• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قوم کو نیا صدر مبارک ہو
صدر مملکت بری، بحری اور فضائی افواج کا سپریم کمانڈر بھی ہوتا ہے سو دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک یعنی افواج پاکستان کو بھی نیا سپریم کمانڈر مبارک ہو ۔ ہمارے مشہور زمانہ منصفانہ، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ الیکشن کے نتیجہ میں پی ٹی آئی فیم ”نیا پاکستان“تو کہیں نظر آئے نہ آئے …نیا وزیر اعظم، نئی کابینہ اور اب نیا صدر ضرور موجود ہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اتنا کچھ ”نیا “ ہونے کے باوجود دہشت گردی، لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بدامنی و بے ایمانی اور کرپشن وہی پرانی کی پرانی ہے ۔ بیش قیمت بلٹ پروف گاڑیوں کے آگے ناچنے والوں کی محرومیاں اور دکھ بھی وہی پرانے ہیں اور اس میں قطعاً کوئی شک نہیں کہ ”جمہوریت بہترین انتقام ہے “
نئے صدر کا تعلق آگرہ سے ہے جسے میں نے زندگی میں صرف ایک بار دیکھا اور دوسری بار دیکھنے کی حسرت تھی جو اب باقی نہیں رہ گئی کیونکہ صدر صاحب کو دیکھ کر ہی رانجھا راضی کر لیا کریں گے۔ آگرہ کے بارے میں اک سپرہٹ گیت بھی مجھے بہت پسند ہے جسے تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ پیش کر رہا ہوں، گیت کا ”مکھڑا “ کچھ یوں بنتا ہے ۔
جب گھومے میرا گھاگرہ
تو جھومے پنڈی آگرہ
نئے صدر کی وجوہات شہرت میں دودھ ربڑی، دہی بھلے اور دودھ جلیبی سرفہرست ہیں تو حیرت کیسی کیونکہ یہ سارے آئیٹم آگرہ کی پہچان ہیں جیسے ناگپور کا سنگترہ، لائل پور کا مرغ پلاؤ، حیدر آباد کے چاقو چھریاں، متھرا کے پیڑے، قصور کی میتھی، بنارس کے ٹھگ، دلی کے بانکے، گوجرانوالہ کے چڑے، امرتسر کی وڑیاں یا بڑیاں اور کمالیہ کا کھدر اس کی پہچان ہے ۔
آگرہ اور اس کا جڑواں شہر فتح پور سیکری میری کمزوریاں ہیں ۔آگرہ کا تاج محل تو عجائبات عالم میں سے ایک ہے امریکن صدر بل کلنٹن نے تاج محل دیکھ کر بڑی خوبصورت بات کہی تھی کہ …”دنیا میں دو ہی قسم کے لوگ بستے ہیں ایک وہ جنہوں نے تاج محل دیکھا اور دوسرے وہ جنہوں نے تاج محل نہیں دیکھا “ لیکن یہ زہریلی حقیقت بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ تاج محل بنوانے والے مغلوں کا تو نام ونشان بھی مٹ گیا لیکن تاج محل بنانے والوں کی اولادیں آج بھی نہ صرف زندہ ہیں بلکہ آج بھی وہی کام کر رہی ہیں جو صدیوں پہلے ان کے بزرگوں نے تاج محل میں کیا تھا ۔میں آگرہ میں ان کاریگروں سے ملا ہوں جو آج بھی سنگ مرمر پر وہی نقاشی کر رہے ہیں جو کبھی ان کے فنکار بزرگوں نے تاج محل میں کی تھی ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آج وہ تاج محل نہیں سنگ مرمر کے بڑے بڑے ٹیبل ٹاپس (TABLE TOPS)پر اپنا جادو جگاتے ہیں جو لاکھوں ڈالرز میں بکتا ہے ۔ بادشاہت مر جاتی ہے محنت و مہارت روپ دھار دھار کر زندہ رہتی ہے ۔
