• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آسان نہیں ہوتا کہ آپ اپنے ملک کی پالیسیوں پر ایسی صورت حال میں تنقید کریں جب دشمن اور حاسد ممالک کے سازشی بادل آپ کی ریاست کے سر پر منڈلا رہے ہوں! مگر یہ بھی ممکن نہیں کہ خود احتسابی اور باہمی احتساب کے بغیر آپ عالمی سازشوں کا مقابلہ کر سکیں۔

کہیں یہ انکشاف ہو رہا ہے کہ بھارتی ’’حکمتِ عملیوں‘‘ کے سبب نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم پاکستان آکر واپس چلی اور برطانوی ٹیم نے پاکستان کیلئے رختِ سفر ہی نہیں باندھا۔ وطن عزیز میں کرکٹ چیمپئن سربراہِ حکومت ہے اور انہوں نے ادائیگی فرض کی نزاکتوں اور صداقتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو فون بھی کیا کہ ہمارے ہاں حالات کشیدہ نہیں ہیں اور کرکٹ کا جادو جگانے کیلئے حالات سازگار ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے جوہری توانائی کے حامل اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پانچویں بڑے ملک، سابق کرکٹ چیمپئن اور جمہوری ملک کے ہر دلعزیز لیڈر اور سربراہِ حکومت کی بات کو معقولیت اور قبولیت کیوں نہیں بخشی؟ جہاں تک برطانوی ٹیم کی بات ہے وہاں کے سیاست دانوں نے برطانوی کرکٹ انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا، برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے عمران خان کی 10بلین درخت لگانے کی مہم کو ماحول دوستی قرار دیتے ہوئے تعریف کا تکلف بھی کیا تاہم ٹیم بھیجنے کی نزاکتوں کو بہرحال سر پر سوار رکھا۔

آخر ایسی تعریف و توصیف کس کام کی کہ کشمیر دنیا کا فلیش پوائنٹ بنا ہو اور اقوامِ عالم کے کان پر جوں تک نہ رینگے۔ رینگے بھی تو محض بیان بازی یا زیبِ داستاں کی حد تک۔ پھر یو این سے امریکہ تک آشنا ہیں کہ افغانستان ایک دفعہ پھر پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، سارے بڑے عالمی اخبارات روزانہ اسپیشل ایڈیشن شائع کرنے پر مجبور ہیں اور سب سمجھتے بھی ہیں کہ پاکستان اِس مسئلہ سے ایک دفعہ پھر براہِ راست متاثر ہو رہا ہے سو پاکستان کی اخلاقی و خارجی مدد کرنی چاہئے کیونکہ دوسری جانب بھارت پوری توانائیوں کے ساتھ پاکستان مخالف پروپیگنڈا میں مصروف ہے۔ قطر میں ہونے والے طالبان و دیگر افغان دھڑوں اور بین الاقوامی پالیسی سازوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات سے اب تک مغرب کو سب معلوم ہے لیکن پاک چین دوستی چونکہ سب بڑوں کی چھاتی پر مونگ دلتی ہے چنانچہ وہ پاکستان کو کسوٹی پر رکھنے کے بجائے تعصب پر رکھ لیتے ہیں۔ مغرب کو کیا کہنا، ہمارے بااثر برادر ممالک بھی معاشی ترازو میں تول کر دوسری جانب منہ کر لیتے ہیں جو قابلِ مذمت ہے!

اس کالم کے سامنے آنے تک وزیراعظم پاکستان بھی قومی مؤقف اقوامِ عالم و اقوامِ متحدہ کے سامنے رکھ چکے ہوں گے اور سب کھری کھری باتوں کو عالمی مبصرین پرکھ بھی چکے ہوں گے مگر ایسے میں کس نتیجے کی توقع کی جا سکتی ہے؟ عالمی برادری سے انصاف کی توقع کیلئے بھی جیب کا بھاری ہونا ہی میرٹ بن چکا ہے۔ ورنہ امداد ہی کےنام پر کچھ مل سکتا ہے لیکن امداد اور انصاف میں بہت بڑا فرق ہوا کرتا ہے۔ انصاف ملنے کا مطلب طویل مدت یا کُل وقتی دیرپائی کے دریچے کھلنا ہوتا ہے اور محض امداد کا مطلب جُزوقتی بنیادوں پر مقید رہنا گویا اونٹ کے منہ میں زیرہ دینے کے مترادف ہی سمجھئے۔ یہ تو ہے وہ چہرہ جو عالم کا ہمارے لئے عیاں ہے مگر ہمارا چہرہ جو ہمیں آئینے میں خود سے نظر آتا ہے، کیا اس پر بھی ہمیں غور کرنا ہے یا نہیں؟

