• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حماقتوں کا موسم شگوفے کھلارہا ہے، پاکستان کوخود اس سے بچانے کاموسم آچکا۔ بتایا جارہا ہے کہ ہماری نااہل اور بدعنوان جمہوریت کام نہیں کررہی ، ہم پھر ایک دوراہے پر کھڑے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اگر ہمارے جنگ آزما، احتساب کے حامی، درست سوچ رکھنے والے جوان نہ ہوتے تو ہم اس وقت تک ٹوٹ کر بکھر چکے ہوتے۔ ڈرایا جارہا ہے کہ اگر ہم نے اس گندی جمہوریت کو بہتی گنگا میں مزید ہاتھ دھونے دئیے تو کچھ نہیں بچے گا۔ چنانچہ وقت آگیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے قوم کے وسیع تر مفاد میں سیاسی گند صاف کرے۔
ہم اس بحث سے جان چھڑا کر آگے کیوں نہیں بڑھ سکتے ؟کیا ہم یہ نہیں سمجھ سکتے کہ ہماری جمہوریت کو تبدیلی کی ضرورت ہے؟ تسلیم کہ یہ گندی ہے، ناقص، غیر فعال اوربے کردارہے، جتنا چاہے برا بھلا کہہ لیں ، لیکن کیا اس کا جواب غیر جمہوری قوتوں کی حکمرانی ہے؟کیا ہم نے یہ خود پر فرض کرلیا ہے کہ ہم ہردس سال بعد اسی حمام ِ گردباد میں بند ہو کر لانڈری کی کوشش کریں گے جس نے ہمیں ہر مرتبہ پہلے سے بھی زیادہ آلودہ کیا ہے ؟سب سے پہلے پچاس کی دہائی میں ہم پر یہ انکشاف ہوا تھا کہ جمہوریت ناکام جارہی ہے ، اور پھرایک عشرہ ایوب خان کے نام رہا۔ اس کے بعد ستر کی دہائی میں پھر جمہوریت کی ناکامی نے ہمارے دل پر کچوکے لگانا شروع کردئیے اور لیجیے،مزید ایک عشرہ ضیا الحق نے گزار دیا۔ کہانی آگے بڑھتی ہے۔ نوّے کی دہائی میں ایک مرتبہ پھر ناکام جمہوریت کا ورد اور پرویز مشرف کی آمد،کم و بیش ایک عشرہ پھر اسٹیبلشمنٹ کی سنگت میں ۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک بار پھر ہمیں وہی دورہ پڑنے لگا ہے ۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ عوام کو جمہوریت سے بیزارہونے کے لئے پانچ سات سال کا عرصہ مرحمت کرتی ہے ۔ اس دوران اُس کی زیر ِ نگرانی قائم ہونے والی جمہوریت عوام کی غلط فہمی دور کردیتی ہے اور وہ پھر کسی مسیحا کے لئے چشم براہ ہوجاتے ہیں۔ کسی بھی آمر کی رخصتی کے بعد ایک دوسال تک مقتدر ادارہ سیاست سے دور رہتے ہوئے سب سے دادوتحسین وصول کرتا ہے ۔ اس کے بعدساز وں کو کسا جاتا ہے ، مدہم سروں میںہلکی پھلکی موسیقی چھیڑی جاتی ہے ، محفل کا رنگ دیکھا جاتا ہے ۔ گویا محدود سی مداخلت، اور یقینا ریاست کو چلانے جیسا سنجیدہ کام نااہل سیاست دانوں کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اس کے بعد ’’عوامی مطالبہ ‘‘شدید ہونے لگتا ہے اور ریاست کو سنبھالنے کے لئے پردے کے پیچھے سے کنٹرول کیا جاتا ہے ۔ پھر عوام بے چین ہوکر ’’مٹ جائے گی مخلوق تو۔۔۔‘‘ جیسے شعر پڑھنے لگتے ہیں، ملک وقوم کا درد کا دسترخوان بچھ جاتا ہے ، ریاست کی نائو کو طوفان سے نکال کر محفوظ کنارے(یا مزید گہرے پانیوں؟) تک لے جانے کی فریاد زور پکڑنے لگتی ہے، اور پھر ظاہر ہے کہ نقارہ ٔ خدا کو کون نظر انداز کرسکتا ہے ۔ ناخدا آگے بڑھتے ہیں۔
