• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمّد احمد غزالی

18 برس عُمر ہوگئی تھی۔ یتیم نوجوان اپنی والدہ کے ساتھ نانا کے گھر مقیم تھا، جو تقویٰ و پرہیز گاری اور علم و معرفت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔نوجوان نے اُنہی کے زیرِسایہ تعلیم و تربیت حاصل کی اور اب دل مزید تعلیم کے لیے بے چین تھا۔ ایک روز والدہ سے کہا، ’’امّاں جان! مجھے اللہ کے کام میں لگادیجیے۔ دِل کرتا ہے کہ بغداد جاکر علم میں مشغول ہوجاؤں اور صالحین کی زیارت کروں۔‘‘ یہ سُن کر بیوہ ماں رونے لگیں، مگر دین کی محبّت رگ رگ میں رَچی بسی تھی، اِس لیے بیٹے کو بغداد جانے کی اجازت دے دی۔ شوہر کے چھوڑے ہوئے80 دینار میں سے40 دینار اُن کی قمیص(گدڑی) میں بغل کے نیچے سی دئیے تاکہ محفوظ رہیں اور باقی40 دینار دوسرے بیٹے کے لیے رکھ لیے۔

جب تیاریاں مکمل ہوگئیں تو ماں، بیٹے کو باہر تک چھوڑنے آئیں اور بھیگی آنکھوں سے کہا، ’’دیکھو بیٹے! تمہاری جُدائی اللہ کے راستے میں قبول کرتی ہوں۔ اب شاید قیامت تک تمہیں نہ دیکھ سکوں، مگر سُنو! ہر حال میں سچ بولنا۔‘‘نوجوان ایک قافلے میں شامل ہوکر بغداد کی جانب چل پڑا۔ قافلہ ایک جنگل میں پہنچا، تو اُس پر ڈاکوؤں نے ہلّا بول دیا۔ ایک ڈاکو، نوجوان کے پاس آیا اور پھٹے پرانے کپڑے دیکھ کر بولا،’’اے فقیر!ترے پاس کیا ہے؟‘‘نوجوان نے جواب دیا،’’ میرے پاس چالیس دینار ہیں۔‘‘ تو اُس کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ بولا،’’ اچھا تو بتاؤ دینار کہاں ہیں؟‘‘نوجوان نے کہا،’’میری گدڑی میں بغل کے نیچے ہیں۔‘‘ 

اِس پر ڈاکو ہنس کر آگے بڑھ گیا۔کچھ دیر بعد ایک اور ڈاکو کا اُس طرف گزر ہوا، تو اُس سے بھی ایسے ہی سوال و جواب ہوئے، جس پر وہ نوجوان کو اپنے سردار کے پاس لے گیا اور سارا ماجرا کہہ سُنایا۔سردار نے دیکھا ،تو واقعی گدڑی میں دینار موجود تھے۔اُس نے پوچھا،’’ جب اِن دیناروں کا کسی کو علم نہیں تھا اور تم اِنھیں باآسانی چُھپا بھی سکتے تھے،تو پھر ہمیں کیوں بتایا؟‘‘ نوجوان نے جواب دیا،’’ میری ماں نے مجھ سے سچ بولنے کا عہد لیا تھا، تو مَیں جھوٹ کیسے بول سکتا تھا؟‘‘ یہ سُن کر ڈاکوؤں کا سردار رونے لگا اور بولا،‘‘تم اپنی ماں کے ساتھ عہد کے اِتنے پابند ہو اور ایک مَیں ہوں، جو اللہ کے ساتھ بھی عہد کا پابند نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے اپنے پورے گروہ سمیت توبہ کرلی اور قافلے والوں کا مال واپس کردیا۔ یہ نوجوان، شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔

خاندان،ابتدائی حالات

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ یکم رمضان المبارک 470 ہجری میں پیدا ہوئے۔ تاہم، جائے ولادت سے متعلق مختلف روایات ہیں۔شیخ عبد الحق محدّث دہلویؒ اور مولانا عبدالرحمٰن جامیؒ کے مطابق آپؒ ’’جیلان‘‘ میں پیدا ہوئے، اِسی لیے آپؒ کو جیلانی یا تلفّظ کے فرق کے ساتھ گیلانی کہا جاتا ہے۔بعض نے علاقے کا نام’’ جیل‘‘ تحریر کیا ہے۔ اب یہ جیلان یا جیل کہاں ہے؟ اِس پر اہلِ علم تقسیم ہیں۔ دارالشکوہ نے’’ سفینۃ الاولیاء‘‘ میں لکھا ہے کہ’’ آپؒ کی ولادت’’ جیل‘‘ میں ہوئی، جو طبرستان کے عقب میں ایک مُلک کا نام ہے، جسے جیلان، گیلان اور گیل بھی کہتے ہیں۔‘‘

بعض مؤرخین کے مطابق، جیل دریائے دجلہ کے کنارے ایک علاقے کا نام ہے، تو کئی ایک نے اسے مدائن میں بتایا ہے، جسے آج کل ’’ کُردستان ‘‘ کہا جاتا ہے۔تاہم، بیش تر مؤرخین کا اتفاق ہے کہ آپؒ کی ولادت بحیرۂ قزوین( بحیرۂ کیپسین) کے ساتھ واقع ایرانی صوبے، گیلان کے گاؤں، نیف میں ہوئی۔اِسی لیے آپؒ کو فارسی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔ والد کا نام، ابو صالح موسیٰ تھا، جو فوجی ہونے کی وجہ سے’’جنگی دوست‘‘ کے نام سے معروف تھے، جب کہ والدہ کا نام، اُمّ الخیر تھا۔آپؒ کا نسب والد کی طرف سے حضرت حسنؓ اور والدہ کی جانب سے حضرت حسینؓ سے ملتا ہے۔آپؒ کے عبداللہ نام کے ایک بھائی بھی تھے، جو عُمر میں آپؒ سے چھوٹے تھے، تاہم جوانی ہی میں انتقال کرگئے تھے۔

مشکلات بَھرا علمی سفر

حضرت عبدالقادر جیلانیؒ ابتدائی تعلیم کے بعد 400 میل کا سفر طے کرکے بغداد پہنچے اور’’مدرسہ نظامیہ‘‘ میں داخل ہوگئے، جہاں کئی برس تک نام وَر اساتذہ سے اپنی علمی پیاس بُجھاتے رہے۔ اِس دَوران آپؒ نے بہت تکالیف برداشت کیں، جنھیں پڑھ کر دل کٹ سا جاتا ہے۔ آپؒ فرمایا کرتے تھے،’’ مَیں نے ایسی ہول ناک سختیاں برداشت کیں کہ اگر وہ پہاڑ پر گزرتیں، تو وہ بھی پھٹ جاتا۔‘‘ایک پردیس، اوپر سے جیب خالی اور پھر خود داری کے پیکر، ایسے میں کئی کئی روز تک بھوکا رہنا معمول بن گیا تھا۔ آپؒ نے ایک بار کا واقعہ یوں بیان فرمایا،’’مجھ پر ایسا سخت وقت بھی گزرا کہ کئی دنوں تک کھانے کو کچھ نہ ملا۔

آخر بھوک سے تنگ آکر دریا کے کنارے گیا تاکہ وہاں گری پڑی چیزوں ہی سے پیٹ بَھر لوں، لیکن وہاں مجھ سے بھی پہلے کچھ لوگ ایسی چیزیں تلاش کر رہے تھے۔یہ دیکھ کر مَیں واپس آ گیا تاکہ اُنھیں فائدہ ہوجائے۔بھوک سے نڈھال حالت میں شہر کی ایک مسجد میں جاکر لیٹ گیا کہ کسی سے سوال کرنا بھی میرے لیے ممکن نہیں تھا۔کچھ دیر بعد دیکھا کہ ایک نوجوان روٹی اور بُھنا گوشت لے کر مسجد میں داخل ہوا اور ایک طرف بیٹھ کر کھانا کھانے لگا۔ اُسے دیکھ کر میری بھوک مزید بڑھ گئی۔تھوڑی دیر بعد نوجوان نے میری طرف دیکھا اور کہا، ’’آئیے! بسم اللہ کیجیے‘‘، لیکن مَیں نے انکار کر دیا۔ جب اُس نے بہت اصرار کیا، تو مجبوراً کھانے میں شریک ہو گیا۔ 

