• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں ویسے تو میانوالی کا ہوں مگر میں کچھ باغبان پورہ ہائی اسکول میں بھی پڑھتا رہا ہوں ۔یعنی ایک سطح پر’’لاہوریا ‘‘ بھی ہوں ۔آوارہ گرد بچپن سے تھا ، سو لاہور کی ایک ایک گلی سے واقف ہوں ۔یہاں تک جانتا ہوں کہ بارش کے بعدکونسی سٹرک پر کہاں پانی کھڑا ہوتا ہے اور کہاں نہیں ہوتا ۔مثال کے طور پر لکشمی چوک مون سون میں تالاب کی شکل اختیار کرلیتا تھا ۔وہاں سے پانی اترتا ہی نہیں تھا اور میرےجیسے خوش خوراک کڑاہی کھانے سے پورا پورا ہفتہ محروم رہتے تھے ۔ حالانکہ اس زمانے میں مشہور تھاکہ لکشمی چوک سے اہل اقتدار کے گھروں میں کڑاہیاں جانا ایک معمول ہے مگر تعجب ہے پھر بھی لکشمی چوک والے دکانداروں اور یہاں سے گزرنے والے نوکری پیشہ یا کاروباری افراد کی داد رسی نہیں ہوئی تھی ۔ لاہور اشتہاروں میں پیرس بنتا رہا ۔ بات صرف لکشمی چوک کی نہیں ہے، یہاں پر رائل پارک جو پرنٹنگ کا گڑھ ہے، سب مفلوج ہوکر رہ جاتا تھا۔ یہ توصرف ایک روڈ کی بات ہے، ہر تالاب بننے والی سڑک کا نام لکھوں تو پھر کالم میںکچھ اور نہیں لکھا جا سکے گا۔

یہ بات صرف ’’نکاسی آب‘‘ کی نہیں ، اس پیمانے کی ہے جس میں بارش کے ساتھ حکومتی پرفارمنس کو بھی ماپا جاسکتا ہے۔ اس سے سادہ اور کیا پیمانہ ہوگا کہ گزشتہ حکومت لاہور کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کے نکاسی آب کا مسئلہ دس سال تک حل نہ کرسکی ۔میرا خیال ہے اگر کرنے کی نیت ہوتی تو یہ کوئی اتنا انوکھا کام نہ تھا۔ عثمان بزدارنے حکومت سنبھالتے ہی اس پر توجہ دی اور آج دیکھیں کہ لاہور میں اگر پانی جمع ہو بھی جائے تو فوری نکاسی کے ذریعے ڈرین ہوجاتاہے۔ لاہور کے 22مین پوائنٹس ایسے ہیں جہاں پونڈنگ کی شکایت ہوتی ہے۔ حالیہ بارش کی رپورٹ ہی اٹھالیں، ان جگہوں میں سے 19 جگہوں پر بارش کے دوران ہی فوری ایکشن لے کر پنجاب حکومت نے شہر کلیئر کردیا باقی 3 پوائنٹس پر بھی چند گھنٹوں میں کارروائی عمل میں لائی گئی اور معمولاتِ زندگی شدید اور مسلسل بارش کے باوجود بحال ہوگئے۔

میری نظر میں یہ ایک بہت چھوٹا کام ہے لیکن اس کی اہمیت کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ سابق ادوار میں یہ نہ کسی کی ترجیحات میں تھا اور نہ ہی کسی سے یہ مسئلہ حل ہوا۔ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ بارش کے مسائل صرف پانی کی حد تک محدود نہیں، اگر آپ کا خبریں دیکھنے کا اتفاق ہوتا ہے تو آپکو معلوم ہوگا کہ کیسے کراچی میں بارش کے دوران لوگ کرنٹ لگنے سے مرجاتے ہیں، اکثر لوگ پانی کے بہاؤ میں بہہ بھی گئے۔ اس لئے اس کام میں کسی قسم کی غفلت جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔ تاہم لاہور میں بزدار حکومت کے انڈر گرائونڈ اسٹوریج ٹینکس کے منصوبے اور حکومتی عملہ دونوں ہی کریڈٹ کے حقدار ہیں۔

