومت تھی جو ہندوؤں‘ مسلمانوں اور سکھوں نے مل کر بنائی تھی۔سرحد صوبے میں باچا خان کے بڑے بھائی خان صاحب کی حکومت تھی، یہاں ریفرنڈم ہوا اور غیور پٹھانوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا، اس میں مولانا شبیر احمد عثمانی نے اہم کردار ادا کیا وہاں نو پیر تھے۔ پیر صاحب مانکی شریف اور پیر صاحب زکوڑی شریف نے اس سلسلے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ پاکستان میں اسلامی نظام قائم ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج اسی سندھ میں،میں کہہ رہا ہوں کہ یہی سندھ تھا جہاں سب سے پہلے اسلام آیا تھا‘ 712 یا 713 عیسوی میں، 92یا 93 ہجری میں محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا تو اس وقت سے سندھ کو باب الاسلام کہا جاتا ہے کیونکہ نہ فقط برصغیر بلکہ غیر عرب دنیا میں سندھ وہ واحد علاقہ ہے جہاں اسلام سب سے پہلے آیا۔اس وجہ سے سندھ کو باب الاسلام کہا جاتا ہے۔ میں اب اپنی معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں کہ سندھ میں اسلام تو اس وقت ہی آگیا تھا جب ابھی ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ مدینہ شریف میں خود اسلام کی تبلیغ کررہے تھے اس دور میں سندھ سے 12 سے 15 سندھی کسی طرح مسجد نبوی میں پہنچ گئے جب ہمارے پیغمبر ﷺ اسلام کی تبلیغ کررہے تھے،اچانک 12 سے 15 اجنبی لوگ جب مسجد نبوی پہنچے تو ہر ایک ان سے پوچھنے لگا کہ وہ کون ہیں؟ جواب میں ان سندھیوں نے بڑے ادب سے حضور اکرم ﷺ سے مخاطب ہوکر کہا کہ ہم سندھی ہیں اور سندھ سے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہاں اس وجہ سے آئے ہیں کہ آپ کے مبارک ہاتھوں پر بیعت کرکے مسلمان ہوں، اس کے بعد حضور اکرم ﷺ نے انہیں مسجد میں بٹھایا اور کلمہ پڑھاکران کو مسلمان بنایا‘ اس کے بعد وہ مدینہ پاک میں رہنے لگے اور صحابی کہلانے لگے‘ کچھ عرصے کے بعد حضور اکرم ﷺ نے ان میں سے کچھ سندھیوں کو کہا کہ وہ سندھ جائیں اور وہاں جاکر اسلام کی تبلیغ کریں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین