• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میچوں کے لئے پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کے جمعے کو پہلے میچ کے آغاز سے محض چند منٹ قبل بظاہر قطعی غیرحقیقی خدشات کے حوالے سے سیریز نہ کھیلنے اور وطن واپس جانے کے فیصلے کا بیشتر تجزیہ کاروں کی جانب سے کسی معقول جواز سے عاری قرار دیا جانا بلاشبہ حقائق کے عین مطابق ہے۔ 18سال بعد کیویز کی پاکستان آمد نے کروڑوں اہلِ وطن سمیت دنیا بھر میں کرکٹ کے جن اربوں شائقین کے دلوں میں ولولہ انگیز مقابلوں کی توقع پیدا کردی تھی، نیوزی لینڈ کا فیصلہ ان سب کے لئے یقیناً انتہائی مایوس کن ہے۔ یہ بات بھی حیرت انگیز ہے کہ فیصلے سے پہلے پاکستانی میزبانوں سے کسی مشاورت کی ضرورت بھی نہیں سمجھی گئی۔ وزیراعظم پاکستان کے ٹیلی فونی رابطے پر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کا یہ مؤقف کہ کھلاڑیوں کی سلامتی ان کے نزدیک سب سے اہم ہے، اصولی طور پر درست ہے لیکن کسی حقیقی جواز کے بغیر ایسا کیا جانا بہرحال شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ کے مطابق نیوزی لینڈ کی ٹیم کو بغیر تماشائیوں کے خالی اسٹیڈیم میں میچ کھیلنے کی پیشکش بھی کی گئی لیکن اسے بھی قبول نہیں کیا گیا۔ معاملے کا ایک اور نہایت اہم پہلو جو اس فیصلے کے جواز کو مزید بےوقعت ثابت کرتا ہے، یہ ہے کہ کیویز کے پاکستان پہنچنے سے پہلے کرکٹ کی دنیا کے سب سے معروف سیکورٹی ماہر ریگ ڈیکا سن نے پاکستان آکر سیکورٹی سے متعلق تمام انتظامات اور اقدامات کا بذات خود جائزہ لیا تھا اور ان پر مکمل اطمینان ظاہر کیا تھا۔ ریگ ڈیکا سن دو ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ کھیلنے کے لئے آئندہ ماہ پاکستان کے دورے پر آنے والی انگلینڈ کی ٹیم کے بھی سیکوریٹی مشیر ہیں اور یہ بات بہت توجہ طلب ہے کہ بظاہر نیوزی لینڈ کے فیصلے کے زیر اثر برطانیہ نے بھی اعلان کیا ہے کہ آئندہ 24سے 48گھنٹوں میں کرکٹ ٹیم پاکستان بھیجنے یا نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ برطانیہ کے منفی فیصلے کی صورت میں آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کی ٹیموں کے طے شدہ دورے بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ فی الحقیقت نیوزی لینڈ کے فیصلے کا تجزیہ خطے کی موجودہ جیو اسٹرٹیجک صورت حال کی روشنی میں کیا جانے کی ضرورت ہے جس کی طرف پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین خالد محمود نے برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے ان الفاظ میں توجہ دلائی ہے کہ ’’بات صرف کرکٹ کی نہیں بلکہ اس کا براہِ راست تعلق خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے ہے۔ افغانستان سے امریکہ کے جانے اور طالبان کے آنے کے بعد پاکستان مخالف قوتیں متحرک ہو چکی ہیں اور کرکٹ بھی اس کی زد میں آچکی ہے۔ عین ممکن ہے کہ پاکستان مخالف قوتوں نے کسی ذریعے سے نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ کو بتایا ہو کہ پاکستان میں ان کی ٹیم کو خطرہ ہو سکتا ہے‘‘۔ ممتاز ماہر قانون اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سینیٹر اعتزاز احسن نے بھی نیوزی لینڈ کے فیصلے کو پاکستانی قوم کے لئے ایک گہرا زخم قرار دیتے ہوئے اس کے پیچھے کسی خفیہ ہاتھ کی کارستانی کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ ان کے بقول ’’لگتا ہے کسی نے پیچھے سے بٹن دبایا اور عین اس وقت جب کپتانوں کو ٹاس کرنا تھا یہ سب ہو گیا، دستانے پہنے ہوئے ہاتھ انڈیا کے سوا کسی کے نہیں ہو سکتے‘‘۔ بلاشبہ افغانستان میں خفت اور ہزیمت اٹھانے والی طاقتیں وہاں بظاہر پاکستان کے لئے سازگار ہوتے حالات پر بری طرح تلملا رہی ہیں جس کی بناء پر ان کی جانب سے ہر قسم کے اوچھے ہتھکنڈوں کا آزمایا جانا عین متوقع ہے۔ لہٰذا نیوزی لینڈ کے فیصلے پر قومی سطح پر سنجیدہ سوچ بچار کا اہتمام، پارلیمنٹ میں اس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ اور ایسی ٹھوس حکمت عملی کا وضع کیا جانا ضروری ہے جو پاکستان مخالف قوتوں کے عزائم کو مکمل طور پر ناکام بنانے کی اہل ہو۔

تازہ ترین