یہ تو تھے بڑے مسائل کے آسان اور چھوٹے حل، کچھ اور کاموں کابھی ذکر کرتا چلوں۔جن سے سوسائٹی میں مثبت تبدیلی آسکتی ہے، لوگوں کا طرز زندگی بہتر ہوسکتا ہے، انتشار کا خاتمہ اور امن کا پھیلائو ممکن ہے ۔ جیسے پچھلے سال پنجاب حکومت نے ہفتہ شان رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منایا تھا اس مرتبہ یکم ربیع الاول سے 12 تک مختلف تقریبات منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ نے اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دی ہے جس نے راجہ بشارت صاحب کی سربراہی میں سفارشات مرتب کی ہیں۔ یہ کمیٹی مقابلہ جات، حسن قرأت و نعت کے ساتھ ساتھ سیرت کانفرنس کے پروگرام کو حتمی شکل دے گی۔ اس کے علاوہ مختلف یونیورسٹیوں میں سیرت چیئر کا قیام بھی اسی کمیٹی کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ پچھلے سال بھی اسلامو فوبیا کے خلاف امن کی آواز کو دور تک پہنچانے اور آقائے دوجہاں سرورکائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو دنیا بھر میں تعلیم و آگاہی کے زور پر پھیلانے اور امن کے فروغ کیلئے متعدد اقدامات اٹھائے گئے، جن میں رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسکالرشپ کا بھی اعلان ہوا، اور اب اس کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔ معاشرے کی اصلاح کیلئے یہ ایک جامع پلان ہے اور مجھے انتہائی خوشی ہے کہ ایک سیاسی رہنما، ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ بذات خود اس کیلئے مصروف عمل ہے، اس حوالے سے تعلیم عام کرنا وقت کی ضرورت ہے اور اس کو اہمیت دینے والے حکمران ہمارے معاشرے کی ضرورت ہیں۔

اب کچھ روٹین کی کامیابیوں کا ذکر بھی کردیا جائے ۔ سرکاری محصولات کی وصولی میں بھی نئے جھنڈے گاڑے جارہے ہیں۔ بورڈ آف ریوینیو کے ٹیکس محاصل میں اس حد تک اضافہ ہوا ہے کہ پنجاب میں بزدار حکومت نے ہدف سے بھی آگے کا مائل اسٹون حاصل کرلیا۔ گزشتہ مالی سال میں تقریبا 60 ارب روپے ہدف مقرر ہوا، جبکہ پنجاب حکومت نے 62 ارب روپے سے زائد کے محصولات حاصل کئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ای پے ایپ کے اجرا سے بھی انتظامی معاملات اور شہریوں کی سہولت کیلئے بہتری آئی ہے۔ اس ایپ کے ذریعے اب 20 خدمات صارفین کے موبائل پر ایک کلک کی مدد سے میسر ہیں۔ صرف اس ایپ کے ذریعے 40 ارب روپے سے زائد کے محصولات وصول ہوئے۔ اب تک 55 لاکھ سے زائد شہری اس سروس سے مستفید ہو چکے ہیں۔ عثمان بزدار پنجاب میں جو ڈیجیٹل گورننس متعارف کروانا چاہتے تھے اب ان 3 سال میں اس کا ثمر مل رہا ہے، رشوت کے دروازے بند ہوئے ہیں، ہر سہولت اب ہر ایک شخص کی پہنچ میں ہے، فراڈ اور کرپشن کا خاتمہ ہوا ہے اور اسی ڈیجیٹل نظام سے شہریوں کی زندگیوں میں بھی بہتری آئی ہے۔ یہ ہے انقلاب، ڈیجیٹل انقلاب جو حکومتوں کو جوابدہ بھی بنا رہا ہے اور موثر بھی ۔وزیر اعظم کے حالیہ دورے میں عوام کو مزید سہولیات فراہم کرنے کیلئے بھی حکمت عملی پیش کی گئی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے وزیراعظم عمران خان کو سیاسی اور انتظامی امور پر بریفنگ بھی دی۔ اور اب بزدار حکومت نے گراں فروشوں کے خلاف کارروائیاں مزید تیز کرنے پر کمر باندھ لی ہےمگر مرکزی حکومت کی طرف سے پٹرول کی قیمت میںاضافہ تکلیف دہ ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین