کبھی کہا جاتا تھا کہ فلم اور فیشن انڈسٹری دونوں ہوا کے رُخ پر چلتی ہیں، چلیے ایسا ہے تو اس کا جواز بھی کچھ نہ کچھ ہوگا— لیکن اگر اب کہا جائے کہ ادب کے لیے زمانہ خراب ہے تو کیا کیجیے گا۔ ایسی باتوں پر سوچنا پڑتا ہے کہ کہا جائے تو کیا اور چپ رہیے تو کیوں کر۔ ہمارے یہاں ویسے یاروں کے بھی شوق نرالے ہیں، آئے دن کوئی نہ کوئی پھلجھڑی چھوٹتی رہتی ہے۔ ایک زمانے میں غزل کہ جس نے ہماری تہذیبی قدروں کی تشکیل تک میں کردار ادا کیا، اُسے نیم وحشی صنفِ سخن کہا گیا۔
پھر ایک روز خبر ملی کہ ادب کی موت ہوگئی۔ اِس کے بعد معلوم ہوا کہ ہمارے فکشن سے کہانی گم ہوگئی۔ اسی طرح ایک دن یہ اطلاع آئی کہ ادب پر زوال آگیا ہے۔ اب کہا جارہا ہے کہ زمانہ خراب ہے، اب کسی کو ادب سے کوئی سروکار نہیں رہا۔ کتاب بھلا دی گئی اشیا میں ہے اور لکھا ہوا حرف ہاری ہوئی بازی ہے۔
بات سچ ہے کہ آپ مارتے ہوئے کا ہاتھ پکڑ سکتے ہیں، لیکن کہتے ہوئے کی زبان نہیں۔ یوں بھی ہمارے یہاں تو اب بے سروپا باتیں دانش ورانہ لہجے اور مدبرانہ ّتیقن کے ساتھ کیے جانے کا چلن ہے۔ ایسے میں تو آپ کو کہیں بھی اور کچھ بھی سننے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ویسے کیا قباحت ہے جو ذرا اس رائے پر غور کرلیا جائے کہ واقعی کہیں ادب کے لیے زمانہ خراب تو نہیں ہے۔
کسی تہذیب اور کسی دور کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے، آپ کو زمانے کی شکایت ضرور ملے گی۔ گویا حالات کی خرابی کی ایک ایسی طویل داستان ہے جو عہد در عہد چلی جاتی ہے۔ پانے والوں نے ہر زمانے میں اس کا سراغ پایا ہے۔
حالات کی خرابی نے ادب پر اب تک کیا اور کیسے اثرات مرتب کیے ہیں۔ اہلِ دانش کہتے ہیں، خراب حالات کا دباؤ انسانوں اور تہذیبوں کی خفتہ صلاحیتوں کو بیدار کرتا ہے اور یہ صلاحیتیں جہدِ بقا کا راستہ دکھاتی ہیں۔ تحلیلِ نفسی کے ماہرین کی رائے ہے کہ پریشانی، دباؤ اور خرابی کے وقت میں دفاعی نظام یا قوتِ مدافعت بہ روے کار آتی ہے۔ یہ بیان محض خیال نہیں، اِس کی عملی تصدیق ممکن ہے۔ میرؔ صاحب نے زمانے کے اسی چلن کو دیکھتے ہوئے کہا تھا:
میرؔ صاحب زمانہ نازک ہے
دونوں ہاتھوں سے تھامیے دستار
واقعی زمانہ نازک تھا۔ ہندوستان کی ابتری کے دن تھے، راویانِ روایت نے خود میرؔ کی مرہٹوں کی جنگ میں شمولیت کا لکھا ہے۔ زمانے کا حال تو یہ تھا، لیکن ذرا دیکھیے کہ انھی روز و شب میں کیا کیا شعر کہے ہیں میرؔ نے۔ زندۂ جاوید ہوگئے۔ خداے سخن کہلائے۔ اچھا تو دیکھیے، غالبؔ کا زمانہ کیسا رہا۔ غضب ناک تھا۔ اس کا پورا نقشہ ’’یادگارِ غالب‘‘ میں حالی نے کھینچا ہے اور خود بھی غالبؔ کے اپنے خطوں میں جیتی جاگتی تصویریں محفوظ ہوگئی ہیں۔ ان تصویروں میں خرابیِ حالات کا کیسا کیسا نقش ابھرا ہے، پڑھیے اور دل تھام تھام لیجیے۔
