نیویارک / کراچی (عظیم ایم میاں / نیوز ڈیسک) سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر 11؍ ستمبر کے 20؍ سال مکمل ہونے پر صدر بائیڈن کے حکم پر پہلی امریکی خفیہ رپورٹ ریلیز کردی گئی ہے۔
16؍ صفحات پر مشتمل رپورٹ میں پاکستان یا کسی پاکستانی شہری کا کوئی ذکر نہیں ، افغانستان کا بھی ذکر نہیں تاہم رپورٹ جزوی ہے کیونکہ بہت سے جملوں کو کالا کرکے پوشیدہ رکھا گیا ہے ، رپورٹ میں کینیڈا سے آتش گیر مادہ کی اسمگلنگ ، ملائیشیا اور تھائی لینڈ سے افراد کے سفر کا ذکر موجود ہے۔
تفصیلات کے مطابق سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر 11؍ ستمبر کے 20؍ سال مکمل ہونے پرصدر بائیڈن کے احکامات کے تحت امریکی ایف بی آئی نے 16؍ صفحات پر ایک تحقیقاتی خفیہ رپورٹ کو’’ڈی کلاسیفائی‘‘ کرکے ریلیزکردیا ہے تاہم بہت سے کرداروں، زیر تحقیقات افراد، جگہوں اورجملوں کوکالا کرکے قومی مفاد اور سیکورٹی کے جوازپر عوام سے پوشیدہ رکھا گیا۔
ایف بی آئی کی یہ خفیہ تحقیقاتی رپورٹ اس نقطہ پر مرکوز نظرآتی ہے کہ آیا سانحہ 9/11میں ملوث 15؍ سعودی شہریوں سے سعودی حکومت کے حکام کے کوئی روابط تھے؟ 16؍ صفحات پرمشتمل یہ رپورٹ دراصل 2015ء میں ایف بی آئی کے ایک ایسی سعودی شخصیت سےانٹرویوکا حوالہ لئے ہوئے ہے جس کے سعودی حکام اور سفارت کاروں سے کافی روابط بھی تھے۔
اس رپورٹ کوصدر بائیڈن نے’’ڈی کلاسیفائی‘‘ کرنے کا حکم ایسے امریکی خاندانوں کے دیرینہ مطالبے اور دبائو کے تحت دیا ہےجن خاندانوں نے امریکا میں سعودی حکومت کے خلاف مقدمہ کیا یہ جواز دیا ہے کہ سانحہ نائن الیون کی سعودی حکومت ذمہ دار ہے اور 15؍ سعودی ہائی جیکروں کے سعودی حکام اور حکومت سے روابط تھے۔
اس رپورٹ میں متعدد سعودی کرداروں سے پوچھ گچھ اوران کے نام بھی بتائے گئے ہیں لیکن واضح طور پر کہا گیا ہے کہ سعودی حکومت بطور ادارہ اس واقعہ کی ذمہ دار نہیں اور نہ ہی اس کا ہائی جیکنگ میں کوئی ر ول ہے۔
ایف بی آئی کی اس خفیہ تحقیقاتی رپورٹ میں پاکستان یا کسی پاکستانی شہری کا کوئی ذکر نہیں البتہ کینیڈا سے آتش گیر مادہ کی اسمگلنگ ملائیشیا اور تھائی لینڈ سے بعض غیر پاکستانی افراد کے سفر کا ذکر ضرور موجود ہے جن کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔
امریکی اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے صدر بائیڈن کے احکامات کے تحت اپریل 2016ء میں ایف بی آئی کی اس خفیہ تحقیقاتی رپورٹ کے 16؍ صفحات جاری کئے ہیں اور اگلے چھ ماہ میں مزید خفیہ دستاویزات بھی ’’ڈی کلاسیفائی‘‘ کی جائیں گی۔
سانحہ 9/11 کے بارے میں ایک اعلی سطح کمیشن بھی 2004ء میں ایک ضخیم رپورٹ شائع کرچکا ہے اس رپورٹ میں بھی اس سانحہ کے بارے میں سعودی حکومت کوئی ثبوت نہیں ملا تاہم ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تاریخی ٹریجڈی میں ہلاک اور متاثر ہونے والے خاندان سعودی حکومت کو اس واقعہ کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے قانونی کارروائی کررہے ہیں۔
امریکا میں سعودی سفارتخانہ بھی اس رپورٹ کے ریلیز کا حامی ہے اور متاثرہ خاندانوں نے بھی اس ریلیز کاخیرمقدم کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دستاویزات کے مندرجات سے ان خاندانوں کے وکیلوں کو بڑی مدد ملے گی اور مزید حقائق سامنے آئیں گے۔
رپورٹ میں اسامہ بن لادن کا ذکر موجود ہے لیکن پاکستان یا اسامہ بن لادن سے کسی پاکستانی رابطوں کا ذکر بھی نہیں بلکہ یہ رپورٹ سعودی ہائی جیکروں، امریکہ میں سعودی شہریوں سے تحقیقات اور سعودی حکومت کی سانحہ سے لاتعلق ہونے کی تصدیق کرتی ہے۔
خصوصی طور پر جن دو ہائی جیکرز کی اسکروٹنی کی گئی ہے وہ نواف ال حازمی اور خالد المحظار ہیں جو پہلے امریکا پہنچے اور انہیں مدد ملی۔ یہ لوگ جنوبی کیلیفورنیا پہنچے انہیں حلال ریستوراں میں عمر البیومی نامی ایک سعودی شہری ملا جس نے انہیں سان ڈیاگو میں اپارٹمنٹ حاصل کرنے میں مدد دی۔
اِس شخص کے سعودی حکومت کے ساتھ تعلقات تھے اور یہی شخص سب سے پہلے ایف بی آئی کی اسکروٹنی کا شکار ہوا۔ البیومی نے دونوں کے ساتھ اس ملاقات کو محض اتفاقی قرار دیا تھا تاہم ایف بی آئی کی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ یہ ملاقات پہلے سے طے تھی۔
جس بنیاد پر ایف بی آئی کی یہ دستاویز تیار کی گئی وہ ایک شخص کیخلاف کی گئی تحقیقات کا نتیجہ تھی جس کے متعلق کہا گیا تھا کہ وہ امریکی شہریت کیلئے درخواست دے رہا تھا اور اس سے قبل اس کے سعودی حکومتی عہدیداروں کے ساتھ مسلسل روابط تھے۔
اس شخص کے متعلق تحقیقات کاروں کا کہنا تھا کہ اس نے کئی ہائی جیکرز کو لاجسٹک مدد فراہم کی اور اسی شخص کے روابط میں البیومی کا نام بھی تھا۔ یہ معلوم نہیں کہ یہ شخص کون تھا کیونکہ دستاویز میں اس کے نام کو چھپا دیا گیا ہے لیکن کہا گیا ہے کہ یہ شخص لاس اینجلس میں سعودی قونصل خانے کا ملازم تھا۔
دستاویز میں لاس اینجلس کے سعودی سفارت خانے کے سفارت کار فہد الثمیری کا بھی ذکر ہے جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ اس نے مسجد میں انتہا پسند گروپ کی قیادت کی تھی۔