• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جہاز اور ہمارا رنگ ایک ساتھ اڑے‘ ٹیک آف کیلئے لیفٹ رائٹ ہچکولے کھاتے جہاز کو دیکھ کر زندگی میں پہلی بار ہوائی سفر کرتے وہ سردار جی یا دآگئے کہ جن کے جہاز نے ٹیک آف کیلئے جب منہ اوپر اُٹھایا تو سردار جی چیخ پڑے ’’بے شرمو‘ میں پہلے ہی ڈرا بیٹھا ہوں اور تم ویلنگ کر رہے ہو‘‘، ہمارے جہاز نے جب جھولتے جھالتے زمین چھوڑی تو اپنی کیفیت اُس شخص جیسی ہوگئی کہ جو آدھی رات کو قبر پر بیٹھی خاتون سے یہ پوچھ بیٹھا کہ ’’اس وقت قبرپربیٹھے ڈر نہیں لگ رہا‘‘ خاتون بولی ’’ڈر کس بات کا، قبر کے اندر گرمی لگ رہی تھی میں باہر آکر بیٹھ گئی‘‘۔ ارے ہاں یہ بتانا تو میں بھول ہی گیا کہ شیخو اور واسکوڈے گاما کے ساتھ میں اس وقت اسلام آباد سے دبئی کیلئے روانہ ہوچکا تھا۔ شیخو کو تو آپ جانتے ہی ہیں‘ واسکوڈے گاما کا تعارف میں کروا دیتا ہوں، ہوش سنبھالنے سے پہلے کا ہمارا یہ دوست ( ایسے دوست ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی بنائے جا سکتے ہیں ) جس کا اصلی نام افضل، جو اپنی بے پناہ سفری حماقتوں کے تجربے پر دوستوں میں واسکوڈ ے گاما کے نام سے مشہور، جو اِس وقت عمر کے اُس حصے میں کہ جب نظر والی عینک لگا کر بھی بندے کو ناک سے آگے کچھ دکھائی نہ دے حتیٰ کہ عورت بھی‘ جس کا قد اتنا کہ بیٹھے بیٹھے کھڑے اونٹ کامنہ چوم لے، جس کی جسامت ایسی کہ جتنا وزن اٹھایا ہوا اس سے ڈبل لٹکایا ہوا، جس کے منہ پر اتنی داڑھی اور مونچھیں کہ منہ دیکھ کر بھی پتا نہ چل سکے کہ وہ کیا سوچ رہا‘ لہٰذا خوش ہے یا ناراض یہ بھی اسی سے پوچھنا پڑے، جس کی شکل پر ایسی حماقت کہ لوگ دیکھیں بعد میں ہنسنا پہلے شروع کر دیں، جو باتونی ایسا کہ کانوں کا سنا ہوا بھی منہ سے ہی نکالے‘ جو جس تیزی سے باتیں کرے اس تیزی سے صرف باتیں ہی کی جا سکیں، جو خود پرست ایسا کہ جب لوگ یہ سمجھیں کہ وہ دوسروں کی باتیں سن رہا‘ یہ اس وقت بھی دوسروں کے منہ سے اپنی ہی باتیں سن رہاہو، جسکی چال زنانہ اور چلن مردانہ، جسے پردہ اتنا پسند کہ سبزی میں بھی بندگوبھی کھائے، جسے الٹا ہو کر دیکھیں تو بڑا سیدھا لگے‘ جس کا دماغ ہر وقت چلے بس اس وقت نہ چلے جب وہ سوچ رہا ہوا اور جو حاضر جواب ایسا کہ ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ کتنی بیویاں تو بولا ’’نکاح میں تو ایک ہی البتہ نگاہ میں کئی اور جس کی شیخو سے کبھی نہ بنی‘ دونوں میں ’’اِٹ کتے دا ویر‘‘، اب ان میں اِٹ کون یہ پتا تو نہ چل پایا لیکن یہ دونوں چپ بھی بیٹھے ہوں تو لگے کہ لڑ رہے ہیں، مجھے ان کی وہ پہلی ملاقات آج بھی یا دکہ جب واسکوڈ ے گاما سے ہاتھ ملاتے شیخو طنزیہ لہجے میں بولا ’’آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی‘‘ تو واسکوڈے گاما نے کہا ’’مگر مجھے آپ سے مل کر خوشی نہیں ہوئی‘‘ یہ سن کر شیخوبولا ’’کیا آپ بھی میری طرح جھوٹ نہیں بول سکتے تھے‘‘، اسی طرح ایک بارجب شیخو نے واسکوڈے گاما کے موٹاپے پرطنزکرتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ ’’آپ ہر 2 دو منٹ بعد صوفے سے اُٹھ جایا کریں کیونکہ بے چارے صوفے کو بھی سانس لینا ہوتی ہے‘‘ تو واسکوڈ ے گاما نے اصلی شیخ شیخو کو شیخوں کی روایتی کنجوسی پر یہ لطیفہ سنادیا کہ ’’ایک بلی شیخوں کے گھر سے روتی ہوئی نکلی توبلّے نے پوچھا ’’کیا ہوا‘‘ بلی رو تے روتے بولی ’’ایک تو شیخوں نے مجھے بہت مارا اور اوپر سے مجھ سے میرا چوہا بھی چھین لیا‘‘ یقین جانئے اس وقت میری حالت بھی اسی بلی جیسی، میں بھی اس لئے نہیں رو رہا تھا کہ شیخو اور واسکوڈے گاما میرے ساتھ بلکہ مجھے رونا اس لئے آرہا تھا کہ اگلے 5دن یہ دونوں میرے ساتھ اور ان دونوں اوران دنوں کے دکھ دردوں کا سوچ کر مجھے وہ بھلی مانس خاتون یاد آگئی کہ جس نے اپنے ہونے والے خاوند سے جب کہا کہ ’’جانو میں شادی کے بعد تمہارے سارے دکھ درد بانٹ لوں گی‘‘ تو وہ شخص حیران ہو کر بولا ’’مگرمیری زندگی میں تو کوئی دکھ درد ہے ہی نہیں‘‘ خاتون بولی ’’جانو میں شادی کے بعد کی بات کر رہی ہوں‘‘۔
ابھی آدھا گھنٹہ ہی گزرا ہوگا کہ ایک نانی کی عمر کی ائیر ہوسٹس سیٹوں کے سہارے’’نا نیانہ چال‘‘ چلتے ہوئے اپنی طرف آتے دکھائی دی، شیخوبولا ’’یہ پہلے سے ہی بزرگ تھیں یا ہم تک پہنچتے پہنچتے اس عمر کو پہنچ گئیں‘‘ واسکوڈے گاما کا جواب تھا ’’پہلی بات تو یہ کہ سارا قصور تمہارا اگر تم 30سال پہلے اس جہاز میں سفر کر لیتے تو تمہیں یہ ائیر ہوسٹس اتنی بوڑھی نہ ملتی، اور دوسری بات ائیر ہوسٹس چونکہ زمین اور آسمان کے درمیان ہو لہٰذا اس کا درجہ عورت اور حور کے درمیان والا اور درمیان والوں کی بد دعا سے ڈرنا چاہئے لہٰذا یہ چھچھورا پن نہ ہی کرو تو بہتر‘‘ اتنی دیر میں یہ بزرگ ہم تک پہنچ کر پھولی پھولی سانسوں میں پد رانہ شفقت بھری آواز میں بولی ’’آپ کیا پینا پسند کریں گے‘‘ اس نے ابھی یہی کہا ہو گا کہ جہاز لڑکھڑانے لگا، یہ دیکھ کر شیخو بولا’’ہمیں بھی وہی پلادیں جو پائلٹ پی رہا ہے‘‘۔
ایک گھنٹے کے سفرمیں جب واسکوڈ ے گاما او رشیخو خوب لڑ اور ایک دوسرے پر طنز کا ہر تیر چلا چکے، جب واسکوڈ ے گاما شیخو کو یہ سنا چکا کہ ’’اس دنیا میں مردے سے جان، گدا سے صدقہ، خسیس سے نصیب او رمرغی سے دودھ ملنا توممکن مگر کسی شیخ کی جیب سے کچھ نکلوانانا ممکن‘‘ جب شیخو جوابی حملے کے طور پر واسکوڈ ے گاما کی لیٹ ہوئی شادی پر یہ فقرہ کس چکا کہ ’’بوڑھے کا شادی کرنا اور ان پڑھ کا اخبار خریدنا میری سمجھ سے تو باہر‘‘ اور جب ان دونوں کے درمیان یہ فقرے بازی بھی ہو چکی کہ ٭ ہمارے ملک میں اب پان والا ہی وہ سچا انسان رہ گیا جو پوچھ کر چونا لگائے ٭ وطنِ عزیز میں وہی صادق اور امین کہ جن کے نام صادق اور امین ٭ کنوارے اپنی حرکات اور شادی شدہ اپنی سکنات سے پہنچانے جائیں٭ کچھ لوگ رائتے کی طرح مطلب بات بات پر پھیل جائیں ٭سیلفیوں کے شوقین خواتین وحضرات کی اگلی نسل کامنہ چونچ جیسا اور ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ سے لمبا ہوگا اور پرانی بیوی اور مارشل لاء سے ہمیشہ بچو‘‘ واسکوڈے گاما نے جب یہ کہا کہ ’’جیسے ہمارے ہاں موسیقی دوطرح کی، ایک جس کی ہم تعریف کریں اور دوسری جو ہم سننے پر مجبور، ایسے ہی یہاں جمہوریت بھی دو طرح کی ایک جو کتابوں، تقریروںاور حوالوں میں ملے اور دوسری جو ہم بھگت رہے۔ ہمارے سیاستدان تو عوام سے اب بے اختیار محبت بھی نہ کریں حالانکہ عوام اب ان سے بااختیار محبت چاہیں‘‘ تو شیخو بولا’’ہمارے سیاستدان تو عوام سے اتنی محبت کریںکہ انہوں نے توا ن عوامی مسائل کے حل بھی ڈھونڈھ لئے کہ جوابھی پیدا ہونے باقی‘‘۔دوستو! جب یہ سب کچھ ہو چکا مطلب جب میں 3گھنٹے ان کی نان سٹاپ بَک بَک جھک جھک سن چکا تب مجھے اس وقت اپنی آنکھوں اور کانوں پر یقین ہی نہ آیا کہ جب عمر بھر کبھی کسی غیبت یا چغلی پر بھی
متفق نہ ہونیوالے واسکوڈے گاما اور شیخو کو نہ صرف میں نے ایک پوائنٹ پر متفق ومتحد دیکھا بلکہ ایکدوسرے کی تائید کرتے بھی سنا ‘ جانناچاہتے ہیں کہ وہ پوائنٹ کیا تھا تو وہ پوائنٹ یہ کہ’’اپنے رہنماؤں کو چاہئے کہ وہ جمہوری گاڑی کی رفتار اتنی ہی رکھیں کہ جتنی رفتار قوم کی دعاؤں کی ’’’’ورنہ‘‘ تیزی سب کو بھاتی ہے مگر جان اسی میںجاتی ہے‘‘۔ اس ٹرک مارکہ شعر کو غور سے پڑھیں گے تو اصل بات سمجھ میں آ جائے گی۔


.
تازہ ترین