• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ جو تصویر کشی کر رہے ہیں اس کے مطابق امریکہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ دہشت گرد امریکہ کی سڑکوں پر آزادانہ گھوم رہے ہیں اور باہر سے آئے ہوئے تارکین وطن امریکیوں کی جان، مال اور عزت سے کھیل رہے ہیں۔ امریکہ کی دنیا میں ٹکے بھر کی عزت باقی نہیں رہی اور کوئی بھی ملک امریکہ کا احترام نہیں کرتا۔ امریکی معیشت بحرانوں کا شکار ہے اور اس کا تجارتی خسارہ کئی سو بلین ڈالر پر محیط ہے۔ امریکی فوج کی حالت دگر گوں ہے اور ملک سابقہ فوجیوں کو ضروری سہولتیں فراہم نہیں کر رہا۔ امریکہ کے سارے اتحادی اسے چونا لگا رہے ہیں اور اپنے حصے کے واجبات دینے سے انکار کر رہے ہیں۔ امریکی صنعتیں بیرون ملک منتقل ہو رہی ہیں جس سے امریکی مزدور طبقہ نا گفتہ بہ حالت میں ہے۔ امریکہ انیس ٹرلین ڈالر کا مقروض ہے اور اگر اس طرف توجہ نہ دی گئی توملکی بجٹ کا بہت سارا حصہ قرضوں کی ادائیگی کے لئے مخصوص ہو جائے گا جس سے ملک کے انفراسٹرکچر اور تعلیم پر خرچ کرنے کے لئے کچھ نہیں بچے گا۔ اوباما کا صحت کا قانون (اوباما کئیر) عوام کی معاشی بد حالی کا سبب بن رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکہ کا نوحہ اتنا طویل ہے کہ اس کے لئے کالم نہیں کتابیں لکھنے کی ضرورت ہے۔ گویا کہ امریکہ میں قیامت کا سماں ہے اور اس کی نجات اسی میں ہے کہ وہ ارب پتی ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر منتخب کر لے۔
اصل حقیقت کیا ہے؟ امریکی معیشت متوقع رفتار سے ترقی کر رہی ہے اور اسٹاک مارکیٹ تاریخی ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔ امریکہ میں اکا دکا دہشت گرد حملے عالمی رجحان کا حصہ ہیں اور تارکین وطن میں جرائم پیشہ عناصر بہت کم سطح پر ہیں۔ امریکہ میں پولیس پر حملوں کی شرح صدر بش کے زمانے سے کمتر ہے اور ملک میں امن وامان کی صورت حال بھی پہلے سے بہت بہتر ہے۔ امریکہ میں بیروزگاری کی شرح کمترین سطح پر ہے اور صدر بش کے آخری زمانے کے مالیاتی بحرانوں پر قابو پایا جا چکا ہے۔ امریکہ میں درمیانے طبقے کے معاشی حالات پہلے سے بدتر ہیں لیکن اس کی وجہ ریگن کے زمانے سے نافذ شدہ پالیسیاں ہیں۔ امریکہ دفاعی معاہدوں ( نیٹو وغیرہ) پر اس لئے خرچ کرتا ہے کہ اس کی دنیا میں برتری قائم رہے اور عالمی سطح پر اس کے اتحادی روس اور چین کے خلاف اس کا ساتھ دیں۔ اوبامہ کئیر کے چند نادیدہ مسائل سامنے آئے ہیں لیکن عمومی طور پر غریب عوام اس سے مثبت انداز میں مستفیض ہوئے ہیں۔ صدر بش کے زمانے کے مقابلے میں جب امریکی فوجیں عراق اور افغانستان میں بڑے پیمانے پر کارروائیاں کر رہی تھیں اب امریکی فوجیوں کی بیرون ملک موجودگی انتہائی کمتر سطح پر ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر صدر اوباما نے مالی بحرانوں پر قابو پا کر ملکی معیشت کو مثبت سمت دی اور بیروزگاری میں بہت زیادہ کمی آئی تو ڈونلڈ ٹرمپ کس معاشی بدحالی کا ذکر کر رہے ہیں۔ اگر ملک میں امن و امان کی صورت حال پہلے سے بہتر ہے تو ٹرمپ قیامت صغریٰ کا منظر کن بنیادوں پر پیش کر رہے ہیں؟ اس کا اندازہ کرنے کے لئے ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ وہ کن ووٹروں کی حمایت سے پرائمری انتخابات جیت کر ریپبلکن پارٹی کے امیدوار بنے ہیں۔ عام مشاہدہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ سفید فام مردوں کی حمایت سے یہاں تک پہنچے ہیں۔ نسلی اور لسانی اقلیتوں میں ان کی حمایت نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ بنیادی طور پر سفید فام کم تعلیم یافتہ نچلے طبقے کے سفید فاموں میں انتہائی مقبول ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ گوری نسل کے مردوں کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ میں کیا کشش ہے؟
ڈونلڈ ٹرمپ اقلیتوں کے خلاف نعرہ زنی کرتے ہوئے ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ سب سے پہلے تو انہوں نے یہ کہا کہ میکسیکو سے آنے والے تارکین وطن جرائم پیشہ ہیں جو امریکیوں کی عزت اور مال کو لوٹ رہے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے مسلمانوں کے امریکہ داخلے پر پابندی کا مطالبہ کیا۔ وہ اپنے بیانات اور تقریروں میں ایسا تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ گویا صدر اوباما کی ہمدردیاں اسلامی انتہا پسندوں کے ساتھ ہیں۔ اسی طرح وہ سیاہ فام کی پولیس تشدد کے خلاف تحریک ـ’’بلیک لایئوز میٹر‘‘ کے خلاف ہیں۔ وہ اپنے آپ کو لاء اینڈ آرڈر (قانون اور امن و امان) کا نمائندہ قرار دیتے ہیں۔ یہ نعرہ دراصل سیاہ فام باشندوں کے خلاف گوری نسل کے مردوں کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ بنیادی طور پر گوری نسل کی سابقہ برتری کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔
گلوبلائزیشن کی وجہ سے بہت سی امریکی صنعتیں ملک سے باہر چلی گئی ہیں جس کا نقصان گوری نسل کے مردوں کو سب سے (بالخصوص مزدور طبقہ) زیادہ ہوا ہے۔ اسی لئے ڈونلڈ ٹرمپ کا نعرہ ’’پہلے امریکہ‘‘ ان کے پیروکاروں میں بہت مقبول ہے۔ وہ آزادانہ تجارت کے خلاف ہیں اور دوسرے ملکوں (خاص طور پر چین) سے آنے والی سستی درآمدات پر پابندیاں لگانا چاہتے ہیں۔ وہ ووٹروں سے یہ بھی وعدہ کرتے ہیں کہ وہ امریکی صنعتوں کو امریکہ واپسی پر مجبور کر دیں گے۔ مختصراًیہ کہ وہ گوری نسل کے مردوں کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ان کا دشمن مقامی سرمایہ داری نظام نہیں جس میں غریب غریب تر ہو رہا ہے بلکہ اقلیتیں ، تارکین وطن اور چین جیسے ممالک ہیں جو ان کی روزی اور اجرتوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں۔ وہ امریکہ کی تباہی کا ذمہ دار بیرونی ممالک کو بھی قرار دیتے ہیں۔
ابھی تک جو سروے سامنے آئے ہیں ان کے مطابق ہلیری کلنٹن تھوڑا سا آگے ہیں لیکن لگتا ہے کہ یہ مقابلہ کانٹے دار ہوگا۔ انہی سرووں کے مطابق بہتر تعلیم یافتہ ریپبلکن پارٹی کے حامیوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے کم جوش پایاجاتا ہے۔ اسی طرح خواتین (بشمول گوری نسل کی خواتین کے) میں ہلیری کا پلڑا کافی بھاری ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا تکیہ گوری نسل کے کم تعلیم یافتہ مردوں پر ہے جبکہ ہلیری کلنٹن صدر اوباما کی طرح اقلیتوں اور خواتین کے ووٹوں سے جیتنا چاہتی ہیں۔ اب یہ الیکشن کے دن ہی پتہ چلے گا کہ کونسا گروپ زیادہ جوش و خروش سے ووٹ دینے کے لئے نکلتا ہے۔
تازہ ترین