جب اُس کے بارے میں معلوم کیا، تو اُس نے بتایا، ’’مَیں جیلان کا رہنے والا ہوں اور عبدالقادر نامی نوجوان کی تلاش میں آیا ہوں۔‘‘یہ سُن کر مَیں نے اُسے بتایا،’’ مَیں ہی عبد القادر ہوں‘‘، تو اُس کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑگیا۔ اُس نے کہا،’’ آپؒ کی والدہ نے میرے ذریعے آپ ؒکے لیے آٹھ دینار بھجوائے تھے۔اللہ کی قسم! جب کسی طرح آپ ؒکا پتا معلوم نہ ہو سکا اور میرے پاس کھانا خریدنے کو سوائے اُس رقم کے، جو آپ کے لیے میرے پاس تھی، کچھ باقی نہ رہا، تو مَیں نے آپ کی رقم میں سے یہ روٹی سالن خرید لیا۔ لہٰذا، یہ آپ ہی کا مال ہے۔خُوب اچھی طرح کھائیے اور مجھے اپنا مہمان سمجھیے۔‘‘

تدریسی زندگی کا آغاز

آپ نے تعلیمی سفر کی تکمیل کے بعد مدرسہ نظامیہ ہی میں تدریس کا آغاز کردیا۔ شیخ عبدالحق محدّث دہلویؒ کے مطابق آپؒ 33 برس تک مدرسہ نظامیہ میں پڑھتے، پڑھاتے رہے۔ بعدازاں، اپنے استاد، قاضی ابو سعیدؒ کے قائم کردہ مدرسے’’ مدرسہ باب الازج ‘‘ سے وابستہ ہوگئے۔آپؒ کے اِخلاص اور علمی رسوخ کے سبب دُور دُور سے طلبہ نے وہاں کا رُخ کرنا شروع کردیا اور جلد ہی اُس کا نام’’مدرسہ قادریہ‘‘مشہور ہو گیا۔آپؒ کے تدریسی مشاغل سے متعلق مولانا ابو الحسن علی ندویؒ نے لکھا ہے،’’اعلیٰ مراتبِ ولایت پر فائز ہونے اور نفوس کی اصلاح و تربیت میں ہمہ تن مشغول رہنے کے ساتھ مدرسے میں ایک سبق تفسیر کا، ایک حدیث کا، ایک فقہ کا اور ایک اختلافاتِ آئمہ اور اُن کے دلائل کا پڑھاتے تھے۔ 

صبح وشام تفسیر، فقہ، مذاہب ائمہ، اصولِ فقہ اور نحو کے اسباق ہوتے، ظہر کے بعد تجوید کی تعلیم ہوتی۔‘‘آپ علمی وسعت، رسوخ اور دینی سمجھ بوجھ میں اپنی مثال آپ تھے۔آپؒ حنبلی فقہ کے پیروکار تھے اور عموماً اُسی کے مطابق فتویٰ دیا کرتے۔ آپؒ کی فقہی ذہانت سے متعلق کئی واقعات مشہور ہیں۔ ایک مرتبہ علمائے کرام کے پاس ایک ایسا سوال آیا، جس نے سب کو چکرا دیا۔ سوال یہ تھا کہ ’’ ایک شخص نے قسم کھائی ہے کہ وہ کوئی ایسی عبادت کرے گا، جس میں اُس کی عبادت کے وقت کوئی دوسرا شریک نہ ہو۔ اور اگر اُس نے قسم پوری نہیں کی، تو اُس کی بیوی کو تین طلاق۔‘‘ علماء حیران تھے کہ اُسے ایسی کون سی عبادت بتائی جائے، جسے اُس وقت روئے زمین پر کوئی دوسرا شخص نہ کر رہا ہو۔جب یہ سوال آپؒ کے پاس آیا، تو آپؒ نے فرمایا،’’ اُس شخص کے لیے’’ مطاف‘‘ خالی کروا دیا جائے اور وہ تنہا خانہ کعبہ کا طواف کرلے۔‘‘

