• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
( آخری قسط)
گزشتہ 25 اقساط میں پانی کے انتظام و انصرام کے حوالے سے اُن تمام مسائل کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو ہماری موجودہ نسل کو درپیش ہیں اور جن کا سامنا ہماری آئندہ نسل کو بھی رہے گا۔ اِسی دوران علم میں آیا اور عالمی تجربات بھی اس بات کے شاہد ہیں کہ آبی مسائل کا حل سیاسی قیادت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ پاکستان جیسے ملک میںلوگ آبی مسائل کے بارے میں بہت جذباتی ہوجاتے ہیں لہٰذا یہ گمبھیر صورت اختیار کرچکے ہیں اور ان مسائل سے نبردآزما ہونا زیادہ مشکل ہے۔ ہمارے وفاقی نظام میں پانی کے معاملات صوبائی دائرہ اختیار میں شامل ہیں اور اسی وجہ سے ہمیں تمام صوبوں کیلئے یکساں لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ تاحال ہم آبی مسائل کے حل کیلئے کسی بھی لائحہ عمل کی تشکیل کی جانب پیش رفت نہیں کرپائے ہیں اور اس کی وجہ کالاباغ ڈیم منصوبے پرہماری باہمی رضامندی کا فقدان ہے۔اس لحاظ سے کالاباغ ڈیم منصوبے پر اتفاقِ رائے کا حصول ہماری فوری اور اشد ضرورت ہے کیونکہ اس تنازع کے حل کی بدولت ہم اس قابل ہوپائیں گے کہ اپنے دیگر نسبتاً زیادہ اہم آبی مسائل حل کرنے کیلئے بھی کسی سمجھوتے تک پہنچ سکیں۔
اِسی مقصد کے پیش نظر مضامین کے اس سلسلے میں دیانتداری کے ساتھ اس بات کی کوشش کی گئی کہ کالاباغ ڈیم کے بارے میں گزشتہ 25 سال سے جو غلط تصورات یا واہمے ہیں، اُنہیں دور کیا جائے۔ چنانچہ اس بات کی اُمید کی جاسکتی ہے کہ ذرائع ابلاغ کی مدد سے حقائق پر مبنی معلومات اِس بارے میں بہتر ذہنی ہم آہنگی کا باعث ثابت ہوں گی۔اورکالاباغ ڈیم کی تعمیر پر کسی معاہدے کے ساتھ ساتھ ہم اپنے حقیقی آبی مسائل حل کرنے کیلئے بھی کوشش کر سکتے ہیں۔ مذکورہ مقصد کے حصول کیلئے کچھ تجاویز حسب ذیل ہیں:
-1مشترکہ مفادات کونسل کے آئینی انتظام کے تحت وزرائے اعلیٰ پر مشتمل کمیٹی ملک کو درپیش آبی مسائل کا جائزہ لے۔
-2 وزرائے اعلیٰ کی کمیٹی کو یہ ذمہ داری تفویض کی جائے کہ وہ درج ذیل مسائل کا حل تلاش کرے۔
الف۔پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کا بنظرِ عمیق جائزہ لیکر سندھ طاس میں پانی کے بہائو پر اُس کے اثرات سے عہدہ برآ ہونے کیلئے ایک طویل مدتی لائحہ عمل کی تشکیل
ب۔پانی کی قیمت کا تعین کیا جائے اور بتدریج اضافہ کرتے ہوئے اسے حقیقی سطح پر لانا۔
ج۔زمین سے پانی کشید کرنے کیلئے اصول و ضوابط وضع کرنا
د۔صنعتی، زرعی اور شہری استعمال کی وجہ سے پانی کو آلودگی سے بچانے کیلئے لائحہ عمل
ر۔آبادی کی شرح میں اضافہ کی وجہ سے پانی کی دستیابی اور معیار پر مضر اثرات کا جائزہ اور ان کے تدارک کیلئے اقدامات
وزرائے اعلیٰ کی مجوزہ کمیٹی ، اِن مقاصد کیلئے ماہرین کی خدمات حاصل کرسکتی ہے۔جہاں تک کالاباغ ڈیم کا مسئلہ حل کرنے کا تعلق ہے، تو یہ معاملہ اس منصوبہ کے بارے میں اقتصادی اور تکنیکی حقائق کی بجائے مخصوص علاقوں میں عمومی تصورات اور وسوسوں کے گرد گھومتا دکھائی دیتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم اس بات کی کس طرح وضاحت کرسکتے ہیں کہ دیامربھاشا ڈیم کیوں قابل قبول ہے اور کالاباغ ڈیم کیوں قابل قبول نہیں ہے؟ اِن دونوں ڈیموں کو تعمیر کرنے کے مقامات دریائے سندھ پر واقع ہیں۔ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا مقام تربیلا ڈیم سے 320 کلومیٹر بالائی جانب جبکہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا مجوزہ مقام تربیلا ڈیم سے 200 کلومیٹر زیریں جانب واقع ہے۔ دونوں ڈیم پانی ذخیرہ کریں گے۔ دیامربھاشا ڈیم میں قابلِ استعمال پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 6.4 ملین ایکڑ فٹ جبکہ کالاباغ ڈیم میں یہی صلاحیت 6.1 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ اسی طرح دونوں منصوبوں سے بجلی پیدا ہوگی۔ دیامر بھاشا ڈیم 4 ہزار 500 میگاواٹ اور کالاباغ ڈیم 3ہزار 600 میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا۔ دونوں ڈیموں سے نہریں نہیں نکالی جاسکتیں کیونکہ یہ تکنیکی طور پر قابلِ عمل نہیں ہے۔صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم 1991 ء کے معاہدے کے مطابق کی جاتی ہے اور ان دونوں ڈیموں کا پانی کی تقسیم میں کوئی کردار نہیں ہوگا۔ مذکورہ حقائق کی روشنی میں یہ بات قابلِ فہم نہیں ہے کہ دیامربھاشا ڈیم کی حمایت اور کالاباغ ڈیم کی مخالفت کی بنیاد آخر کار کیا ہے؟
اِس حوالے سے ممکنہ طور پر ایک وضاحت یہ پیش کی جاسکتی ہے کہ کثیر سرمایہ صرف کر کے پانی ذخیرہ کرنے کیلئے ڈیم تعمیر کرلینے کے بعد، فطری طور پر اس ڈیم کو ایسے دنوں میں بھی بھرنے کا خیال آسکتا ہے جب دریا میں پانی کا بہائو کم ہو۔ اگر ایسا کیا جائے گا تو زیریں علاقوں میں پانی کے بہائو میں کمی واقع ہوجائے گی۔ یہ خدشہ جائز ہے ۔ خواہ کوئی ڈیم ایک مقام پر تعمیر کیا جائے یا کسی دوسرے مقام پر،اِس خدشہ کا اطلاق تمام آبی ذخائر پر یکساں طور پر کیا جانا چاہئے۔اگر کالاباغ ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کا فیصلہ زیریں علاقوں کے مفادات کیلئے نقصان دِہ ہوسکتا ہے تو پھر دیامر بھاشا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کا فیصلہ اُن علاقوں کیلئے ضرررساں اثرات کا سبب کیوں نہیں ہوسکتا؟
اصل مسئلہ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے اندر فیصلہ سازی کے عمل سے تعلق رکھتا ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے آبی ذخائر سے پانی کے اخراج کا اختیار ارسا کے پاس ہے۔ ارسا میں فیصلہ سازی کثرتِ رائے کی بنیاد پر کی جاتی ہے جبکہ صوبہ سندھ اِس ضمن میں بعض حفاظتی اقدامات کا متقاضی ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ پرویزمشرف نے کالاباغ ڈیم پر اتفاق رائے کیلئے نومبر 2003 ء میں آبی وسائل کے حوالے سے ایک تکنیکی کمیٹی قائم کی۔
25 اگست 2005 ء کو جب اس کمیٹی کی رپورٹ کو حتمی شکل دی جارہی تھی تو یہ بات سامنے آئی کہ بعض امور پر چیئرمین اور کمیٹی کے 7 ارکان میں اختلافِ رائے ہے، اور اسی سبب کمیٹی اتفاقِ رائے تک پہنچنے میں ناکام رہی۔
جناب اے این جی عباسی نے بطورِ چیئرمین ٹیکنیکل کمیٹی مذکورہ رپورٹ میں اپنی رائے کے ساتھ ساتھ ساتوں ارکان کے نقطۂ نظر کو بھی شامل کیا۔ سندھ میں اس بات پر یقین کیا جاتا ہے کہ رپورٹ میں شامل اے این جی عباسی کی رائے صوبہ سندھ کے مؤقف کی درست عکّاسی کرتی ہے۔
