• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حسینہ واجد کو تویہی کرنا چاہئے تھا جو اس نے کیا،جماعت اسلامی کے بزرگ رہنما کو نوّے سال اور دوسرے کو عمر قید دلوادی۔ ہم نے کیا کیا؟ مملکت ِ خداداد نے ، اس کی فوج نے اور خود جماعتِ اسلامی نے کیا کیا؟ حسینہ واجد کا رویہ، اس کی منتقم المزاجی،متحدہ پاکستان کے حامیوں سے اس کی نفرت تو سمجھ میں آتی ہے۔ جو سمجھ میں نہیں آتا وہ یہاں کی حکومت کا اور جماعت اسلامی کا کردار ہے۔ رہی سول سوسائٹی تو اس کی کیا بات کی جائے۔
بیالیس سال کا طویل عرصہ گزرگیا۔مشرقی پاکستان میں کیا ہوا تھا، کس کا کردار کیا تھا،مکتی باہنی نے کیا کیا تھا؟البدر اور الشمس کا کردار کیا رہا تھا؟آج تک یہ سب معاملات متنازع چلے آ رہے ہیں،اتفاق اگر ہے تو اس با ت پرکہ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کو1970ء کے انتخابات میں واضح اکثریت حاصل ہو گئی تھی مگر انہیں اقتدار منتقل نہیں کیا گیا۔ جنرل یحییٰ خان چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے ان کے ساتھ وہ سیاستدان تھے جن کی جماعت نے مشرقی پاکستان میں ایک بھی امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا۔اقتدار کی پُرامن منتقلی کے بجائے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا گیا، شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کر کے مغربی پاکستان لے آیاگیا اور 25مارچ1 197ء کو مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی شروع کردی گئی۔ذوالفقار علی بھٹو نے ڈھاکہ سے واپسی پر بیان دیا” خدا کا شکر ہے پاکستان بچا لیا گیا“۔کہا تو انہوں نے یہی تھا مگر انہیں علم تھا، بوجوہ دوسروں سے زیادہ کہ جو سازشیں ہو رہی ہیں وہ پاکستان کو دولخت کر دیں گی۔اس کے بعد نو ماہ تک پاکستان کے مشرقی بازو میں کیا ہوتا رہا؟وہاں کے عوام پر کیا گزرتی رہی؟ بنگالیوں پر کیا ستم توڑے گئے اور وہ جو بہاری کہلائے گئے ان پر کیا بیتی؟ان تمام واقعات کی غیر جانبدارانہ تفصیلات کبھی جمع نہیں کی گئیں،کسی کو توفیق ہی نہیں ہوئی، جو کچھ لکھا گیا یکطرفہ رہا۔پاکستان میں اخبارات پر سرکاری دباؤ بہت تھا،حقائق عوام سے پوشیدہ رکھنے کی ہدایت تھیں اور ان پر عمل بھی ہوتا تھا۔غیر ملکی خبر رساں اداروں کی خبریں کیا قابل اعتبار تھیں؟اس سوال پر بھی کم ہی غور کیا گیا۔تمام غیر ملکی اخبار نویسوں کومشرقی پاکستان سے نکال دیا گیا تھا۔ان کا ڈیرہ کلکتہ میں لگا،جہاں سے وہ مشرقی پاکستان میں فوج کے ہاتھوں ہونے والے ظلم و ستم کی داستانیں ساری دنیا میں شائع اور نشر کر تے رہے۔کلکتہ میں ان غیر ملکی اخبار نویسوں کو بھارتی حکومت کی طرف سے ہر قسم کی سہولت اور تمام جھوٹی سچی خبریں فراہم کرنے کا پورا بندوبست تھا۔کئی سو میل دور بیٹھے اخبار نویس حقائق سے کتنے باخبر ہو سکتے ہیں،آج بھی اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے،اُس وقت 1971ء میں تو سہولتیں اور بھی کم تھیں۔چند سال پہلے کی بات ہے صحافیوں کی ایک تربیت گاہ میں معروف امریکی صحافی آرنلڈ زیٹلن نے انکشاف کیا،اعتراف کیا کہ ایک بار انہیں خبر ملی کہ مشرقی پاکستان میں کسی جگہ پانچ ہزار بنگالی قتل کر دےئے گئے ہیں، زیٹلن نے کہا ”دراصل صرف پچاس لوگ مارے گئے تھے مگر ہمارے سفارتی ذرائع نے ہمیں پانچ ہزار لوگوں کے مرنے کی خبر دی تھی“۔ انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ ایسوسی ایٹڈ پریس سے انہوں نے خبر یہی بھیجی کہ پانچ ہزار لوگ مارے گئے ہیں۔زیٹلن زندہ ہیں تصدیق کر سکتے ہیں۔ اس طرح کی بے سروپا خبروں کو اتنی بار دہرایا گیاہے کہ حقائق ان کی دھند میں چھپ گئے ہیں،اگر کبھی دوسرا پہلو کسی نے پیش کرنے کی کوشش کی تو اس پر تہمت لگانا ،کوئی بھی تہمت لگانا،کیا مشکل ہے۔حقیقت بہرحال کسی حد تک سامنے آ ہی جائے گی۔حال ہی میں سبھاش چندر بوس کی پوتی شرمیلا بوس نے ایک طویل تحقیق کے بعد مشرقی پاکستان کے اُس وقت کے حالات پر ایک کتاب لکھی ہے Dead Reckoning۔شرمیلا کلکتہ میں رہتی ہیں یوں بنگالن ہیں اور مذہباً ہندو ہیں۔ غالباً یہ پہلی کتاب ہے جس میں ان واقعات کی تحقیقاتی تردید کی گئی ہے جن کا صبح شام ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔انہوں نے لکھا ہے کہ یہ الزام کہ مشرقی پاکستان میں تیس لاکھ بنگالی قتل کئے گئے کسی بھی طرح ثابت نہیں ہو سکا۔ شرمیلا بوس نے لکھا: وہ اس کتاب کے لئے مواد جمع کرنے جب بنگلہ دیش گئیں تو شروع میں ان کی بڑی پذیرائی کی گئی، انہیں نہایت تفصیل سے ظلم و ستم کی داستانیں سنائی گئیں مگر ان کے پہلے مضمون کی اشاعت کے بعد جب وہ دوبارہ گئیں تو ہر شخص نے سرد مہری کا مظاہرہ کیا،ملنے سے گریز کیا۔وجہ ظاہر ہے انہوں نے ان بہت سے واقعات کو غلط ثابت کر دیا تھاجن پر انتہا پسندوں نے اپنے پروپیگنڈے کی عمارت کھڑی کی تھی۔یہ کہنا کہ وہاں ظلم نہیں ہوا، اس سے بڑاظلم ہوگا۔ظلم وہاں ہوا،یقینا۔ ظالم کون تھے؟کون نہیں تھے؟سب تھے۔یہ ایک حقیقت ہے جو ہمیشہ فراموش کردی جاتی ہے،جان بوجھ کر۔
اب بھی جنگی جرائم کے نام نہاد ٹریبونل نے جو مقدمات چلائے ہیں، ان کا عدل و انصاف سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔پہلی بات تو یہ کہ جو کچھ ہوا مشرقی پاکستان میں ہوا،بنگلہ دیش میں نہیں۔وہ بغاوت تھی یا اپنے جائزحقوق کے حصول کی تحریک یا پاکستان سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد۔ جماعت اسلامی فوجی کارروائی سے پہلے تک شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار منتقل کرنے کی حامی تھی۔ بعد میں اس نے مکتی باہنی کے خلاف البدر اور الشمس نامی تنظیمیں بنائیں ،ان میں سے کس نے کس پر ظلم کئے،ہمیشہ متنازع رہے گا۔اگر مخالفین نے ان تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیا ہے تو منصور خالد نے ان کا دفاع کیا ہے۔دونوں کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہے۔