راہِ سلوک میں قدم

آپؒ نے دینی علوم کی تکمیل کے بعد ہی راہِ سلوک میں قدم رکھا۔اِس ضمن میں آپؒ کا ارشاد ہے،’’مخلوق سے کنارہ کشی(یعنی راہِ سلوک) سے قبل علمِ فقہ حاصل کرو، کیوں کہ جو شخص علم کے بغیر عبادت کرتا ہے، وہ اصلاح سے زیادہ فساد میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ‘‘ آپؒ نے طریقت کی تعلیم شیخ ابو الخیر حماد بن مسلم الدباسؒ سے حاصل کی،جب کہ خرقۂ خلافت حضرت قاضی ابو سعید ؒ سے پہنا۔ آپؒ کے روحانی کمالات کے سبب یہ سلسلہ بعدازاں آپ ہی کی ذاتِ بابرکات سے منسوب ہو گیا اور سلسلۂ قادریہ کہلایا۔

پُروقار، مہربان شخصیت

آپؒ کا قد درمیانہ، رنگ گندمی، سینہ کشادہ، بھنویں مِلی ہوئیں، ناک اونچی، بَھری بَھری داڑھی اور آواز بلند تھی۔ہدیہ بہت مشکل سے قبول فرماتے اور جب کوئی چیز لے لیتے، تو سب یا اُس کا کچھ حصّہ حاضرینِ مجلس میں تقسیم فر ما دیتے۔ اپنی معاشی ضروریات کاروبار اور کاشت کاری سے پوری کرتے۔ علماء کے شایانِ شان لباس پہنا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کا لباس حکم رانوں سے بھی زیادہ نفیس اور قیمتی ہوتا تھا۔اپنے بیوی بچّوں کا بھی بے حد خیال رکھتے اور دوسروں کو بھی ان کے حقوق پورے کرنے کی ہدایت فرماتے۔کبھی حکم رانوں کے دروازوں پر نہیں جاتے تھے، البتہ حکم ران آپؒ کے پاس حاضر ہونے میں فخر محسوس کرتے۔ شیخ معمر کہتے ہیں، ’’میری آنکھوں نے شیخ عبد القادر جیلانیؒ کے سِوا کسی کو اِتنا خوش اخلاق، وسیع القلب، کریم النّفس، مہربان، وعدے اور دوستی نبھانے والا نہیں دیکھا۔

چھوٹوں کو شفقت سے اپنے پاس بِٹھاتے، بزرگوں کا احترام کرتے، سلام میں پہل کرتے، لوگوں کے ساتھ حلم اور تواضع سے پیش آتے۔‘‘ شیخ الاسلام، شہاب الدّین حجر کے مطابق، ’’آپؒ فقیہ و زاہد اور عابد و واعظ تھے۔ لوگوں کو زُہد اختیار کرنے اور توبہ کرنے کا درس دیتے تھے۔‘‘ابنِ قدامہ کہتے ہیں،’’جب مَیں بغداد میں داخل ہوا، تو شیخ عبدالقادر جیلانیؒ علم و فضل، حال و قال کی انتہائی منزل پر تھے۔ کسی طالب علم کو دوسرے علماء کے پاس جانے کی ضرورت نہ ہوتی تھی۔

