• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنماوٴں کے خلاف 1971ء میں پاکستان سے علیحدگی کی تحریک کے دوران ملکی سا لمیت کیلئے پاکستانی فوج کا ساتھ دینے اور جنگی جرائم کا مرتکب ہونے کے الزام میں حسینہ واجد حکومت کا بنایا ہوا ”انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل “ پے درپے موت اور عمر قید جیسی سزائیں سنا رہا ہے۔ پچھلے چند روز میں جماعت اسلامی کے سابق امیر 90 سالہ پروفیسر غلام اعظم کو 90سال قید کی سزا کے علاوہ جماعت کے ایک اور رہنما علی احسن مجاہد کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ اس سے پہلے فروری کے اواخر میں ممتاز مفسر قرآن مولانا دلاور حسین سعیدی کو بھی انہی الزامات کے تحت سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔ یہ تو بہرحال حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی نے پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانے کیلئے علیحدگی پسند عناصر کے خلاف حکومت پاکستان کا ساتھ دیا اور اس مقصد کیلئے کی جانے والی فوجی کارروائی میں پاکستانی فوج سے تعاون کیا تھا لیکن یہ کسی صورت جرم نہیں کیونکہ پوری دنیا میں ہر محب وطن شہری کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملک کو توڑنے کی ہر کوشش کو ناکام بنانے کیلئے حسب استطاعت اپنا کردار ادا کرے۔ آج اگر بنگلہ دیش کے کسی حصے میں علیحدگی کی کوئی تحریک شروع ہوجائے تو حسینہ واجد حکومت بنگلہ دیش کے ان شہریوں کو ہرگز مجرم قرار نہیں دے گی جو علیحدگی کی تحریک کو ناکام بنانے میں حکومت کا ساتھ دینے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ علیحدگی کی تحریکوں کی کامیابی کی صورت میں قومیں نئے سرے سے اپنا سفر شروع کرتی ہیں اور ان لوگوں کو مورد الزام ٹھہرا کر سزائیں نہیں سنائی جاتیں جنہوں نے نیک نیتی کے ساتھ ملک کو متحد رکھنے کی جدوجہد کی ہو۔ بنگلہ دیش میں بھی حسینہ واجد کی موجودہ حکومت سے پہلے تک یہی صورت تھی۔ جماعت اسلامی اور مسلم لیگ سمیت وہ تمام عناصر جو بنگلہ دیش کے قیام کے مخالف تھے اور جنہوں نے 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو روکنے کے لئے حکومت پاکستان کی جانب سے کی جانے والی فوجی کارروائی کی عملی حمایت کی تھی،ان سب کو موقع دیا گیا کہ وہ بنگلہ دیش کو اپنے وطن کی حیثیت سے اپنائیں اور سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں اپنا کردار ادا کریں۔ چنانچہ جماعت اسلامی سمیت اِن تمام سیاسی عناصر نے بنگلہ دیش کے سیاسی اور انتخابی عمل میں حصہ لینا شروع کیا۔ اس کے نتیجے میں جماعت اسلامی ملک کی ایک بڑی اور موثر سیاسی طاقت کی حیثیت سے ابھری اور خالدہ ضیاء کی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومتوں میں شامل رہی۔ حسینہ واجد کی موجودہ حکومت نے بھی اس صورتحال کو اپنے پہلے دور حکومت میں پوری طرح قبول کئے رکھا لیکن 2008ء کے انتخابات کے بعد جب انہیں پھر اقتدار ملا تو انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے نام سے بنائی گئی عدالت میں 2012ء تک جماعت اسلامی کے دس اور بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے دو رہنماوٴں کے خلاف قتل و غارت ، لوٹ مار حتیٰ کہ آبروریزی تک کے الزامات کے تحت مقدمات قائم کئے گئے اور سال رواں کے دوسرے مہینے سے سزاوٴں کے اعلان کا سلسلہ جاری ہے۔کسی کے خلاف واقعی جرائم کے ثبوت وشواہد ہوں تو اسے انصاف کے کٹہرے میں لانا حکومت کی ذمہ داری ہے مگر انصاف کے نام پر سیاسی انتقام بجائے خود جرم ہے اور بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل میں جو کچھ ہو رہا ہے، کسی بھی غیر جانبدار مبصر کے لئے اسے انصاف کہنا محال ہے۔ اس ٹریبونل کے نام میں انٹرنیشنل ضرور شامل ہے مگر عملاً یہ محض بنگلہ دیش کی ایک خصوصی عدالت ہے جسے معتبر بنانے کے لئے انٹرنیشنل کا لاحقہ لگادیا گیا ہے۔ ممتاز مغربی جریدے اکنامسٹ نے 15 دسمبر 2012ء کو ٹریبونل کے اس وقت کے سربراہ جسٹس محمد نظام الحق اور بروسلز میں مقیم ان کے دوست اور بنگالی نژاد وکیل احمد ضیاء الدین کے درمیان ہونے والی 230 سے زائد ای میل پیغامات پر مشتمل خط و کتابت اور 17 گھنٹے کی ٹیلی فونی بات چیت کے ریکارڈ کی روشنی میں انکشاف کیا کہ اس عدالت کی حیثیت ایک ڈھونگ کے سوا کچھ نہیں۔ انصاف کے بجائے حکومت کی خواہشات کی تکمیل اس کا اصل مقصد ہے اور اس کے لئے حکومت کی طرف سے اس پر بے پناہ دباوٴ ہے۔ جریدے کے مطابق اس نے اس ریکارڈ کے درست ہونے کی تصدیق ان دونوں شخصیات سے براہ راست کرنے اور اس پر ان کا موقف حاصل کرنے کے بعد اسے منظر عام پر لانے کا فیصلہ کیا تاکہ انصاف کے نام پر انسانی جانوں کے خون ناحق کو روکا جاسکے۔ ٹریبونل کے کام میں حکومت کی مداخلت کا اندازہ جسٹس نظام الحق کے ان الفاظ سے لگایا جاسکتا ہے جو انہوں نے رپورٹ کے مطابق ضیاء الدین سے کہے ”وہ فوری فیصلے کے لئے بالکل جنونی ہورہے ہیں۔حکومت مکمل طور پر پاگل ہوچکی ہے…میں تمہیں بتارہا ہوں وہ16 دسمبر تک فیصلہ چاہتے ہیں…ہم نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ عدالتی فیصلہ کسی کارخانے کی پیداوار نہیں ہوتا کہ آپ کہیں اور اسے مشین سے نکال دیا جائے…لیکن ہم انہیں سمجھانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں“۔ جہاں تک اس ٹریبونل کے بین الاقوامی معیارات کے مطابق ہونے کا تعلق ہے تو اس کا اندازہ جسٹس نظام الحق کی جانب سے ٹریبونل میں شامل ایک جج شاہین الاسلام کے بارے میں اس پریشانی سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ہر معاملے میں بین الاقوامی معیار کی بات کرتے ہیں ۔ نظام الحق اپنے مشیر ضیاء الدین سے کہتے ہیں ”میں شاہین کے بارے میں کسی حد تک خائف ہوں کیونکہ وہ بین الاقوامی معیار کی جانب بہت زیادہ مائل ہے۔ یہ بات میرے ذہن میں بھی تھی اور پراسیکیوٹرز نے بھی شکایت کی کہ وہ ہر آرڈر میں بین الاقوامی ٹریبونلز کے حوالے لے آتا ہے“۔ اس پر احمد ضیاء الدین نے جواباً کہا ” اسے ایسا کرنے سے روکا جانا چاہئے…اگر وہ باز نہیں آتا تو اسے نکال باہر کیا جانا چاہئے کیونکہ یہ چیز ہمارے لئے نقصان دہ ہے“۔ اکنامسٹ کی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ٹریبونل کے سربراہ کا یوں خفیہ طور پر ایک باہر کی شخصیت سے مقدمات پر مشاورت کرنا اور معاونت حاصل کرنا بجائے خود قانون اور انصاف کے منافی ہے۔ جریدے نے تقریباً 2800الفاظ پر مشتمل اپنی اس رپورٹ میں متعدد ایسے انکشافات کئے ہیں جو اس ٹریبونل کو مکمل طور پر ناقابل اعتبار ثابت کرتے ہیں۔ٹریبونل جس قسم کا انصاف کررہا ہے، اسے بے نقاب کرنے والا ایک اور اہم واقعہ موت کی سزا کے حقدار قرار پانے والے دلاور حسین سعیدی کے ایک نہایت اہم گواہ شکورنجن بالی کا پولیس کے ہاتھوں اغواء اور لاپتہ کردیا جانا ہے۔ یہ شخص چھ ماہ بعد کلکتہ کی ڈم ڈم جیل میں دریافت ہوا۔ مئی کے مہینے میں نیو ایج نامی بنگلہ دیشی اخبار میں اس کی کہانی شائع ہوئی۔اس نے بتایا کہ نومبر کے مہینے میں اسے ڈھاکہ میں انٹرنیشنل ٹریبونل کورٹ کے گیٹ کے سامنے سے عین اس وقت سادہ لباس والے پولیس اہلکاروں نے اغواء کرلیا جب وہ دلاور حسین سعیدی کے مقدمے میں یہ گواہی دینے اپنے گاوٴں سے آیا تھا کہ اس کے بھائی کو 1971ء میں قتل ضرور کیا گیا مگر اس میں سعیدی صاحب کا کوئی حصہ نہیں تھا۔ بالی کو جب اغواء کیا گیا توتین وکلائے صفائی اس کے ساتھ تھے۔ ان وکلاء نے ٹریبونل میں شکایت کی کہ صفائی کے ایک نہایت اہم گواہ کو پولیس نے اغواء کرلیا ہے مگر ٹریبونل نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی جبکہ حکومت ایسے کسی واقعے کا انکار کرتی رہی لیکن کلکتہ کی جیل سے بالی کے اس بیان کے بعد کہ بنگلہ دیشی ایجنسیوں نے دسمبر میں اسے بھارت کی بارڈر سیکورٹی فورس کے حوالے کر دیا تھا، حقیقت سامنے آگئی ہے۔ دلاور حسین سعیدی کی سزائے موت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اپیل میں بالی کی گواہی اہم کردار ادا کرسکتی ہے اور شاید اسے بھارت منتقل کرنے کا سبب یہی ہو۔ ان حقائق سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کی حقیقت کیا ہے اور اس کے ذریعے کس قسم کا انصاف ہورہا ہے۔
تازہ ترین