• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت سے حلقوں خصوصاً ملک کی کاٹن انڈسٹری کیلئے یہ نہایت حوصلہ افزا رپورٹ سامنے آئی ہے کہ اس سال پنجاب میں کپاس کے زیر کاشت رقبے میں 17فیصد کمی کے باوجود گذشتہ برس کی نسبت 186.66فیصد زیادہ پیداوار حاصل ہوئی ہے جسے چھ سالہ ریکارڈ قرار دیا جارہا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ اگلے سیزن میں اس کے لئے تقریباً 50لاکھ ایکڑ رقبہ زیر کاشت لایا جا سکے گا جبکہ اس سال یہ فصل 40لاکھ ایکڑ پر کاشت کی گئی تھی۔صوبائی وزارت زراعت کے مطابق رحیم یار خان ، لودھراں ، بہاولپور، بہاولنگر، ملتان، ڈی جی خان اور راجن پور کے اضلاع میں ہدف سے زیادہ اور فیصل آباد اور پاکپتن میں کم پیداوار رہی ۔ مزید برآں 15ستمبر کو جاری ہونے والے اعداد و شمار نے کپاس سے متعلق بین الاقوامی مشاورتی کمیٹی کی اس رپورٹ کو غلط ثابت کر دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ اس سال بھی کپاس کی پیداوار گذشتہ برس کی طرح کمی کا شکار رہے گی ۔پاکستان نہ صرف ایک زرعی بلکہ کپاس کی پیداوارمیں دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے تاہم گذشتہ چھ برس سے عدم توجہ کے باعث اس کی پیداوار مسلسل گراوٹ کا شکار چلی آ رہی تھی حتیٰ کہ گذشتہ برس 30سال کی کم ترین سطح پر آگئی تھی۔ اس کی ایک بڑی وجہ کاشتکاری کے پرانے طریقوں کا استعمال اور حکومتی توجہ میں کمی آناہے۔ دوسری طرف درآمد کی گئی روئی مقامی فصل کے مقابلے میں 15فیصد مہنگی ہے جس کا اثر ملک کی کاٹن انڈسٹری پر پڑتا ہے اور وہ اسے انتہائی مہنگے داموں درآمد کرنے پر مجبور ہے۔ ملک میں وفاقی و صوبائی سطحوں پر زراعت کی وزارتیں ، قومی و صوبائی تحقیقی ادارے، جامعات ،مائیکروبنکاری نظام سبھی کچھ موجود ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ جامع پروگرام کے تحت زرعی شعبے میں اصلاح و بہتری کی تمام تدابیر اختیار کی جائیں۔

تازہ ترین