آپؒ کا طرزِ عمل طلبہ کے ساتھ بہت اچھا تھا۔ صبر و تحمّل اور وسیع النّظری سے کام لیتے۔مَیں نے کسی شخص کی آپؒ سے بڑھ کر دین کی وجہ سے تعظیم ہوتے نہیں دیکھی۔ بادشاہ اور وزراء بھی آپؒ کی مجالس میں انتہائی عقیدت کے ساتھ حاضر ہوتے اور عام لوگوں کی طرح ادب سے بیٹھ جاتے۔‘‘ علّامہ ابنِ تیمیہ، حافظ ابن کثیرؒ، امام یافعی، امام ذہبی وغیرہ نے بھی آپؒ کا انتہائی عزّت و احترام سے ذکر کیا ہے۔ 

جمعے کو جامع مسجد کے لیے جاتے، تو لوگ زیارت کے لیے راستے میں قطاریں بنا کر کھڑے ہو جاتے اور آپ کو دیکھ کر دُعائیں مانگتے۔ آپؒ کو ضرورت مندوں اور محتاجوں کو کھانا کِھلانے کا بہت شوق تھا۔ آپؒ کے ہاں رات کو وسیع دستر خوان بچھائے جاتے اور آپؒ دیگر افراد کے ساتھ بیٹھ کر کھانا تناول فرماتے۔اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو بہت بلند مقام سے نوازا تھا، مگر اس کے باوجود انتہائی عاجزی و انکساری سے رہتے۔ شیخ سعدی نے لکھا ہے،’’لوگوں نے عبد القادر جیلانیؒ کو بیت اللہ میں دیکھا کہ کنکریوں پر چہرہ رکھے عرض کر رہے تھے، ’’ اے میرے مالک! مجھے بخش دے اور اگر مَیں سزا کا مستحق ہوں، تو قیامت میں مجھے نابینا اُٹھانا تاکہ نیک لوگوں کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔‘‘

مجلسِ وعظ

آپ ہفتے میں تین مرتبہ جمعہ، منگل کی شب اور اتوار کی صبح مجلس سے خطاب فرمایا کرتے تھے۔امام ابن حجر عسقلانی کے مطابق ان مجالس میں70 ہزار کے قریب افراد شریک ہوتے۔ سامعین میں عام افراد کے ساتھ علماء، مشایخ اور اعلیٰ حکومتی عہدے دار بھی شریک ہوتے۔ چوں کہ اُس زمانے میں لاؤڈ اسپیکر تو ہوتے نہیں تھے، اِس لیے لوگوں تک آپؒ کی بات پہنچانے کے لیے درجنوں افراد موجود رہتے۔

نیز، آپؒ کے اِرشادات لکھنے کے لیے چار سو تجربہ کار خوش نویس بھی مجلس میں ہوتے اور اُن کے تحریر کردہ ملفوظات آج بھی ہماری رہنمائی کے لیے دست یاب ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسی مجلس ہو، جس میں یہودیوں اور عیسائیوں نے اسلام قبول نہ کیا ہو۔ہر طرف آہ و بکا کے مناظر ہوتے، لوگ آپؒ کے ارشادات سُن کر اپنے گناہوں سے توبہ کرتے۔

حق گوئی و بے باکی

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ جرأت و بے باکی کا بے مثال نمونہ تھے اور لگی لپٹی رکھے بغیر پوری قوّت سے اپنی بات کرتے۔ آپؒ فرماتے تھے،’’مَیں تم سے حق بات کہہ رہا ہوں۔ تم سے ڈرتا ہوں اور نہ اُمید رکھتا ہوں۔ تم اور ساری زمین کے لوگ میرے نزدیک مچھر اور چیونٹی جیسے کم زور ہیں، کیوں کہ مَیں نفع اور نقصان سب حق تعالیٰ ہی کی طرف سے سمجھتا ہوں۔‘‘ ایک بار خلیفہ نے ایک ظالم شخص کو گورنر مقرّر کیا، تو آپؒ منبر سے یوں مخاطب ہوئے،’’ آج تُو نے جس ظالم کو مسلمانوں کے امور کا ذمّے دار مقرّر کیا ہے، کل قیامت کے دن اس کے بارے میں کیا جواب دے گا؟‘‘ 

خلیفہ نے یہ بات سُن کر تقرّری کا فیصلہ واپس لے لیا۔جاہل اور نام نہاد صوفیاء سے متعلق فرمایا،’’ اے منافق! یہ مرتبہ تمہیں اپنے نفاق اور ریاکاری سے کب ہاتھ آسکتا ہے۔ تم تو لوگوں میں اپنی مقبولیت دیکھنا چاہتے ہو۔اپنے ہاتھوں کو چومتے چامتے دیکھنا چاہتے ہو۔تم ریاکار ہو، جھوٹے ہو، لوگوں کا مال اُڑانے والے ہو۔ تم پر لازم ہے کہ علم پر عمل کرنے والے شیوخ کی صحبت اختیار کرو۔ تم میں سے بہت سے حرص اور لالچ کا شکار ہیں۔‘‘

وصال

آپؒ561 ہجری میں مختصر علالت کے بعد90 برس کی عُمر میں’’ اللہ اللہ‘‘ کی تکرار کرتے ہوئے اپنے ربّ کے حضور حاضر ہوگئے۔ تاریخ کے بارے میں اختلاف ہے۔ مؤرخین نے 8، 10 اور11 ربیع الثّانی کا ذکر کیا ہے۔صاحب زادے، عبدالوہاب نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور بغداد میں تدفین عمل میں آئی۔آپؒ کی بہت سی تصانیف ہیں، جن میں غنیۃ الطالبین، الفتح الربّانی اور فتوح الغیب زیادہ معروف ہیں۔اِن کے اردو تراجم بھی دست یاب ہیں۔

علمی، روحانی، معاشرتی خدمات

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ صوفیائے کرام میں ایک ایسے منفرد مقام پر فائز ہیں کہ صوفیا کے حلقوں میں سب سے زیادہ آپ ؒہی کا ذکر ہوتا ہے، مگر آپؒ کے تذکرے میں کرامات کا حصّہ غالب رہتا ہے، جس کے سبب آپؒ کی علمی اور انقلابی خدمات پس منظر میں چلی جاتی ہیں اور شخصیت پوری طرح سامنے نہیں آ پاتی۔شاید اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے، جیسا کہ شیخ عز الدّین عبد السّلامؒ اور علّامہ ابنِ تیمیہ نے لکھا ہے کہ’’ جتنی کرامات آپؒ کی مشہور ہوئیں، کسی اور کی اِتنی تواتر سے مشہور نہیں ہوئیں۔‘‘

تاہم، آپؒ کی سب سے بڑی کرامت مُردہ دِلوں کو زندہ کرنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپؒ کے قلب کی توجّہ اور زبان کی تاثیر سے لاکھوں انسانوں کو نئی ایمانی زندگی عطا فرمائی۔ آپؒ کا وجود اسلام کے لیے ایک بادِ بہاری تھا، جس نے دِلوں کے قبرستانوں میں نئی جان ڈال دی اور عالمِ اسلام میں ایمان و روحانیت کی ایک نئی لہر پیدا کردی تھی( تاریخِ دعوت وعزیمت)۔

آپ ایک ایسے وقت مدرسے کی مسند، صوفیا کے سجّادے اور مسجد کے منبر پر رونق افروز ہوئے، جب ایک طرف مسلمانوں کے عقائد کو نشانہ بنایا جا رہا تھا، تو دوسری طرف مسلمان سیاسی ابتری کا شکار تھے اور مسلم معاشرہ اپنی اعلیٰ اخلاقی صفات سے محروم ہوتا جا رہا تھا۔ ایسے میں آپؒ ایک انقلابی رہنما کے طور پر سامنے آئے اور ریاستی، معاشرتی، سیاسی، مذہبی معاملات میں اصلاح کے ایسے کارنامے انجام دیے کہ مؤرخین آپؒ کو ’’ محی الدّین‘‘ یعنی’’ دین کو زندہ کرنے والے‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

تازہ ترین