• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر میں میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون تصور کیا جاتا ہے کیونکہ یہ باقی تین ستونوں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کی طرح ریاست کو صحیح رُخ پر چلانے میں ممدو معاون ثابت ہوتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور اُن کے وزراء بھی میڈیا کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں کیونکہ وہ خود مسندِ اقتدار پر براجمان ہونے سے پہلے میڈیا کی آزادی سے مستفید ہو چکے ہیں لیکن اِن دِنوں حکومت بالخصوص وزیر اطلاعات فواد چوہدری پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کے بل کیلئے حمایت حاصل کرنے کے مشن پر گامزن ہیں لیکن صحافتی حلقوں میں اِس حوالے سے بےشمار تحفظات پائے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کا ہر صحافی، صحافتی ادارہ اور ہر معتبر میڈیا تنظیم اِس کالے قانون کو ماننے سے انکاری ہے، اِس لئے سب ایک ایسے قانون کے خلاف متحد ہیں جو ملک میں میڈیا کی آزادی کیلئے خطرناک، آمرانہ اور رجعت پسندانہ سوچ کا حامل ہے۔ آمرانہ ادوار میں بھی پاکستان کے صحافتی اداروں کو ایسی پابندیوں کا سامنا نہیں رہا۔ یہ قانون بنیادی طور پر صحافیوں کی زبان بندی کرنے، اختلافی آوازوں کو دبانے اور آزادیٔ اظہار کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِس اتھارٹی کے قیام سے متعلق متنازع قانون کے خلاف پیر کے روز پارلیمنٹ کے سامنے صحافیوں نے دھرنا دیا۔ اِس دوران اپوزیشن رہنما بھی صحافتی تنظیموں کے ہم آواز رہے۔ اِس قانون سے متعلق تحفظات کی بنیادی وجہ PMDAکا اصل مسودہ ہے جو سرکاری طور پر کسی فریق کو نہیں دیا گیا لیکن کہا یہ جا رہا ہے کہ اِس قانون میں میڈیا ٹریبونل کی تشکیل کے حوالے سے شامل ایک شق کے تحت تین سال تک قید اور جرمانے کی سزا دینے کا اختیار ہوگا جسے کسی عدالت میں چیلنج بھی نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اِس کالے قانون کو واپس لے جس سے صحافتی آزادیاں سلب ہونے کا خدشہ موجود ہے۔

تازہ ترین