• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں کے بیس سال بعد بالآخر امریکہ افغانستان سے چلاگیا- اس عرصے میں ’وار آن ٹیرر‘ کے نام پر کھربوں ڈالر اوربے انتہا تباہی و بربادی کے بعد طالبان کی حکومت دوبارہ قائم ہوگئی۔اگرچہ القاعدہ کی جانب سے مبینہ دہشتگردی کا خطرہ کافی کم ہوچکا ہے مگر اس عرصے میں مسلم دنیا میں کی جانے والی بے پناہ قتل و غارت کے ردعمل میں داعش یا اس فکر سے جڑے درجنوں مسلح گروہ دنیا کے کئی حصوں میں پیدا ہوئے جن کے مقابلے میں اب القاعدہ کے خیالات قدرے اعتدال پسند دکھائی دیتے ہیں۔ ان حالات میں یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ افغانستان میں امریکہ اپنے طے شدہ فوجی اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہوگیا- اتنا ہی نہیں بلکہ جمہوریت، تعمیر و ترقی اور ایک جدید افغانستان کے حصول کیلئے اس کی تمام کوششیں بھی رائیگاں گئیں۔ گزشتہ بیس سال کے دوران اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود افغانستان میں ہر طرف غربت اور افلاس کا ڈیرہ ہے۔ امریکہ کی براؤن یونیورسٹی کی ایک تازہ ریسرچ کے مطابق امریکہ نے افغانستان میں اپنے قبضے کے سات ہزار تین سو دنوں میں روزانہ دو سو نوے ملین ڈالر خرچ کئے مگر اس کے باوجود 31اگست کو امریکہ کے ملک چھوڑتے وقت افغانستان کی آدھی سے زیادہ آبادی اتنی غریب ہے کہ اس کو امداد کی ضرورت ہے۔ لگ بھگ ڈیڑھ کروڑافراد غذائی ضروریات کے فقدان کی وجہ سے غیر محفوظ ہیںجبکہ پورے ملک میں غربت کی شرح 54فیصد ہے۔جاتے جاتے امریکہ نے افغانستان پر مالی اور معاشی پابندیاں لگادیں جس کی وجہ سے غربت و افلاس میں مزید اضافہ ہوگا ، اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ستانوے فیصد آبادی کو بیرونی امداد کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ تازہ امریکی اقدامات سے امریکہ مخالف حلقوں کے ان خیالات کو تقویت ملتی ہے کہ افغانستان کے خلاف امریکہ کا غصہ اب تک کم نہیں ہوا اس لئے وہ یہاں مزید تباہی پھیلانا چاہتا ہے۔

گیارہ ستمبر 2001کو نیویارک میں ٹوئن ٹاورز پر جہاز ٹکرانے کی خبر آئی تو میں ایک دوست کے ہمراہ لندن کے ایک پارک میں دوپہر کا کھانا کھارہا تھا۔ پارک سے گزرتے ہوئے کسی شخص نے کثیرالمنزلہ عمارت سے جہاز ٹکرانے کی اطلاع دی تو ہم نے اس پر کوئی خاص توجہ نہ دی- کوئی گھنٹہ بھر بعد جب ایک اور جہاز کے ٹکرانے کی خبر ملی تو واقعی حیرت ہوئی- میں نے ایک دوست کو فون کیا تو اس نے تخریبی کارروائی کا شبہ ظاہر کیا۔ اس وقت تک دہشت گردی کی اصطلاح خال خال استعمال کی جاتی تھی بلکہ یوں کہئے کہ میں نے اس کا تذکرہ صرف کشمیر کے حوالے سےبھارتی سرکاری میڈیا پر سنا تھا۔ دوسرے روز میں ویسٹ لندن میں مقیم کشمیری رہنما مرحوم ڈاکٹر ایوب ٹھاکر سے ان کے دفتر کشمیر سینٹر ملنے گیا تو وہ خاصے فکرمند دکھائی دیئے کیونکہ ان کے بقول ان واقعات کا ردعمل پوری دنیا کے مسلمانوں کیلئے بالعموم اور کشمیریوں کیلئے بالخصوص سخت نقصان دہ ہوگا- صرف چوبیس گھنٹے میں پوری دنیا میں دہشت گردی کا لفظ زبان زد عام ہوگیا جس کے ساتھ اسلامی کا لاحقہ ایسے جڑ گیا کہ اب تک اگر مسلمانوں کے ہاتھوں کسی قسم کے ٹریفک حادثے یا مجرمانہ سرگرمی میں حادثاتی طور بھی کسی کی جان چلی جائے تو مغربی ذرائع ابلاغ اسے فی الفور ’’اسلامی دہشتگردی‘‘ قرار دے دیتے ہیں-

ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں کے ٹھیک پچیس دن بعد امریکہ نے افغانستان پر تباہ کن بمباری کر کے’وار آن ٹیرر‘ کا آغاز کردیا- اس وقت کے افغان ذرائع کے مطابق جنگ کے ابتدائی پانچ دنوں میں پانچ سو سے زائد افغان شہری مارے گئے جن میں سو سے زیادہ خواتین اور اکاون بچے بھی شامل تھے- اس سال اگست میں اپنے انخلا سے صرف چند روز قبل امریکہ نے ایک ڈرون حملے میں کابل میں داعش کے دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا جو غلط ثابت ہوا- مرنے والے دس افراد میں سات بچے شامل تھے اور خاندان کے سربراہ جس شخص کو دہشت گرد قرار دیا گیا وہ اصل میں امریکی امداد سے چلنے والے ایک فلاحی ادارے میں کام کرتا تھا- اس طرح کی سینکڑوں وارداتوں میں ہزاروں افراد مارے گئے جن کا کہیں کوئی حساب نہیں- امریکی ٹیلی وژن سی این این کی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہےکہ امریکہ نے سرکاری طور پر افغان جنگ کے دوران امریکی فوج کی بمباری سے مارے گئے عام افغان شہریوں کی تعداد سینتالیس ہزار بتائی ہے جن کی موت کا ذمہ دار اتفاق یا ’غلطیوں‘ کو ٹھہرایا گیا- جرم ضعیفی کے مجرم ان بے گناہ اور لٹے پٹے افغانیوں کو جس بیدردی سے موت کا سزاوار ٹھہرایا گیا اس کا حساب یا ازالہ شاید ہی اس دنیا کی کسی عدالت میں کبھی ممکن ہو-

تازہ ترین