انھی حالاتِ زمانہ کا تسلسل ہی تو ہے جو اقبال تک پہنچا ہے۔ اسی خراب زمانے میں اقبال کی شاعری دیکھیے، کیا جواہر پارے دل و دیدہ کو روشن کرتے ہیں۔ اس کے بعد پریم چند، منٹو اور بیدی کے افسانوں سے لے کر انتظار حسین اور قرۃ العین حیدر کے ناولوں تک حالات کے دھارے اور ان ادیبوں کے فکری و فنی اظہار کو دیکھتے جائیے۔ صاف نظر آتا ہے کہ حالات کے دباؤ نے، ذہنی اور اعصابی تناؤ نے تخلیق کار فن کار کو مضمحل یا معطل کرکے ایک طرف نہیں ڈالا، بلکہ اس کی قوتِ اظہار اور نفسِ ناطقہ کو متحرک کیا ہے۔
یہ نقشہ صرف ہمارے یہاں نہیں ہے، آپ چوسر اور شیکسپیئر سے ورلین، بودلیئر، راںبو، جون ڈن، ایذرا پاؤنڈ اور ٹی ایس ایلیٹ تک، ادھر فکشن میں ٹولسٹوئے، دستوئیفسکی، وکٹر ہیوگو، چیخوف، موپاساں، فلوبیئر، گنترگراس اور لارنس سے لے کر کامیو، مارکیز، میلان کنڈیرا، نجیب محفوظ، سولزے نٹسن، ناڈین گورڈیمر تک مختلف زمانوں اور زمینوں کے تخلیق کاروں کو اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ ایک سرسری نگاہ بھی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ فن کاروں، تخلیق کاروں، ادیبوں اور شاعروں نے ہمیشہ زیادہ بڑا اور زندہ رہنے والا کام ایسے ہی خراب حالات میں ہی کیا ہے۔
اِس کی بنیادی وجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ بڑھتی ہوئی تاریکی میں ادیب و شاعر کا تخلیقی شعور زیادہ قوت کے ساتھ بہ روے کار آتا ہے اور اپنی روح کی پاس داری اور انسانیت کی نگہ داری کے لیے وہ روشنی کا سامان کرتا ہے۔ حالات کے بڑھتے ہوئے دباؤ اور مایوسی کے پھیلتے ہوئے سایے میں وہ امید، حوصلے اور اثبات کا کلمہ کہتا ہے۔ فنا کے قدموں کی چاپ سن کر وہ ڈرتا نہیں، غافل نہیں ہوتا، بلکہ بقا کے محاذ پر آتا اور زندگی کی جنگ میں حصہ لیتا ہے۔
حالات کی خرابی ادیب اور شاعر کے لیے مہمیز کا کام کرتی ہے۔ اس کے جذبے کو محکم بناتی ہے۔ اس کی نظر میں گہرائی اور شعور میں وسعت پیدا کرتی ہے۔ تب وہ وقت کی قید سے آزاد ہونا سیکھتا ہے۔ اسے وہ اسمِ اعظم حاصل ہوجاتا ہے جو اُسے اپنے وجود سے اٹھا کر ہمہ گیر اور غیر مشروط انسانیت کے سانچے میں ڈھال دیتا ہے۔
کسی عہد اور تہذیب کے سارے ادیب و شاعر ایک ہی درجے کے نہیں ہوتے، ہو بھی نہیں سکتے، لیکن اپنے اپنے شعور کی سطح پر سب ایک کردار ضرور ادا کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اور اس دور میں بھی ایسا ہو رہا ہے۔ ہمارا ادب آج بھی انسانی قدروں کی بقا اور فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ اس لیے حالات کیسے بھی سہی، ہمیں مایوس ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی