• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان نے بدھ کے روز امریکی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے جہاں افغانستان کے زمینی حقائق، بعض غلط فہمیوں اور غلطیوں پر روشنی ڈالی وہاں مستقبل کے حوالے سے خدشات و امکانات کی نشاندہی بھی کی۔ گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ دنیا طالبان کو مہلت دے۔ افغانستان کی صورت حال پریشان کن ہے، یہ ملک تاریخی موڑ پر ہے، اگر نئے حکمراں پورے افغانستان پر کنٹرول کے بعد تمام دھڑوں کو ملانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو چالیس سال سے جنگ زدہ ملک میں امن قائم ہوسکتا ہے تاہم اگر یہ عمل ناکامی سے دوچار ہوتا ہے تو اس سے افراتفری، معاشی و انسانی بحران، مہاجرین کا مسئلہ اور عدم استحکام جنم لینے کے سنگین خدشات ہیں۔ مذکورہ انٹرویو ایسے منظر نامے میں لیا گیا کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان کسی مزاحمت کے بغیر پورے ملک کا کنٹرول سنبھال چکے ہیں۔ پنج شیر پر بھی کسی مزاحمت کے بغیر قبضہ ہوچکا ہے اور عبوری انتظامیہ تشکیل دی جاچکی ہے مگر ایک طرف عالمی برادری کے بعض مطالبات ہیں تو دوسری جانب نئی حکومت کو ملازمین کی تنخواہوں، خوراک کی ضرورتوں، معیشت کی تباہ حال صورت حال، ڈھانچہ جاتی خلائوں یا کمزوریوں سمیت متعدد مسائل اور چیلنجوں کا سامنا ہے۔ طرّہ یہ کہ افغانستان کے 10ارب ڈالر امریکی بینکوں میں منجمد ہیں ۔اس باب میں افغانستان کے 6پڑوسی ملکوں کے علاوہ کئی دیگر ممالک کے ورچول اجلاس پچھلے ہفتے منعقد ہوچکے ہیں۔ صدر جوبائیڈن کا ایک اعلان بھی 31دسمبر کو سامنے آچکا ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ یہ ضرورت بڑھ رہی ہے کہ افغانستان کو مالی، تیکنیکی اور انتظامی امور میں فوری طور پر امداد فراہم کی جائے۔ اس باب میں چین، قطر، پاکستان اور دیگر ممالک کی طرف سے عملی کاوشیں سامنے آتی بھی رہی ہیں۔بدھ کے روز یورپی یونین کی طرف سے 10کروڑ یورو کی اضافی امداد کا اعلان بھی سامنے آیا ہے جبکہ امریکہ کا کہنا ہے کہ طالبان پر اقتصادی پابندیاں نہیں ہٹائی جائیں گی، البتہ رواں برس شہریوں کو 33کروڑ ڈالر مالی امداد طالبان کے ذریعے نہیں بلکہ براہ راست پہنچائی جائے گی۔ افغانستان کے اندر کی صورتحال کو بعض واقعات کے باوجود پرامن کہا جاسکتا ہے مگر یکسر تسلی بخش قرار دینا درست نہ ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ افغانستان پریشان صورتحال، انسانی بحران کےخدشات اور دہشت گردی کے امکانات کی زد میں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان کو باہر سے کنٹرول کرنے کی بجائے مدد اور مہلت دی جانی چاہئے۔ افغان خواتین طاقتور ہیں، انہیں اپنی صلاحیت کے مطابق کام کرنے کی آزادی اور وقت دیا جانا چاہئے۔ عمران خان نے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے اس بیان کو حقائق سے عدم واقفیت کا شاخسانہ قرار دیا جس میں دہشت گردی کے خلاف اسلام آباد کی معاونت کے دوران حقانی نیٹ ورک کوپناہ دینے کا الزام عائد کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ شروع میں (سوویت مداخلت کے وقت) پاکستان نے50لاکھ مہاجرین کو پناہ دی جن میں پشتون قبیلے ’’حقانی‘‘ کے لوگ بھی شامل تھے۔ ان میں کئی لوگ مہاجرین کیمپوں میں پیدا ہوئے۔ پاکستانی وزیراعظم کواس وضاحت کی ضرورت نہ پڑتی اگر دوست ملک امریکہ پاکستانیوں کے اخلاص کو سمجھتا اور حقائق جاننے کی کوشش کرتا۔عمران خان کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے وقت وہ وزیراعظم ہوتے توافغانستان پر حملے کی اجازت نہ دیتے۔ حقیقت یہی ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ کا اتحادی بننے کے بعد پاکستان کو اپنی اہم رہنما بینظیر بھٹو کی شہادت سمیت جن نقصانات کا سامنا کرناپڑا ان کی مثال کوئی ملک نہیں دے سکتا۔ دوست کہلانے ملکوں کوزیب نہیں دیتا کہ پاکستان کے اس مخلصانہ کردار کو الزامات کے تیروں سے چھلنی کریں۔

تازہ ترین