• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر آپ جانوروں کے طرز زندگی سے متعلق معلومات فراہم کرنے والے چینلز دیکھتے ہیں توجانتے ہونگے کہ کسی بھی مہلک وار سے بچنے کے لئے جانور کس طرح کی دفاعی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔مثال کے طور پر جب کچھوے کو کسی قسم کے بیرونی خطرے کا احساس ہوتا ہے تو یہ اپنی گردن ،ہاتھ ،پیر اور منہ اندر چھپا لیتا ہے اور پھر کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔کوئی بھی جماعت یا گروہ جس کی بنیاد نفرت،تعصب یا کسی مخصوص نظریئے کی بنیاد پر رکھی گئی ہو،اس کی دفاعی حکمت عملی بھی کچھوے جیسی ہوتی ہے۔جب بھی ریاستی طاقت کے ہتھوڑے سے اسے توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ اپنے دفاعی حصار میں مقید ہو جاتی ہے اور وہ لوگ بھی مقناطیسی طاقت کی طرح اس سے چمٹ جاتے ہیں جو کسی اختلاف کے باعث دور کھڑے ہوتے ہیں۔حملہ آور سمجھتا ہے کہ اس کی تدبیر کامیاب رہی مگر جبر کی لہر اترنے کے بعد انکشاف ہوتا ہے کہ یہ جماعت تو پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو گئی ہے۔ایسی جماعتیں اور گروہ اس وقت تک زندہ رہتے ہیں جب تک انہیں نفرت اور تعصب کی آکسیجن ملتی رہتی ہے۔ یوں تو اس نوعیت کی بیشمار مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں مگر ہمارے سامنے سب سے بڑی اور مقامی نظیر پیپلزپارٹی کی ہے۔جب تک ریاستی عناصر اسے ختم کرنے کی تگ و دو میں مصروف رہے یہ پوری آب و تاب سے سیاست کے افق پر جگمگاتی رہی۔ضیاء الحق کا خیال تھا کہ بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد پیپلزپارٹی قصہ پارینہ بن جائے گی لیکن 1988ء میں عام انتخابات ہوئے تو بھٹو کی بیٹی وزیراعظم بن گئی۔27دسمبر2007ء کو بینظیر بھٹو کو قتل کرنے والوں کا خیال تھا کہ اب پیپلز پارٹی تتر بتر ہو جائے گی لیکن 2008ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔جیسے ہی یہ مہم جوئی بند ہوئی اور پیپلز پارٹی کو اس کے حال پر چھوڑنے کا فیصلہ ہوا ،اس کے زوال کا سلسلہ شروع ہو گیا۔گزشتہ چند برس سے ایم کیو ایم کو دیوار سے لگانے کی کوششیں کی جا رہی تھیں تو میرا گمان یہی تھا کہ کسی بیرونی مہم جوئی کی صورت میں اس قلعے کو مسمار نہیں کیا جا سکتا اور مصطفی کمال جیسے لوگ کوئی دراڑ نہیں ڈال پائیں گے۔لیکن جو کام اسٹیبلشمنٹ نہ کر پائی وہ الطاف بھائی نے خود کر دکھایا۔ ہو سکتا ہے ان کی زہر آلود گفتگو مے نوشی کے زیر اثر ہو مگر چاہے جانے کا خمار بھی تو کسی بلا سے کم نہیں۔سرفروشی کی تمنا سے سرشار جانثاروں کی جی حضوری کسی کو بھی بہکا سکتی ہے۔وہ پہلی بار تو نہیں بہکے مگر شومئی قسمت اس بار کھڈے میں گر گئے۔
پاکستان تو ہمیشہ زندہ باد ہی رہے گا مگر سوال یہ ہے کہ اب ایم کیو ایم کا مستقبل کیا ہو گا؟دفاعی حکمت عملی،منافقت،شعبدہ بازی،لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ایک اور کوشش یا پھر سیاسی مصلحت ،فاروق ستار کی حالیہ پالیسی کو کوئی بھی نام دے لیں مگر یہ بغاوت نہیں۔ایم کیو ایم اور الطاف حسین لازم و ملزوم ہیں۔لاتعلقی کا اعلان ایسے ہی ہے جیسے کوئی اپنے باپ کو عاق کر دے مگر اس کے باوجود بھی اس کی ولدیت تبدیل نہیں ہو سکتی۔حالات کی ستم ظریفی دیکھیں کہ مائنس ون فارمولے کے جواب میںجو کل تک یہ نعرہ لگایا کرتے تھے کہ ہمیں منزل نہیں رہنما چاہئے ،آج رہنماکی ہرزہ سرائی انہیں اس موڑ پہ لے آئی ہے کہ میئر منتخب ہونے کے بعد وسیم اختر میڈیا سے گفتگو کرنے لگے تو نائب میئر ارشد وہرہ کو کہنا پڑا ’’محتاط رہنا،بھائی کا تو نام بھی مت لینا‘‘۔حالانکہ ایم کیو ایم کی روایت رہی ہے کہ کوئی بھی عہدیدار منتخب ہونے کے بعد اللہ اور عوام سے پہلے الطاف بھائی کا شکریہ ادا کیا کرتا تھا۔ایم کیو ایم کے وہ نظریاتی کارکن جو ہم نہ ہوں ہمارے بعد الطاف کے نعرے لگایا کرتے تھے ،وہ بھی اس بارودی سرنگ پر پائوں آنے کے بعد پہلی مرتبہ یہ کہتے نظر آئے کہ بھائی نے مروا دیا۔ سب سے بڑا سوالیہ نشان تو یہ ہے کہ ہر تنظیمی عہدیدار حلف اٹھاتے وقت یہ عہد کرتا ہے کہ میں بھائی کا وفادار رہوں گا اور ان کے احکامات سے روگردانی کو غداری سمجھا جائے گا۔ایسے تنظیمی ڈھانچے کے ساتھ ایم کیو ایم الطاف حسین سے لاتعلقی کا اعلان کیسے کر سکتی ہے؟
ایم کیو ایم کے مستقبل کا انحصار فریقین کے طرزعمل اور حکمت عملی پر ہے۔اگر فریق اول یعنی الطاف حسین نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اپنی قربانی دیکر اپنے فلسفے اور تحریک کو زندہ رکھنا ہے تو ایم کیو ایم کی کشتی ایک مرتبہ پھر منجدھار سے نکل آئے گی۔اس مقصد کے لئے بظاہر نہیں ،عملی طور پر ریٹائر منٹ لینا ہو گیااور یہ فیصلہ کوئی اور نہیں بلکہ بھائی خود ہی کر سکتے ہیں۔لیکن یہ فیصلہ ناممکن نہیں تو بہت کٹھن اور مشکل ضرور ہے۔توقع یہ ہے کہ ان کے اندر چھپی وحشت اور جنوں چند روز بعد ہی پھر سے بے قابوہو گی اور کسی دن فاروق ستار اینڈ کمپنی کی کارکنوں کے ہاتھوں پٹائی ہو نے کے بعد سب کیا دھر اخاک میں مل جائے گا۔فریق ثانی یعنی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اگراس صورتحال سے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی کوشش نہ کی جائے تو ایم کیو ایم چند برس میں ہی تاش کے پتوں کی مانند بکھر جائے گی کیونکہ اس مرتبہ شکست وریخت کا عمل فطری ہے اور ٹوٹ پھوٹ اندر سے شروع ہوئی ہے۔اگر کسی احمقانہ مہم جوئی کی صورت میں ایم کیو ایم کو اپنا شیرازہ سمیٹنے اور پھر سے مجتمع ہونے کا موقع فراہم نہ کیا گیا تو یہ کئی ٹکڑوں میں بٹ جائے گی۔بہت محدود تعداد میں لوگ مصطفی کمال کی پاک سرزمین پارٹی کا رخ کریں گے ،اتنی ہی تعداد پر مشتمل ایک گروہ نئی ایم کیو ایم تشکیل دے گا جو الطاف حسین سے عملاً لاتعلق ہو گی ،ایک اور گروہ نمودار ہو گا جو سب کو غدار قرار دیتے ہوئے ہر حال میں الطاف حسین کا ساتھ دینے کو اپنا منشور بنائے گا مگر اکثریتی گروہ ایسے افراد پر مشتمل ہو گا جو اس ناپسندیدہ صورتحال سے مایوس اور ناامید ہو کر سیاست سے کنارہ کش ہو جائے گا اور کسی کے ساتھ کھڑا نہیں ہو گا۔
اگر اسٹیبلشمنٹ نے زچگی کے اس عمل پر اثر انداز ہوتے ہوئے کوئی ٹیسٹ ٹیوب بے بی پیدا کرنے کی کوشش کی یا پھر ایم کیو ایم کی کوکھ سے جنم لینے والے ان گروہوں میں سے کسی ایک کو گود لینے کا فیصلہ کیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم نے ماضی کے تجربات سے کچھ نہیں سیکھا۔اور یہ بات غلط ثابت ہو جائے گی کہ چند لوگوں کو محدود وقت کے لئے یا بیشتر افراد کو لامحدود وقت کے لئے بے وقوف بنایا جا سکتا ہے مگر تمام افراد کو ہمیشہ کے لئے بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔حکمت و تدبر اور سیاسی فہم و فراست کا تقاضا یہی ہے کہ ایم کیو ایم کو زچگی کے اس عمل سے گزرنے اور اپنی موت آپ مرنے دیا جائے وگرنہ کسی نے طبعی موت کے بجائے حادثاتی یا انتقامی موت کے ذریعے اسے شہادت کا درجہ دینے کی کوشش کی تو اس کے نتائج آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنا پڑیں گے۔


.
تازہ ترین