آگرہ کے پہلو میں فتح پور سیکری مغل اعظم جلال الدین محمد اکبر نے اپنے دادا ظہیر الدین بابر کی فیصلہ کن فتح کی یاد میں آباد کیا جو ڈھنگ سے آباد نہ ہو سکا کہ زیر زمین پانی نے ظل سبحانی کے شاہی ارادوں پر محاورے والا پانی پھیر دیا تھا … انسانی منصوبوں کی اوقات ہی کیا ؟ اپنے لئے نہیں عوام کیلئے کیا گیا زندہ رہتا ہے باقی سب پر پانی ہی پھر جاتا ہے ۔
شریف خاندان اپنے محیر العقول عروج کے نصف النہار پر ہے اور نصف النہار پر تو سورج بھی ہو تو اس کے پاس زوال کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ انہیں آئے نہ آئے مجھے خوف آ رہا ہے ۔
پہلے بھی جب یہ ایسے ہی عروج کی انتہا پر زوال کے پاتال کی طرف روانہ ہوئے تو میں ویران، برباد بے آباد جاتی عمرا سے گزرتے وقت بہت اپ سیٹ ہو جایا کرتا تھا انہی دنوں میں نے ”جاتی عمرا سے صدا آتی ہے “کے عنوان سے ایک کالم لکھا جسے پڑھ کر ان کے حریف بھی اداس ہو گئے تھے لیکن اتنے بڑے جھٹکے کے بعد بھی انہوں نے جو سیکھا وہ سب کے سامنے ہے ۔ مصاحب نہیں جینوئن مشیر، درباری نہیں دوست، ممنون نہیں کھری بات کرنے والے مجنون لیکن نہیں کیونکہ جو اقتدار تک پہنچ جائے وہ تو ”عقل کل“ ہوتا ہے سو آؤ کسی اگلے بابرکت راؤنڈ کا انتظار کریں جس کے بعد نہ کوئی راہ نہ پناہ نہ مزید مہلت گناہ … ہفتوں کے اندر اندر کرپشن کے اتنے سکینڈلز تو حضور !ثابت تو ابھی تک کسی بڑے کا کچھ بھی نہیں ہو سکا لیکن ” پرسیسپشن “ بہت بھیانک ہوتی ہے اور دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں آگ ہو ، رائی کا پہاڑ بھی تب ہی بنتا ہے جب رائی موجود ہو اور جو لوگ اپنی ”ساکھ “ نہیں سنبھال سکتے وہ کچھ اور بھی نہیں سنبھال سکتے ۔ …سنبھلو!
بات چلی تھی نئے صدر مملکت اور پاک فوج کے نئے سپریم کمانڈر ممنون نواز … سوری ممنون حسین آگروی اور
ان کے آگرہ سے تو عرض کروں کہ آگرہ یاترا میں پاکستان کا اک حسین ترین شاعر نذیر قیصر بھی میرے بلکہ میں اس کے ساتھ تھا ۔نذیر قیصر مسیحی عاشق رسول ہے ۔ اس کا یہ نعتیہ شعر میری روح پر رقم ہو چکا ،
میں اور منزل دور کی
چھتری کھلی کھجور کی
نذیر قیصر کا نعتیہ مجموعہ میری ادبی محبتوں میں سرفہرست ہے اسی نذیر قیصر کے یہ تازہ ترین شعر تازیانوں سے کم نہیں
جو باقی کچھ کہانی رہ گئی ہے
فقط جادو بیانی رہ گئی ہے
یہ روز وشب کھنڈر ہوتی حویلی
بزرگوں کی نشانی رہ گئی ہے
زمیں سب حشر برپا کر چکی ہے
بلائے ناگہانی رہ گئی ہے
سبھی مہرے ہٹائے جا چکے ہیں
بساط حکمرانی رہ گئی ہے
اسی میں گھومتے رہنا ہے قیصر
بھنور میں جو روانی رہ گئی ہے
ممنون حسین کو صدر منتخب کرا لینے کے جشن سے فارغ ہوں تو وزیر اعظم صاحب یہ غزل بھی پڑھ لیں اور اسے ذرا بہتر طور پر سمجھنے کیلئے چاہیں تو محبوبی و محبی عطاء الحق قاسمی کو بھی طلب فرما سکتے ہیں کہ شادی تو اسحق ڈار کے بس کی بات نہیں۔
آخر پر ایک بار پھر عوام کو نیا صدر اور پاک فوج کو ان کا نیا سپریم کمانڈر مبارک ہو !
بے شک ” جمہوریت بہترین انتقام ہے “…لیکن کس سے ؟؟؟
آخر پر آؤ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ مل کر نعرہ لگائیں۔
”دودھ جلیبی زندہ باد“
”دھی بھلے زندہ باد“
”دودھ ربڑی زندہ باد“
تازہ ترین