• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ!
وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے، عالمی سطح پر کشمیریوں کا مقدمہ پیش کرنے کیلئے 20پارلیمینٹیرینز مقرر، دنیا کا ضمیر جھنجھوڑوں گا، کاش کہ وہ کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ کی بھی تجدید کا اعلان کر دے، کیونکہ کارکردگی صفر ہے وزیراعظم میں وہ سیاسی تدبر پیدا ہی نہیں ہوا جاگ بھی گیا ہے، آج وادی میں بھارتی ظلم و ستم اور نہتے کشمیریوں کا مقابلہ جاری ہے، وہ مار رہے ہیں یہ مر مر کر زندہ ہو رہے ہیں، تحریک آزادی کشمیر اب جس راہ چل نکلی ہے کہیں جا کر ہی دم لے گی، کسی سے اس کا گھر چھین لینا اور اسے تقسیم ہند میں شامل کرنا ابتداء ہی سے ایک غلط عمل تھا، کشمیر ایک آزاد ریاست کے طور برقرار رہتا یہ بعد کی بات تھی کہ وہ اپنی اجتماعی رضا مندی سے پاکستان یا بھارت میں سے کسی کے ساتھ الحاق کرنا چاہتا ہے، خواہ مخواہ اسے ایک ایسا تنازع بنا دیا گیا کہ آج سب یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بھی پاک بھارت تقسیم کا حصہ تھا، بہرصورت اب تو صورتحال کو رنگ ہی کچھ اور دے دیا گیا ہے، اب یہی ہو سکتا ہے جس کا آغاز وزیر اعظم پاکستان نے کر دیا ہے، یہ ہمارے لیجسلیٹرز کا کام ہے کہ وہ پوری عالمی برادری کے سامنے کشمیر کا مقدمہ رکھیں اور عالمی سطح پر اسے لڑیں، بھارت نے یہ چالاکی کی کہ کشمیر پر اپنا پروپیگنڈا اتنا تیز رکھا، کہ دنیا کو باور کرا دیا کہ پاکستان کشمیر میں دہشت گردی کر رہا ہے، اور ساڑھے سات لاکھ ریگولر بھارتی آرمی کو مقبوضہ کشمیر پر چھوڑ دیا کہ کشمیریوں کی بوٹیاں نوچو، ساتھ ہی کنٹرول لائن تو کجا پاکستان کی ورکنگ بائونڈری پر بھی فائرنگ کا ڈرامہ شروع کر دیا، تاکہ تنازع کشمیر کو پس منظر میں دھکیل دیا جائے، وزیراعظم نواز شریف نے اب مسئلہ کشمیر کا مقدمہ لڑنے کا بیڑہ اٹھایا ہے تو اسے قائداعظم کے انداز میں لڑیں کہ انہوں نے پاکستان کا مقدمہ لڑا اور جیت کر دم لیا، ان کا یہ جملہ بہت زوردار ہے کہ ’’دنیا کا ضمیر جھنجھوڑوں گا‘‘ انہوں نے آغاز سفر کر دیا ہے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ۔
٭٭٭٭
ان کا نہ کرنا اعتبار کوئی
مصطفیٰ کمال کہتے ہیں مہاجروں کو پہلے الطاف نے بیوقوف بنایا اب فاروق ستار بنا رہے ہیں۔
پہلی اور ضروری بات تو یہ ہے کہ مہاجر اپنے اوپر یہ مہاجر کا ٹھپہ مزید نہ لگنے دیں، بھارت سے ہجرت کر کے پنجابی بھی آئے ہیں مگر وہ مہاجر نہیں کہلاتے جو پاکستان کا شہری بن گیا پاکستانی ہو گیا، اگر مہاجر نہ کہا جاتا اردو اسپیکنگ طبقہ کا نام نہ دیا جاتا تو پاکستان کو مردہ باد کہنے والے غدار کبھی کامیاب نہ ہوتے۔ الطاف اب کس کے بھائی رہ گئے، جب بھائیوں کے گھر کو مردہ باد قرار دے دیا تو وہ تمام پاکستانی جو الطاف حسین کے پیروکار تھے ماضی کو بھلا کر پوری پاکستانی برادری میں مل جل کر ووٹ ڈالیں سیاست کریں اور اپنے اس ملک کی خدمت میں جُت جائیں جس کی خاطر انہوں نے بڑی قربانیاں دیں، جس دن کوئی لیڈر ریموٹ کنٹرول لیڈر بن جائے اسی روز اس کی پیروی ترک کر دینی چاہئے، یہ خود کو بچا کر سیاسی دھاک جما کر دوسروں کے بیٹے مرواتے ہیں اور اپنے لئے کسی محفوظ مغربی ملک میں ٹھکانہ بنا لیتے ہیں، اور ملکہ برطانیہ سے وفا داری کا حلف اٹھا کر شہریت حاصل کر لیتے ہیں کیا ان کے پیروکاروں کارکنوں عقیدت مندوں کو پھر بھی پتہ نہیں چلتا کہ وہ غیر محب وطن قیادت کی غلامی کر رہے ہیں، یہ لوگ مٹائے نہیں مٹتے ان کے بعض وفادار مفادات کی خاطر ان کے لئے کام کرتے رہتے ہیں، اس لئے کسی پاکستان دشمن کے کسی سجادہ نشین کا بھی آنکھیں بند کر کے اعتبار نہیں کرنا چاہئے، اسی طرح کسی نہ کسی سیاسی سماجی مذہبی چھتری تاننے والے اس قوم کا استحصال کرتے رہے ہیں، جس پاکستان نے ہمیں نام دیا کام دیا شناخت دی آج وہی مردہ باد، کیا بوالعجبی ہے، دھرتی ماں کی یہی حرمت ہے کہ؎
