• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی تیس پینتیس سال پرانی بات ہے۔ علی اکبر عباس پاکستان ٹیلی وژن لاہور سنٹر پر اسکرپٹ ایڈیٹر ہوا کرتے تھے۔ ایک شام پاک ٹی ہائوس میں انہوں نے مجھے کہا کہ تم میرے پاس پی ٹی وی کیوں نہیں آتے تو میں نے کہا ’میں کسی دوست سے ملنے کے لئے لائن میں نہیں لگ سکتا‘۔ اس جملے کا پس منظر یہ تھا کہ پی ٹی وی لاہور سنٹر کے دروازے کے ساتھ ایک کھڑکی تھی جہاں اندر جانے والوں کی اکثر لائن لگی ہوتی تھی۔ ہر پروڈیوسر صبح آتے ہی وہاں اپنی فہرست دستخط کرکے بھیجتا تھا۔ اس فہرست میں جن لوگوں کے نام ہوتے تھے، انہی کو اس کھڑکی سے اندر جانے کا اجازت نامہ ملتا تھا۔ علی اکبر عباس نے میری زخم خوردہ انا کو مجروح ہونے سے بچانے کا بندوبست کر دیا اور میں پی ٹی وی آنے جانے لگا۔ پی ٹی وی کے عروج کا وقت تھا پھر میں نے پی ٹی وی کے زوال کا وقت بھی دیکھا۔2017میں جب میں نے ڈرامہ سریل نمک کیا تو اداکاروں کو منت سماجت کرکے پی ٹی وی بلانا پڑا۔ اب بھی مجھے اکثر پاکستان ٹیلی وژن لاہور سنٹر جانے کا اتفاق ہوتا رہتا ہے۔ شام کے وقت ہونے والے ڈسکشن پروگرامز میں حصہ لیتا رہتا ہوں۔ پروگرام تو یہ اسلام آباد اسٹوڈیو سے ہو رہے ہوتے ہیں۔ مجھے لاہور اسٹودیو سے شامل کر لیتے ہیں۔ لاہور اسٹوڈیو کے حالات ابھی تک اچھے نہیں ہو سکے۔ وڈیو وہاں سے لائیو آرہی ہوتی ہے مگر آڈیو کے لئے اتنے جدید دور میں بھی ٹیلی فون استعمال کرنا پڑتا ہے۔ ایئر کنڈیشنر کے حالات یہ ہیں کہ اگر اے اسٹودیو میں چل رہے ہوں تو بی اسٹوڈیو کے اے سی آن نہیں کئے جا سکتے۔ ایسی صورت حال میں جب فواد چوہدری نے یہ حیرت انگیز ٹویٹ کیا کہ ’’ایک طویل عرصہ خسارے کے بعد اس سال پاکستان ٹیلی وژن 1.3ارب روپے منافع کما رہا ہے‘‘ میں یہ خبر پڑھ کر بےیقینی کے عالم میں حیران ہو کر رہ گیا۔ اگر یہ واقعی سچ ہے تو پھر میں پی ٹی وی کے ایم ڈی عامر منظور اور ڈائریکٹر پروگرامز اکبر ملک کو سیلوٹ پیش کرتا ہوں۔ فواد چوہدری جب پہلے پہلے اطلاعات کے وزیر بنے تھے تو ان کے کہنے پر میں نے پی ٹی وی کے متعلق ایک پریزنٹیشن تیار کی تھی اور پریشان ہو گیا تھا کہ بیس پچیس سال مسلسل ڈوبتے ہوئے اس ٹائی ٹینک کو سطح پر کیسے واپس لایا جائے۔ بہر حال یہ حیران کن کارنامہ جن لوگوں نے سر انجام دیا ہے وہ واقعی توصیف کے لائق ہیں۔ پی ٹی وی نے صدر ہائوس کی جامع مسجد سے لائیو خطبۂ جمعہ کی ٹرانسمیشن بھی شروع کی ہے جو قابلِ تحسین ہے۔ کچھ ہفتہ پہلے پی ٹی وی پشاور سینٹر کے ڈرامے ’’چراغ‘‘ کی میں نے کسی ایسے آدمی سے تعریف سنی جس کی زبان سےصرف پی ٹی وی کے ڈرامے کی تباہی کا نوحہ سننے کو ملتا تھا تو دل بہت خوش ہوا۔ پی ٹی وی حکام سے گزارش ہے کہ پنشن پر جانے والے ملازمین کے بقایا جات سب سے پہلے ادا کئے جائیں کیونکہ کسی بھی ادارے پر پہلا حق ان کے چھوٹے ملازمین کا ہوتا ہے۔ غریب مزدور کا ہوتا ہے۔ پنجاب میں مزدوروں کے لئے وزیراعلیٰ پنجاب نے مزدور کارڈ اسکیم کا اجرا کیا ہے۔گزشتہ دنوں سوشل سیکورٹی کے کمشنر سید بلال حیدر نے بینک آف پنجاب اور ایک کولا کمپنی کے ساتھ وزیراعلیٰ کی موجودگی میں ایک ایم او یو پر دستخط کئے ہیں۔ یہ کارڈ صوبہ بھر کے 11لاکھ مزدوروں کو جاری کئے جائیں گے۔ یہ مزدور کارڈ، اے ٹی ایم، ڈیبٹ کارڈ، موبائل والٹ اکاؤنٹ اور شناختی کوڈ کیلئے استعمال کیا جا سکے گا۔ سوشل سیکورٹی اسپتالوں، سرکاری اور پینل پر موجود نجی اسپتالوں میں بھی قابلِ استعمال ہوگا۔ اس کےذریعے کیش بینیفٹ کی 11سہولتیں بھی حاصل ہوں گی۔ اس کی وساطت سے مزدورہاؤسنگ، روزگار، احساس، کامیاب نوجوان اور دیگر پروگرامز سے مستفید ہو سکیں گے۔ اس کارڈسے ریلوے، یوٹیلیٹی اسٹور، باٹا، ڈوسے بیکری، الائیڈ اور اسمارٹ اسکول کی طرف سے بھی ورکروں کورعایت ملے گی۔جب سے سید بلال حیدر سوشل سیکورٹی کے کمشنر بنے ہیں، یہ ادارہ تیز رفتاری سے ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔بلا ل حیدر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ایسے افسر ہیں جنہیں جو ذمہ داری بھی سونپی گئی انہوں نے اسے بہت ہی احسن انداز میں سر انجام دیا۔

وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے پنجاب سوشل سیکورٹی اسپتال کا دورہ کیا توسوشل سیکورٹی اسپتال کے رحمت للعالمینؐ انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے آٹومیشن سسٹم کا افتتاح کیا۔ آٹومیشن سسٹم سے رحمت للعالمینؐ انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پیپر لیس دور میں داخل ہو گیا یہ پہلا سرکاری اسپتال ہے جہاں کاغذ کا استعمال نہیں ہو گا۔ مریضوں کو علاج کیلئے اپنے ساتھ طبی رپورٹیں اور دیگر کاغذات لانے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔ ملتان روڈ لاہور پر کم آمدنی والے لوگوں کے لئے یہ جدید ترین اسپتال بلاشبہ کسی تحفے سے کم نہیں۔ ان دنوں وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے ایک اور تحفہ بھی اہلِ لاہور کو دیا ہے۔ یہ تحفہ لاہور کے ڈپٹی کمشنر عمر شیر چٹھہ ہیں۔ عمر شیر چٹھہ نے میانوالی ضلع کو جس طرح پسماندگی سے نکالا، وہ ان سے پہلے کوئی اور ڈپٹی کمشنر نہیں کر سکا اور اس وقت وہ لاہور کو ایک نئے لاہور میں بدلنے کے لئے کوشاں ہیں۔

میں نے انہیں مجلس ترقی ادب کے دفتر کے وزٹ کی دعوت دی تھی کہ لاہور ادبی میوزیم اور لاہور ادبی چائے خانہ بنا نے میں ہماری مدد کریں۔ انہوں نے اس سلسلہ میں جو کچھ سوچا وہ مجھے بہت اچھا لگا۔ توقع ہے کہ جلد مجلس ترقی ادب کے یہ دونوں پروجیکٹ اہلِ لاہور کی خدمت میں پیش کر دیے جائیں گے۔ ان شاءاللہ اگلے ہفتے وزیر اعلیٰ پنجاب مجلس ترقی ادب کی نئی عمارت کا سنگِ بنیاد رکھیں گے اور ادبی میوزیم اور ادبی چائے خانہ کا افتتاح کریں گے۔

تازہ ترین