یہ بات نئی نہیں ہے لیکن ہمیں جذبات کی رو میں بہتے ہوئے یہ بات نظریہ اور اسلام کے خلاف عالمی سازش لگتی ہے، عالم بھی جیب دیکھ کر روایتی بزنس مین کی طرح پَرکھتا، چَکھتا اور نِگلتا ہے یا تھوک دیتا ہے۔ گلوبل ویلج بننے کے بعد پورا عالم بزنس کے زاویے اور باہمی مفاد ہی کی نظر سے تعلق داری و رشتہ داری کرتا ہے، وگرنہ امداد کا پی نٹ پکڑا کر آگے گزر جاتا ہے! وہ جو خود احتسابی و باہمی احتساب سے پرہیز کرتے ہیں، انہیں زیرے یا پی نٹ ہی پر گزارا کرنا پڑتا ہے، بھلے ہی وہ جوہری طاقت کے حامل ہوں، سابق کرکٹ چیمپئن یا پانچویں بڑی آبادی، لیڈر بھی چاہے ہنڈسم ہو یا اچھا وکیل اور مقرر۔ اسلام اور نظریہ کسی طرح بھی آئینی حدود کی پاسداری، معاشی حیا اور معاشرتی نکھار والی تعلق داری سے نہیں روکتا، نہ نظریہ اور اسلام سائنس و ٹیکنالوجی سے دور بسنے اور موثر ہائیر ایجوکیشن سے دوری اختیار کرنے سے روکتا ہے، نظریہ اور اسلام تو جدتوں کے سنگ سنگ اور ہم رنگ ہونے کو فوقیت دیتے ہیں، کوئی خواہ مخواہ مرثیہ گوئی سے دامن گیر رہے، تساہل کو اپنی ادا اور فراہمی انصاف کے سامنے بند باندھ کر خود کو ہیرو گردانے تو اسلام یا کوئی نظریہ اسے گھاس بھی نہیں ڈالتا۔

سیدھی سی بات ہے داخلی دروازوں پر آسیب کے سائے ہوں تو خارجی ابواب پر دھنک رنگ کیسے ممکن ہیں؟ اگر ہم اہم ہیں تو ہمارے ادارے بھی یقیناً اہم ہیں، ایسے میں عالم اور عالمی ادارے بھی ہماری اس اہمیت کی تاک میں ہوتے ہوں گے؟ گویا ہم لوگ کوّا سفید ثابت کرنے پاداش میں لفاظی، ذہانت اور علمیت و اہلیت کو ضائع کرنے کے علاوہ کیا کرتے ہوں گے؟

‏معاشی پہلوؤں کو فراموش کر کے’’بدعنوانی اور بےعنوانی‘‘ کو رواج بخش کر معیشت کو نظرانداز کرکے معاشی سرگرمیوں کی طالب صلاحیتوں کو چولہے میں ڈالنے کے در پے نہیں تو اور اور کس در پر ہیں ہم ؟ ہم ایسے میں کون سی معیشت کا حجم اور کن اتاثوں اور وسائل کو اکنامکس کی شاہراہ پر چلا رہے ہیں؟ سیدھا سیدھا معاشیات کو ’’سیاسیات‘‘ کی بھینٹ چڑھائے ہوئے ہیں، قوم کے بجائے ذاتی بالادستی کی خاطر کبھی نیب کے سربراہ کی مدت ملازمت میں پارلیمنٹ اور اپوزیشن کو فراموش کرکے توسیع چاہتے ہیں تو کبھی چیف الیکشن کمشنر کی توہین کا مصمم ارادہ باندھتے ہیں، خود کچھ کر نہیں پاتے اور مخالفین کو موردِ الزام ٹھہرانے میں عافیت سمجھتے ہیں ، تو چشمِ بینا والے آپ کو کیا سمجھیں؟ کَچے گھروں کے مکیں بارشوں سے دوستی سے قبل گھر پَکے کرتے ہیں، اور گھر بچانے کا سوچتے وقت آپس میں دست و گریباں ہونے سے گریز بھی کرتے ہیں. پھر کرکٹرز کیا اور دشمن کیا، سبھی بادشاہ بھی آپ کے در کو سلامی دینے کیلئے بےتاب رہتے ہیں!

تازہ ترین