جس کوکھ نے تم کو جنم دیا
اس کوکھ کا کاروبار کیا
٭٭٭٭
بکرا عید یا بقرہ عید
عید الاضحی میں تھوڑے ہی دن باقی ہیں، قربانی کرنے کو ہر مسلمان بیتاب رہتا ہے، مگر بالخصوص ہمارے ہاں قربانی کے جانور مہنگے اور انسان سستے ہیں، بکرا خریدنا تو اسٹیٹس سمبل بن چکا ہے اور کوئی کوئی بکرے پر ہاتھ ڈال سکتا ہے، البتہ اسے ٹٹول سکتا ہے، ان حالات میں جبکہ غریب کے لئے مرغے کی قربانی ممکن نہیں متوسط طبقے نے گائے میں حصہ ڈالنے کی طرف رجوع کر لیا ہے، اس لئے اب بکرا عید دھیرے دھیرے ’’بقرہ‘‘ (گائے) عید میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے، بکرے تو اب اس قدر چھیل چھبیلے، رنگ رنگیلے ہو گئے ہیں کہ جہاں کھڑے ہوں اس پر شادی ہال کا گمان گزرتا ہے، کہ سیٹ لگا ہے اور اس پر بکرا دولہا براجمان ہے، وطن عزیز میں معاشی ’’خوشحالی‘‘کا یہ عالم ہے کہ کبھی کبھی دل میں خیال آتا ہے کہ ہم عوام کی منڈی لگی ہے اور بکرے ہمیں خریدنے بڑے طمطراق سے آ رہے ہیں اور خرید کر جا رہے ہیں۔ وہ ہمارا باربی کیو کریں گے، اور خوب عید چھرے اڑائیں گے۔ اب ہر گھر سے بکرے کی آواز نہیں آتی، بلکہ مردانہ آوازیں بھی بکری ہو گئی ہیں کچھ لوگ جو سرے سے قربانی کی استطاعت ہی نہیں رکھتے پھر بھی ابھی سے آنگن میں بکرا باندھ کر انٹیرم اشرافیہ میں شامل ہو چکے ہیں، یہ وہ اشرافیہ ہے جس نے گھر کا سامان، بیوی کا زیور بیچ کر چالیس پچاس ہزار کا بکرا خرید کر اس کی زمام بچوں کے ہاتھ میں دے دی ہے تاکہ ان کے ساتھ غریب بچے ان کو امیر زادے سمجھ کر مرعوب ہوں، اسلام میں قربانی اس پر فرض ہے جو قربانی دے سکے، لیکن اس کے باوجود جو اتنی طاقت نہیں رکھتے کہ قربانی کا جانور خرید سکیں دوسروں کو نیچا دکھانے کے لئے بکرا لے آتے ہیں، گویا کوئی بھی پسند نہیں کرتا کہ دوسرے اسے ’’بکرا لیس‘‘ سمجھیں، ہم نے بھی کئی بکرے ٹٹولے مگر بکری ہو گئے، جیب سے آواز آئی مجھ میں تیرے قلم کے سوا صرف ہانڈی روٹی کا خرچہ ہے، یہ تماشا نہ ہو کہ خود بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر!
٭٭٭٭
پھر سے چل نکلی مذاکرات کی بات
....Oبھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط:امید ہے کشمیر پر پاک بھارت مذاکرات جلد شروع ہوں گے۔
مذاکرات اور وہ بھی کشمیر پر آپ کے منہ میں گھی شکر!
....Oطاہر القادری:وزیراعظم نے ملکی سالمیت پر حملہ کرنے والوں کے خلاف کیا ایکشن لیا،
ملکی سالمیت پر حملہ کرنے والے اپنے ملک میں رہتے ہی نہیں وزیراعظم کیا کریں؟ الطاف حسین کو مانگا تھا انگلینڈ نے نہیں دیا کہ ہمارا شہری ہے۔
....Oہیلری نے ڈونلڈ ٹرمپ کو دماغی طور پر غیر متوازن قرار دے دیا،
کیا وہ برین اسپیشلسٹ ہیں، ویسے ہر پاگل دوسروں کو پاگل سمجھتا ہے۔
....Oلیاقت بلوچ:الطاف کی ہرزہ سرائی بھارتی ایما پر ہے،
پھر تو بھارت سے پوچھنا چاہئے، اور یہ ہرزہ سرائی نہیں پاکستان کی سلامتی پر حملہ ہے،
٭٭٭٭


.
تازہ ترین