سائنس دانوں نےشمالی امریکا میں ایک نیا گوشت خور پودادریافت کیا ہے ۔ماہرین بناتات کے مطابق یہ خوب صورت سفید پھول اپنے شکار کو اپنےتنے کے ذریعے پکڑتا ہے ،جس پر ایک قسم کا چپچپی گوند کی طرح کا مادّہ ہوتا ہے جو ان پر بیٹھنے والے کیڑوں کو جکڑ لیتا ہے۔ اس پودے کا سائنسی نام 'ٹرائنٹا آکسیڈنٹلس(Trianta oxidentalis) ہے اور گذشتہ 20 سالوں میں پہچانے جانے والا یہ پہلا گوشت خور پودا ہے۔ گوشت خور پودے دوسرے جانوروں کو اپنی جانب پھنسانے اور غذا حاصل کےلیے راغب کرتے ہیں۔
اس پودے کی تقریباً630 اقسام ہیں ۔زیادہ تر گوشت خور پودے کیڑے مکوڑوں کو کھاتے ہیں، لیکن ان پودوں کی بڑی نسلیں رینگنے والے جانوروں اور چھوٹے میملز کا شکار بھی کرتی ہیں۔ وینس فلائی کیچر مشہور ترین گوشت خور پودوں کی ایک نسل ہے۔ جب شکار اس کے پتوں کے درمیان آ جاتا ہے تو پتے از خود بند ہو جاتے ہیں۔ کیلیفورنیا سے الاسکا تک شمالی امریکا کے مغربی ساحل کے دلدل والے علاقوں میں گوشت خور پودے پائے جاتے ہیں۔ عام طور پر یہ ان ہی علاقوں کے شہروں میں پائے جاتے ہیں۔
محققین کا خیال ہے کہ بہت سارے گوشت خور پودوں کو ابھی تک دریافت نہیں کیا جا سکا ہے۔ محققین ڈاکٹر شان گراہم کا کہنا ہے کہ یہ پودےوکٹورین دور کے بعد سے موجود ہیں ۔یہ دیکھ کر ہم حیران ہیں کہ امریکاکے مغربی ساحل پر پایا جانے والا یہ پودا جانداروں کو کھاتا ہے۔ اس تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر کوانگشی لین کے مطابق اس گوشت خور پودے کی منفرد خصوصیت یہ ہے کہ یہ اپنے پھولوں کے قریب تنوں پر کیڑوں کو پھنساتا ہے جو کہ پھولوں کی تخم کاری کے لیےوہاں آتے ہیں۔
یہ عمل گوشت خور پودے اور زیرہ کرنے والے کیڑوں کے مابین ایک جدوجہد ہے۔ محققین کے مطابق اگرچہ تنوں پر بہت سے کیڑے چپک جاتے ہیں، لیکن تازہ دریافت ہونے والا پودا صرف مچھروں اور بہت چھوٹے کیڑوں کو پھنساتے ہیں۔ شہد کی بڑی مکھیاں اور تتلیاں ان میں نہیں پھنستیں اور وہ ایک پھول سے دوسرے پھول تک جا سکتی ہیں اور بغیر کسی نقصان کے زیرہ ڈال سکتی ہیں۔