• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز میں لیڈر شپ کے حوالے سے قحط الرجال نہیں ہے ایک سے بڑھ کر ایک اپنی قیمت لگوانے یا خود کو اپنی خدمات سمیت پیش کرنے کیلئے تیار ہے۔ ایک زمانے میں سرخ سویرے والے کہتے تھے کہ ’’گیا دورِ سرمایہ داری‘‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک مداری کے چلے جانے سے قوم کو کیا حاصل ہوتا ہے؟ کوئی دوسرا ویسا ہی مداری پھر آ جاتا ہے یوں جنتا جس طرح پہلے روتی تھی اسی طرح دوسرے اور پھر تیسرے مداری کی شعبدہ بازیاں دیکھنے کے بعد بھی اپنے دکھوں پر آنسو بہاتی پائی جاتی ہے۔ تبدیلی تو تب مانیں جب عوام کے حالات بدلیں۔

ہمارے ایک لیڈر ہیں جو اتنے ہینڈ سم ہیں کہ بہت سے لوگ انہیں جناح صاحب کا دوسرا جنم یا روپ خیال کرتے ہیں بلاشبہ ان کی شخصیت میں جناح صاحب کے اتنے زیادہ اوصاف پائے جاتے ہیں کہ اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو وہ شاید جناح ثانی قرار پائیں مگر بدقسمتی کہیں یا محرومی یہ ہے کہ اول الذکر ایک جانے مانے قانون دان تھے، انہوں نے اور نہیں تو کم از کم قانون کی کتابیں تو خوب پڑھی تھیں۔ ایک زمانے میں اتاترک پر لکھی گئی معرکہ الآرا کتاب ’’گرے وولف‘‘ انہوں نے اتنی باریک بینی سے اسٹڈی کی تھی کہ ان کی بیٹی نے خود انہیں ’’گرے وولف‘‘ کہنا شروع کر دیا تھا مگر ہمارے جناح ثانی کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان کی پوری زندگی میں کتاب نامی کسی شے کے گزر یا عمل دخل کا کہیں کوئی سراغ نہیں ملا۔ گو نامِ نامی اسم گرامی مغرب کی ایک بڑی یونیورسٹی کے حوالے سے آتا ہے،اِس نوع کی معلومات بھی ملتی ہیں کہ کئی تعلیمی اداروں میں داخلے یا ڈگریاں گیم بیس پر بھی جاری ہوتی ہیں۔ واللہ اعلم۔ حال ہی میں تازہ ارشاد ملاحظہ ہو کہ امریکی ناشکرے ہیں اور پوری دنیا دہرے معیار کا شکار ہے ۔اب اگر کوئی بولنے سے پہلے تولنے والا آئے اور پوچھے کہ مہاراج سفارتکاری کی عالمی زبان میں ایسے انداز گفتگو کو کیا خیال کیا جاتا ہے ؟ کیا آپ واقعی یو این کی جنرل اسمبلی سے ورچوئل خطاب فرما رہے تھے ؟ اچھا ہی ہوا، آپ وہاں بنفس نفیس تشریف نہیں لے گئے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ اگر دنیا کا کوئی لیڈر ہماری کال نہیں سنتا یا ہم سے بات نہیں کرناچاہتا تو عالمی سفارت کاری میں اسے معطون نہیں کہا جا سکتا۔ یہ اس کا حق ہے کہ وہ کس سے بات کرے یا کس کی کال نہ سنے مگر عالمی پلیٹ فارم سے اس کا غصہ پوری عالمی برادری پر نکالنا اور یہ کہنا کہ ہمارے معاملے میں پوری دنیا دہرے معیار کا شکار ہے، قابلِ توصیف و ستائش قرار نہیں پائے گا ۔ہم آج جس دنیا میں بس رہے ہیں اس کے نامزد قواعد و ضوابط، پسند نا پسند ، ذوق یا ترجیحات کا ہمیں کچھ تو ہمیں بھی ادراک ہونا چاہئے آخر دنیا ہم سے کیوں کھنچی کھنچی رہتی ہے ؟ ہم ہمہ وقت آگ بگولوں میں رہتے ہیں اور پوری دنیا سے امید رکھتے ہیں کہ انڈیا کے خلاف بولو، اس کے خلاف کچھ کرو کشمیرکے مسئلے میں وہ انسانی حقوق کی بڑی بڑی خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہے، اس نے اپنے فلاں شہری کی فلاں جگہ پر تدفین کیوں نہیں ہونے دی ۔وہ وہاں میڈیا کو کنٹرول کیوں کر رہا ہے، وہاں اس نے آرمی کیوں بٹھا رکھی ہے جو اپنے عوام کو جلوس نہیں نکالنے دیتی مگر دنیا ہماری باتوں کا کوئی اثر ہی نہیں لیتی اس لئے جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں انڈین وزیر اعظم نے جس طرح شرکت کی ہے اور اس کی جو آئو بھگت ہوئی ہے امریکی صدر نے نریندر مودی کا جس طرح استقبال کیا اور جتنا ٹائم دیا ہے یہ سب ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اسی طرح امریکی سینیٹ میں ہمارے حوالے سے جس طرح کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں یہ بھی ہمارے لئے نیک شگون نہیں ۔

کیا ہماری عسکری و سیاسی قیادت کا فرض نہیں کہ اس نوع کی عالمی صورتحال میں مل بیٹھ کر غوروخوض کیا جائے کہ پاکستان کو اس رویے سے کیسے نکالا جائے، ہم اقوام متحدہ میں بار بار اسلامو فوبیا کو ایشو بنا کر پیش کرتے ہیں۔غیر توغیر خود مسلم ورلڈ بھی اسے کوئی ایشو ہی نہیں مانتی اگر ہمارے کچھ بھائی مغرب یا دنیا کے کسی بھی خطے میں اپنے مذہب کی عظمت منوانے کیلئے شدت پسندی کے مرتکب ہوتے ہیں تو لازمی بات ہے اس پر اقوام دیگر کا ردعمل آئے گا۔دنیاکا مزاج اول و آخر سیکولر ہے، یہاں ہر ایشو میں مذہب کو لے آنا مناسب ہے کیا؟ ماقبل کوئی کسر رہ گئی تھی تو وہ الحمدللہ طالبان کی فتح اور اقتدار سے پوری ہو جائے گی۔ ایسے میں ہم خود کیوں بڑھ چڑھ کر پوری دنیا کے سامنے طالبان کی وکیل بننے میں کوشاں ہے ؟ کیوں موقع بے موقع یہ مطالبہ پوری دنیا سے دہراتے ہیں کہ طالبان کی حکومت کو مستحکم کرو؟ اس طرح، آگے چل کر طالبان نے جو کچھ کرنا ہے وہ سب ہمارے کھاتے میں پڑے گا ہمیں اس کا احساس کیوں نہیں ؟

طالبان کی تحریک اول وآخر خالص مذہبی ہے ہم کیوں اسے افغان قوم پرستی سے جوڑنے کی ناکام کوششیں کرتے دکھائی دے رہے ہیں ہمارا لیڈر فاٹا کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہنے پر کیوں مجبور ہے کہ ’’ان کی افغان طالبان کےساتھ بہت زیادہ ہمدردی اس لئے نہیں تھی کہ ان کا مذہبی نظریہ ایک ہے بلکہ پشتون قومیت کی وجہ سے ہے جو کہ بہت مضبوط ہے ‘‘۔ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی کے حوالے سے جب آپ دوسروں پر انگلیاں اٹھاتے ہیں تو دنیا یہ سوال نہیں کرے گی کہ خود آپ کے دامن پر اس حوالے سے جو داغ ہیں انہیں دھونے کا کیا اہتمام کر رہے ہیں ؟ کنٹینر سے یو این تک کرپشن کرپشن کا جو شور تھا، اس کا بھانڈا تو انگلینڈ کی عدالت نے پھوڑ دیا ہے اب دنیا ہمارے عدالتی نظام پر سوالات کیوں نہیں اٹھائے گی لہٰذا بہتر ہے ہم دوسروں کے ناقد بننے کی بجائے اپنی تطہیر کریں۔

تازہ ترین