پاناما انکشافات کے بعد ہم تذبذب کے عالم میں ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ہمارے بچائو کی جنگ لڑرہی ہے، جبکہ اُسے بدعنوان سیاست دانوں کی طرف سے کوئی تعاون میسر نہیں آرہا۔ سیاست دان بس اپنی جیبیں بھرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ آرمی چیف ، جو بہت پیشہ ور اور باوقار افسر ہیں اوریقینا کوئی سیاسی عزائم نہیں رکھتے ، حکومت کو بارہا مشورہ دیتے ہیں کہ گورننس کو درست کیا جائے کیونکہ اس کے بغیر دہشت گردی کا قلع قمع نہیںہوگا، اور نہ ہی یہ جنگ جیتی جاسکے گی۔ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ دہشت گردی کو شکست دینے کے لئے بدعنوانی کا خاتمہ ضروری ہے ۔ اُنھوں نے صرف سویلین کو لیکچر ہی نہیں دیا، اپنے ادارے میں بھی بدعنوانی کے الزام میں سینئر افسران،جن میں کچھ جنرل بھی شامل تھے، کو برطرف کیا ہے ، اور ایسا کرتے ہوئے جوانوں کے مورال پر پڑنے والے منفی اثر کو خاطر میںنہ لایا گیا۔ گمنام ذرائع کی خبریں بھی ڈھونڈلائے ہیں کہ حالیہ ملاقات میں وزیر ِ اعظم سے کہا گیا ہے کہ جتنی جلدی ہوسکے ، پاناما اسکینڈل سے اٹھنے والی گرد کو صاف کیا جائے ۔ ہمیں بتایا جارہا ہے کہ اگر اب بھی وزیر ِ اعظم نے یہ صائب مشورہ ایک کان سے سن کر دوسرے سے اُڑادیا تو اس سے نہ صرف سیاسی درجہ حرارت بڑھے گا بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور قومی ترقی کو بھی نقصان پہنچے گا۔ تو یقینا اس وقت حب الوطنی کا تقاضا کچھ اور ہے۔
کسی ساز ش کے تانے بانے نہیں بنے جارہے ، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جوانوں کی قربانیوں کی اہمیت سے انکار ناممکن ، او ر نہ ہی ’’سسٹم ‘‘ کو بچانے کے نام پر سیاست دانوں کی بداعمالیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے ، بلکہ میں صرف اپنے آپ کو یاد دلارہا ہوں کہ ایک مرتبہ پھر پاکستان کو بچانے کا موسم اُسی طرح آچکا ہے جس طرح پہلے بھی متعدد مواقع پر آیا تھا،اور ہر مرتبہ کم بخت جمہوریت ناکام دکھائی دیتی تھی۔ لیکن کیا جمہوریت کی ناکامی کی عادت یاد رکھتے ہوئے ہم یہ بھول جائیں گے بچائو کے لئے آنے والے بھی بری طرح ناکام ہوئے تھے ؟یہ یاد رکھنا گستاخی تو نہ ہوگی؟ہو سکتاہے کہ آپ کے ہاتھ میں بہترین ہتھوڑا ہو، لیکن جہاں پیچ کس کی ضرورت ہو ، وہاں ہتھوڑا کام نہیں دے گا۔ یاد رکھیں، پاکستان کے مسائل کا حل کوئی ’’ایماندار جنرل ‘‘ نہیں ہے ۔
