• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں آج آپ کو جو کہانی سنانے لگا ہوں، اس کے سارے کردار اقتدار کے ایوانوں میں موجود ہوتے ہیں، ایوان صدر میں بھی۔ ایوان وزیراعظم میں بھی اور ایوان ہائے وزرائے اعلیٰ میں بھی۔ ان سب کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ صاحبان اقتدار کوان کے حقیقی دوستوں سے دور کر دیا جائے۔ نیز آہستہ آہستہ حیلے بہانے سے انہیں ان کے اختیارات سے محروم کیا جاسکے۔ یہی لوگ ان سے غیر قانونی کام غیر قانونی موشگافیوں سے کروانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور ان کے قانونی احکام غیر قانونی موشگافیوں سے خود ان کے قلم سے ”کالعدم“ قرار دلوانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تاکہ ان کی جگہ ان کے اور ان کے مفاداتی دوستوں کا بھلا کیا جاسکے۔ جس کا نتیجہ ایک دن وہی نکلتا ہے جو اس کہانی کے اختتام پر آپ کو نظر آئے گا۔ تاہم اس کہانی سے قطع نظر ایک مشورہ صاحبان اقتدار کیلئے ہے جو انہیں اس انجام سے بچا سکتا ہے، جس انجام کو ان کے دشمن انہیں پہنچانا چاہتے ہیں، مشورہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو بہت سوچ بچار کے بعد بھی انہوں نے ذمہ داریاں سونپی ہوں وہ ان کی کسی بات پر یقین کرنے اور اس پر عمل کرنے سے پہلے کچھ دیر خودبھی غور و فکر کر لیا کریں کہ کہیں اس مشورے کے پیچھے کچھ اور عوامل بھی تو نہیں ہیں؟ چلیں چھوڑیں ان باتوں کو آپ شیر اور اس چالاک طبقے کی کہانی پڑھیں اور اگر ہوسکے تو اس سے لطف اندوز بھی ہوں، سو کہانی کچھ یوں ہے۔
کہانی اور اس کا آغاز اور انجام؟
یہ ایک شیر اور لومڑی کی کہانی ہے، ظاہر ہے شیر بہت طاقتور تھا اور لومڑی اس کے مقابلے میں بہت کمزور، مگر چالاکی میں پورے جنگل میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا، ایک دفعہ شیر اور لومڑی میں کسی بات پر ٹھن گئی، لومڑی کے دل میں گرہ بیٹھ گئی اس نے شیر کو بے دست و پا بنانے کا ارادہ کرلیا۔
لومڑی نے جنگل میں ایک بیوٹی پارلر کھول لیا اور جنگل کے بادشاہ سے استدعا کی کہ وہ اس کا افتتاح کرے، جنگل کا بادشاہ یعنی شیر یہ سن کر ہنسا اور اس نے کہا ”بناؤ سنگھار کے کاموں سے میرا کیا تعلق، یہ کام تم کسی اور سے کراؤ، ”لومڑی بولی“ عالی جاہ میں آپ کی ریپوٹیشن بہتر بنانا چاہتی ہوں، آپ کے متعلق آپ کے دشمن روزانہ نت نئی افواہیں پھیلاتے ہیں، آپ کو تنگ نظر مشہور کیا جارہا ہے، قدامت پسند کہا جارہا ہے اور آپ کو روشن خیالی کا دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آپ بیوٹی پارلر کا افتتاح کریں گے تو آپ کے متعلق یہ افواہیں خود بخود دم توڑ جائیں گی شیر نے ایک لمحہ اس کی بات پر غور کیا اور پھر افتتاح کی حامی بھر لی۔
شیر نے بیوٹی پارلر کا فیتہ کاٹا، ریچھ، گیڈر، لگڑبگڑ اور دوسر ے جانوروں نے بھرپور تالیاں بجائیں، اسٹیج سیکرٹری بندر تھا، اس نے پہلے تو اچھل کود کر داد دی پھر مائیک پر آکر کہا ”شہنشاہ دوراں“ آج آپ نے اس محفل میں تشریف لا کر ثابت کردیا ہے کہ آپ ایک روشن خیال حکمران ہیں، بناؤ سنگھار کی سرپرستی سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ آپ احساس جمال سے بہرہ ور ہیں، آپ خوبصورتی اور حسن پسند کرتے ہیں، یوں آپ کی ذات کے حوالے سے کیا جانے والا یک طرفہ پراپیگنڈہ زائل ہوگیا ہے۔ شیر کو یہ ساری باتیں عجیب سی لگ رہی تھیں مگر اس نے حاضرین کو تالیاں بجاتے دیکھا تو ان باتوں سے اس کی اجنبیت کم ہونے لگی، تقریب کے بعد لومڑی لہنگا پہن کر اسٹیج پر آئی، اس نے سات بار جھک کر شہنشاہ سلامت کو سلام کیا اور کہا ”یہ باندی آپ کی آمد کا شکریہ ادا کرتی ہے، اب آپ کی آمد کی خوشی میں مجرا پیش کرتی ہے“ پھر اس نے جی بھر کر مجرا کیا، شیر پہلے تو حیرت سے یہ سب کچھ دیکھتا رہا پھر اسے لطف آنے لگا چنانچہ رقص و سرور کی یہ محفل ساری رات جاری رہی!
صبح لومڑی جنگل کے دوسرے جانوروں کے پاس گئی اور کہا ”شیر کی چیر دستیوں میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے، اب تو وہ مجھ ایسی شریف زادیوں سے زبردستی مجرا بھی کرواتا ہے، پہلے اس کے ہاتھوں جان محفوظ نہیں تھی، اب کسی کی عزت بھی محفوظ نہیں رہی، اس طرح کی دو تین ملاقاتوں کے نتیجے میں وہ شیر کے خلاف جنگل کے جانوروں کا ایک اتحاد تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئی، اس اتحاد میں چیتا، ریچھ، بھیڑیااور لگڑبگڑ کے علاوہ بہت سے دوسرے جانور شامل تھے۔
ایک دن لومڑی شیر کے پاس گئی اور کہنے لگی ”ظل الٰہی،جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں؟ ظل الٰہی اس وقت ایک ہرن نوش جاں فرمانے کے بعد اونگھ رہے تھے غنودگی کے عالم میں بولے ”کہو“ لومڑی نے دست بستہ عرض کی ”شہنشاہ دوراں، آپ کی روشن خیالی کی دھوم تو پورے جنگل میں ہے،لیکن چیتے، ریچھ، بھیڑیئے اور لگڑ بگڑ نے آپ کے خلاف ایک کولیشن تشکیل دی ہے۔ آپ جانتے ہیں یہ بہت ظالم جانور ہیں، ان سب سے بیک وقت ٹکرانا مصلحت کے خلاف میرے پاس ایک تجویز ہے۔ جس پر عمل کرنے سے ان کے غبارے سے ہوا نکالی جاسکتی ہے۔ شیر نے غصے میں دھاڑتے ہوئے کہا ”تجویز پیش کی جائے“ لومڑی بولی ”بادشاہ سلامت، آپ کے خلاف سارا پروپیگنڈہ آپ کے پنجوں اور آپ کے جبڑے کی وجہ سے ہے تو اس پر شیر نے غصے سے لومڑی کو دیکھا اور دھاڑتے ہوئے کہا ”تو کیا میں یہ نکلوا دوں“ لومڑی بولی ”خدا نہ کرے ایسا ہو لیکن آپ صرف پنجوں کے ناخن کٹوا دیں اور سامنے والے دانت نکلوا دیں تو آپ کی طاقت بھی بحال رہے گی اور دشمن کا پراپیگنڈہ بھی خاک میں مل جائے گا۔ شیر کو ڈر تھا کہ کہیں چیتے اور بھگیاڑ مل کر اس کی بادشاہت کا خاتمہ نہ کردیں۔ اس نے بادل نخواستہ لومڑی کی یہ تجویز منظور کرلی ۔اگلے روز شیر شکار کے لیے اپنے کچھار سے نکل کر ایک ہرن پر جھپٹا، اس نے دوڑ لگا دی، کئی کلومیٹر دوڑنے کے بعد شیر نے اسے قابو کرلیا، لیکن جب اس کے جسم میں اپنے پنجے گاڑھنا چاہے تو ناخن نہ ہونے کی وجہ سے یہ پنجہ پھسل گیا اور اپنے دانت ہرن کی گردن میں گاڑنے کی کوشش کی تو یہ کوشش بھی ناکام رہی اس جدوجہد کے دوران ہرن اپنی جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہوگیا، اس کے بعد شیر نے کئی دوسرے جانوروں پر قسمت آزمائی کی لیکن کوئی بھی اس کے قابو نہ آیا، شام تک بھوک کے مارے اس کا برا حال ہوگیا اور بالآخر وہ نڈھال ہو کر گر گیا!