چنانچہ مذکورہ پس منظر میں اس بات کی سفارش کی جاتی ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کے آئینی انتظام کے تحت قائم کی جانے والی وزرائے اعلیٰ کی مجوزہ کمیٹی کے ضوابطِ کار (ٹرمز آف ریفرنس) میں درج ذیل امو ر کو بھی شامل کیا جائے:
-1الف۔آبی وسائل کے بارے میں ٹیکنیکل کمیٹی کی رپورٹ میں شامل اے این جی عباسی کی رائے۔
ب۔سندھ سے تعلق رکھنے والے قابلِ احترام انجینئر جناب ادریس راجپوت حکومتِ سندھ میں سیکرٹری آبپاشی اور بجلی کے عہدے پر خدمات سرانجام دے چکے ہیں اور پانی کے مسائل پر سندھی اخبارات میں اکثر و بیشترلکھتے بھی رہتے ہیں۔ ایک غیرسرکاری تنظیم پلڈاٹ کی جانب سے انہیں2011 ء میں تشکیل دی گئی کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ پلڈاٹ کی رپورٹ"Background Paper on Inter-Provincial Water Issues in Pakistan" میں شامل جناب ادریس راجپوت کی سفارشات کو بھی وزرائے اعلیٰ کی مجوزہ کمیٹی کے ضوابطِ کار میں شامل کیا جائے۔
دیگر ضوابطِ کار میں درجِ ذیل امور شامل کئے جاسکتے ہیں:
-2سیلابہ کے علاقے میں آبپاشی کیلئے درکار پانی کا مسئلہ اور کوٹری بیراج سے زیریں جانب مستقل طور پر پانی کا اخراج
-3دریائے سندھ کی کھاڑی میں تحفظِ حیات اور ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنا۔
-4خیبرپختونخوا کی حکومت کو یہ پیشکش کہ وہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے باعث پشاور کی وادی میں ممکنہ سیلاب اور سیم و تھور کے بارے میں اپنے خدشات کی روشنی میں تحقیقی مطالعات کیلئے بین الاقوامی ماہرین پر مشتمل پینل کا تقرر کرے۔
-5نوشہرہ کے مقام پر سیلاب سے بچائو کیلئے مہمند ڈیم کی تعمیر موثرترین اقدام ہوسکتا ہے۔ چنانچہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا فیصلہ کرتے وقت مہمند ڈیم کی تعمیر کیلئے مناسب فنڈز بھی مختص کئے جائیں۔
-6پن بجلی کا خالص منافع ۔ غازی بروتھا ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی ایکنک میں منظوری کے وقت پنجاب کی قیادت نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس منصوبے پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کیلئے پن بجلی کے خالص منافع کے اپنے حق سے دستبرداری اختیار کرلی تھی۔ کالاباغ ڈیم کے معاملے پر بھی پنجاب کی قیادت ایک تخصیص کے ساتھ اسی فراخ دلی کا مظاہرہ کرسکتی ہے۔ ایسا کیا جاسکتا ہے کہ کالاباغ ڈیم سے حاصل ہونے والا پن بجلی کے خالص منافع کا استعمال مشترکہ مفادات کونسل کی صوابدید پر ہو، اور وہ اسے درج ذیل امور کی انجام دہی میں بروئے کار لائے:
الف۔کالاباغ ڈیم کے آبی ذخیرے کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہونے والے لوگوں کی اقتصادی فلاح و بہبود
ب۔چشمہ رائٹ بنک لِفٹ کی تعمیر کے بعد پانی لِفٹ کرنے کیلئے درکار بجلی کے انتظام و انصرام پر اُٹھنے والے اخراجات
ج۔دریائے سندھ کی کھاڑی میں حیوانات اور نباتات کے تحفظ اور نہروں کو پختہ کرنے کے منصوبوں کیلئے فنڈز کی فراہمی زیرنظر قسط ، مضامین کے اِس سلسلے کی آخری کڑی ہے اور اس قسط میں تجاویز ذاتی حیثیت میں اور خلوصِ نیّت کے ساتھ پیش کی گئی ہیں ۔آبی مسائل کے حل میں اللہ تعالیٰ ہمارا مددگار اور رہنما ہو(آمین )
تازہ ترین