جماعت نے فوج کی حمایت کا فیصلہ کیا،حالانکہ مولانا مودودی نے اس وقت بھی کہہ دیا تھا کہ ان پر اعتماد نہ کرنا۔یہ حمایت جماعت اسلامی کو بھی مہنگی پڑی اور ان پاکستانیوں کو بھی جو پاکستان آنے کی آس میں گزشتہ چالیس سال سے کیمپوں میں جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔ اس نام نہاد جنگی جرائم کے ٹریبونل میں ملزمان کو صفائی کا کوئی موقع نہیں دیا گیا۔غیر ملکی وکیلوں کو ان کے دفاع سے روک دیا گیااور گواہوں کو اغواکر کے کلکتہ پہنچا دیا گیا۔ شکورنجن بالی کا معاملہ تو ساری دنیا کے علم میں آگیا۔ اسے خفیہ اداروں نے عدالت کے باہر سے اٹھایا اور سرحد پار بھارت پہنچا دیا، جہاں وہ جیل میں بند ہے۔ اس طرح کے متعدد واقعات کی وجہ سے مغربی ذرائع ابلاغ تک بنگلہ دیش ٹریبونل کی کارروائی کو مشتبہ اور انصاف کے منافی قرار دے رہے ہیں۔ دی اکنامسٹ نے یہ واضح کرنے کے بعد کہ اسے جماعت (اسلامی) کے نظریات سے کوئی ہمدردی نہیں ہے، لکھا ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے۔ اس جریدے نے بنگلہ دیش ٹریبونل کی کارروائی کا تقابل، اسرائیل کے ٹریبونل سے کیا ہے اور اسے زیادہ منصفانہ قرار دیا ہے اور کہا” جب بنگلہ دیشیوں کو اس کا احساس ہوگا تو بہت تاخیر ہوچکی ہوگی۔ٹریبونل اس کنویں کو زہریلا کررہا ہے جس سے کسی دن بنگلہ دیش اپنی پیاس بجھانا چاہے گا“۔ انہیں تو یہ کرنا ہی تھا۔ ہم نے کیا کیا؟ وزارتِ خارجہ نے اسے بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ قرار دیا اور بس۔ وہاں کسی بزرجمہر کو علم ہی نہیں کے جو الزامات اکیانوے برس کے پروفیسر غلام اعظم اور ان کے ساتھیوں پر لگائے گئے ہیں، ان کا تعلق پاکستان سے ہے۔ وہ اس وقت پاکستان کے شہری اور متحدہ پاکستان کے حامی تھے۔ بنگلہ دیش تو ابھی وجود میں بھی نہیں آیا تھا۔
یہ الزامات اس کا اندرونی معاملہ کیسے ہو سکتے ہیں؟ فوج کی حمایت کی غلطی انہوں نے کی تھی، پاکستانی فوج ہی ان کاکچھ خیال کرتی۔ وزارتِ خارجہ میں اس کا اثرورسوخ ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ مانا کہ بیالیس برس پہلے کا واقعہ ہے مگر فوج تو یہی تھی، یہی ہے، آئندہ بھی یہی ہوگی۔ کل خدانخواستہ اسے پھر مدد کی ضرورت پڑی تو پروفیسر غلام اعظم کی سزا مدد کا سوچنے والوں تک کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ اور خود جماعت اسلامی پاکستان نے کیا کیا؟ چند بیانات، چند مظاہرے، بے دلی جن کی عیاں تھی۔ جماعت اسلامی بھی تو وہی ہے جس نے مشرقی پاکستان کو بچانے کے لئے فوج کی حمایت کا فیصلہ کیا تھا۔ پروفیسر غلام اعظم اور ان کے ساتھیوں کو بچانے کی ذمہ داری جماعت پر زیادہ عائد ہوتی ہے ۔چند معمولی مظاہرے کافی نہیں ہیں۔جماعت اسلامی کو یہاں اتنا دباؤ بڑھانا چاہئے کہ حکومت پاکستان اس معاملے کو سنجیدگی سے لے اور بنگلہ دیش حکومت کے سامنے اٹھائے۔ یوں نہیں ہوگا، یوں نہیں ہوا، تویہ قوم کی بدقسمتی ہے، خدا کرے آخری بار ہو۔
تازہ ترین