اس کی آنکھیں اس وقت خوشی سے چمک اٹھیں جب اس نے رات کو لومڑی کو اپنی کچھار میں آتے دیکھا، لومڑی اسے دیکھ کر نہ کورنش بجالائی نہ اسے ظل الٰہی یا شہنشاء دوراں کہا بلکہ ایک فاصلہ سے اسے مخاطب کیا اور طنزیہ انداز میں کہا ”بھوک تو بہت لگی ہوگی“ شیر نے نقا بت سے کہا ”ہاں بہت زیادہ ! تم میرے لیے کھانے کا بندوبست کر و۔ میں نے تمہارے مشورے پر اپنے ناخن کٹوا کے اور اگلے دو دانت نکلوائے۔ اب یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ میرے پہلے لیے دو وقت کے گوشت کا بندوبست کرو“ لومڑی نے یہ سن کر قہقہہ لگایا اور کہا“ بیوقوف چوپائے کوئی کسی کے لیے کچھ نہیں کرتا… ہاں تمہارے ساتھ چونکہ ایک تعلق بن گیا ہے میں تمہارے لیے گوشت تو نہیں گھاس کا انتظام کرسکتی ہوں۔“
یہ سن کر شیر کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ وہ اس پر حملہ کرن کے لیے جھپٹا مگر لومڑی جو پہلے سے چوکس تھی اور شیر جو ایک دن کے فاقے سے نڈھال تھا اسے پکڑنے میں ناکام رہا۔
تیسرے دن لومڑی پھر اس کے پاس آئی شیر نیم بے ہوشی کی حالت میں پڑا تھا۔ اس نے لومڑی کو دیکھا تو کہا ”مجھے گھاس کھانا منظور ہے، خدا کے لیے کہیں سے میرے لیے گھاس کا انتظام کراؤ، میں تو چل پھر کر اب گھاس بھی تلاش کر نے کے قابل نہیں رہا۔لومڑی نے شیر کی بے بسی دیکھتی تو اس کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ اس نے کہا گھاس بھی تمہیں اس شرط پر مل سکتی ہے کہ تم اپنے منہ سے میاؤں کی آواز نکال کر دکھاؤ یہ سن کر شیر کا جی چاہا کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے، لیکن اب اسے اپنے وقار سے زیادہ اپنی جان عزیز تھی چنانچہ شیر نے اپنا جی کڑا کر کے منہ سے میاؤں کی آواز نکالی اور رحم طلب نظروں سے لومڑی کو دیکھنے لگا۔
لومڑی نے اسے حقارت سے دیکھا اور کہا یہ میاؤں کی آواز تم نے صحیح نہیں نکالی، کچھ دن اور ریاضت کروجب تم میاؤں کی آواز بالکل صحیح نکالنے میں کامیاب ہوجاؤ گے اس دن سے تمہیں باقاعدگی سے گھاس ملنا شروع ہوجائے گی۔
آخری اطلاعات آنے تک یہ شیر ان دنوں منہ سے میاؤں کی آواز نکالنے کی ریاضت میں مشغول ہے اور اسے اس میں کافی دسترس حاصل ہوتی جارہی ہے۔
بریکنگ نیوز
ابھی ابھی خبر موصول ہوئی ہے کہ یہ شیر بالآخر فاقوں کی وجہ سے فوت ہوگیا ہے اور اب اس کا شیربیٹا تخت نشین ہے اور آخر خبریں آنے تک وہ اپنے پیشرو کے انجام سے سبق سیکھنے کے عزم کا اظہار کررہا ہے۔ تاہم اس کے گرد گھیرا ڈالنے والے ابھی تک اہم آسامیوں پر متمکن ہیں اور انہوں نے ابھی سے بادشاہ سلامت کو ان تمام لوگوں سے دور رکھنے کی کوششیں تیز کردی ہے۔جو ہر مشکل مرحلہ میں اس کے ساتھ رہے ہیں۔
تازہ ترین