ایک آرمی چیف کے پاس اس قدر طاقت اور اختیار اس لئے ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک منظم ، ڈسپلن اور فعال ادارے کے سربراہ ہوتے ہیں۔ یہ ادارہ بھرپور ریاستی وسائل رکھتا ہے ۔ اس کے علاوہ اس میں میرٹ اور نظم پر کسی طورسمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔ پاکستان کا مسئلہ یہی ہے کہ وہ دیگر اداروں کو ان خطوط پر منظم اور فعال نہیں کرسکا۔ اس کی وجہ سے سول ملٹری عدم توازن دکھائی دیتا ہے ، چنانچہ عوام سمجھنے لگتے ہیں کہ اُن کے مسائل کا حل بدعنوان اور نااہل سیاسی اداروں کی بجائے اس منظم ادارے کے پا س ہے ۔ مزید ستم یہ کہ سویلین دور میں بھی مداخلت کا خطرہ سیاسی قیادت کا خون خشک رکھتا ہے ، اور وہ محض مداخلت کے خوف سے اپنا احتساب نہیں ہونے دیتے، مبادہ کوئی گند صاف کرنے آجائے ۔ وہ افراد جو جمہوریت کو بلاروک ٹوک اپنا سفر جاری رکھتے دیکھنا چاہتے ہیں، وہ بھی حیران ہوتے ہیں کہ کیا وہ سیاست دانوں کے کڑے احتساب کی بات کرکے غیر سیاسی قوتوں کے ہاتھ تو مضبوط نہیں کررہے ؟اس کے علاوہ جب بھی مداخلت ہوتی ہے تو سیاسی قیادت کے ناقابل ِ معافی گناہ بھی مظلومیت کے پانی سے دھل جاتے ہیں ۔زرداری حکومت کے پانچ سالہ دور میں ہمیں خبردار کیا گیا کہ سوئس حکام کو خط لکھنا جمہوریت کے خلاف سازش ہوگی۔ ہمیں کہا گیا کہ سیاست دانوں کا احتساب عدالت میں نہیں، عوام کی عدالت میں ہوتا ہے ۔ اس وقت شریف فیملی کے خلاف لگنے والے الزامات کے موقع پر اختیار کی جانے والی دفاعی لائن بھی اس سے مختلف نہیں۔ وزیر ِاعظم نے قوم سے خطاب کے دوران اپنی مظلومیت کواجاگر کرنے کی کوشش کی۔
تاہم جس طرح بے نظیر بھٹو اور زرداری کے اثاثوں کی چھان بین سے کوئی آسمان نہیں گرا، شریف فیملی کے اثاثوں کی جانچ سے بھی کچھ نہیںہوگا۔ ہم احتساب کے نعروں کے دوران یہ بھی سنتے رہے ہیں کہ پہلا پتھر وہ مارے جس کااپنا دامن صاف ہو۔ چنانچہ ایک ایسے ملک میں جہاں روایتی نظام ِ انصاف درست کارکردگی نہ دکھارہاہو، وہاں جمہوریت کو غیر فعالیت یا ناقص کارکردگی پررخصت کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ہمار ے ہاں ایسا کوئی سیاسی یا قانونی نظام موجود ہی نہیں ہے جس پر سیاست دانوں کے گناہوں یا بے گناہی کاتعین کیا جاسکے ۔
آج کل نواز شریف کے حامی یہ موقف اپنائے ہوئے ہیں کہ سمندر پار اکائونٹس کا الزام لگانے والوں کے اپنے ہاتھ صاف نہیں۔ یہ ایک ناقص دلیل ہے ، کیونکہ ایک غلط کاری دوسری غلط کاری کا جواز فراہم نہیں کرتی۔ اگر وزیر اعظم صاحب نے قانونی طریق کارکو مبہم بناتے ہوئے ان کے پیچھے پناہ لینے کی کوشش کی تو اس کا اُنہیں سیاسی نقصان ہوجائے گا۔ یہ دلیل بھی خطرناک ہے کہ ایک سیاست دان کے احتساب سے نظام کے خطرے کی دہائی دی جاتی ہے ۔ اگر وزیر ِاعظم خود کو پیش نہیںکرتے ہیں توان کے لئے پارلیمنٹ میں آنا ممکن نہیںہوگا۔ اس پر بھی اپوزیشن خوش ہوگی۔کیا ہم ایک مرتبہ پھر 90کی دہائی میں قدم رکھ رہے ہیں؟
تازہ ترین