• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نون لیگ کے مضبوط اورلمبے ہاتھ کمزور پڑ گئے۔بہر حال تقریباً دوسال تو انہوںنے عمران خان کو طاہر القادری کی طرف قدم بڑھانے سے روکے رکھا۔یقینا اُس شخصیت کی پریشانیوں میں بہت اضافہ ہو چکا ہوگا جسے اس کے آزمودہ ماہرِ علم ِ نجوم نے کہا تھا کہ’’ میرے زائچے کے مطابق جب بھی عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری ایک ہوجائیں گے تو آپ کا ستارہ گردش میں آجائے گا‘‘علم جفر کے ماہرین نے بھی اسی خیال کا اظہار کیاہے کہ عمران کا عدد ’’ایک ‘‘ہے اور ’’طاہر‘‘ کا آٹھ ہے۔یہ مل کر ’’نو ‘‘کا عدد بن جاتا ہے۔جو کسی دوسرے ’’ایک‘‘ کیلئے تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔نو کا عدد اگر ایک کے عدد میں جمع ہوجائے تو دس یعنی پھر ایک بن جاتا ہے لیکن نوکا عدداگر ایک کے عدد سے ٹکرا جائے یعنی ضرب کھا جائے تو پھر نو بن جاتا ہے۔یہ وضاحت بھی کردوں کہ’’ عمران‘‘ کے عدد 361بنتے ہیں جنہیں جمع کیا جائے تو ایک بن جاتا ہے اور ’’نواز‘‘کے عدد 64بنتے ہیں انہیں بھی جمع کیا جائے تو ایک بن جاتا ہے۔طاہر کے عدد215بنتے ہیں جنہیں جمع کیا جائے تو آٹھ بن جاتا ہے۔یعنی طاہر جدھر مل جائے فتح ادھر چلی جاتی ہے۔تاریخ پیدائش کی صورت بھی اِس جیسی ہے۔ڈاکٹر طاہر القادری 19/2/1951میں پیدا ہوئے۔ان اعداد کو جمع کیا جائے تو ایک بن جاتا ہے۔عمران خان کی تاریخ پیدائش25/11/1952ہے ان اعداد کو جمع کیا جائے تو پھر آٹھ بن جاتا ہے۔ یعنی نام کے لحاظ سے’’ عمران‘‘ کا عدد ایک ہے اور تاریخ پیدائش سے ڈاکٹر طاہر القادری کا عدد ایک ہے اور تاریخ پیدائش کے لحاظ سے عمران خان کا عددآٹھ ہے اور نام کے لحاظ سے ’’طاہر ‘‘ کا عدد آٹھ ہے۔اِس حساب سے دونوں جب ملتے ہیں تو نو کا عدد وجود میں آتا ہے۔نو جو سورج کانمائندہ ہے۔ نئی صبح کی نوید ہے۔
بے شک تحریک انصاف میںکچھ لوگ ڈاکٹر طاہر القادری کے حق میںنہیں ہیںمگرذاتی طور پر عمران خان ڈاکٹر طاہر القادری کے بارے میں بڑی اچھی رائے رکھتے ہیں۔کافی عرصہ پہلے عمران خان نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھاکہ’’میںڈاکٹر طاہرالقادری کی 80فیصد باتوں سے متفق ہوں لیکن طریقہ کار میں فرق ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ انتخابی اصلاحات ہوں، الیکشن میں دھاندلی کرنے والوں کو سزا ملے اور پھر الیکشن ہوں جب کہ وہ کہتے ہیں کہ عبوری حکومت آئے اور شفاف انتخابات کرائے جائیں۔وہ عوام کے اصل ایشوز کی بات کرتے ہیں۔ وہ مجھ سے زیادہ بہتر اورناپ تول کر بولتے ہیں۔ گزشتہ الیکشن میں ہمارا خیال تھا سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری الیکشن میں دھاندلی نہیں ہونے دیں گے مگر ایسا نہیں ہوا۔ ریٹرننگ افسروں سے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ کرایا گیا ہے۔یعنی ڈاکٹر طاہر القادری ٹھیک کہتے تھے ‘‘۔
تین ستمبر کو لاہور میں عمران خان کے کنٹینر پر ڈاکٹر طاہر القادری بھی ہونگے اور راولپنڈی میں ڈاکٹر طاہر القادری کے کنٹینر پرعمران خان بھی دکھائی دیں گے۔ کچھ لوگوں کی ابھی تک یہ کوشش ہے کہ کم از کم کنٹینر الگ الگ ہوں۔ کنٹینر ایک ہو یا الگ الگ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔لیکن اس عمل سے عمران خان کواس بات کا اندازہ ہوچکا ہے کہ وہ لوگ جو اسے ڈاکٹر طاہر القادری سے دور رکھنا چاہتے ہیں ان کاایجنڈا کچھ اور ہے۔
تین ستمبر کے روز کیا ہوگا۔سیاسی نجومیوں کے خیال میں تین چاراور پانچ ستمبرموجودہ حکومت کیلئے سعد دن نہیںہیں۔ چھ ستمبر کا دن تو خیر عوام ویسے بھی افواجِ پاکستان کے ساتھ مِل کر مناتے ہیں۔ ویسے ستمبر کا مہینہ پاکستان کیلئے کبھی اچھا اور کبھی برا رہا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیاتین ستمبرسے شروع ہونے والی احتجاجی تحریک پاکستان کیلئے کون سے رنگ کے پھول لائے گی۔سرخ پھول جن سے لہو ٹپکتا ہے یا سفید پھول جو ماحول مہکا دیتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ احتجاج حکومت کو کوئی بڑا دھچکا نہ پہنچاسکے لیکن وہ تحریک جو پشاور میں شہید ہونے والے بچوں کی وجہ سے روکنی پڑ گئی تھی اب ایک سیلابِ بلاخیز بن کرملک گیر بھی ہوسکتی ہے۔ کسی تبدیلی کی وعید یا نوید بھی سنا سکتی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ یہ ستمبر کا مہینہ اِتنی آسانی سے گزرنے والا نہیں۔ اِس کا ایک ایک ہفتہ، ایک ایک دن، ایک ایک گھنٹہ اور ایک ایک منٹ پاکستان کی تاریخ میں یادگار حیثیت اِختیار کرسکتا ہے۔
اس ستمبر میں ایک خطرہ اور بھی موجود ہے اور وہ پاک بھارت جنگ کا ہے جس کی پہلی پیشں گوئی امریکی کانگریس کی ایک بریفنگ میں ہوئی۔ دوسری پیش گوئی ایک بھارتی لیڈر نے کی کہ ’’نریندرمودی اپنے اقتدارکیلئے اِسی ماہ پاکستان پرحملہ کرسکتا ہے‘‘۔ تیسری پیشں گوئی الطاف حسین نے یہ کہہ کر کی کہ’’ میں نے پاکستان کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ اگلے دس پندرہ دنو ں میں پورا ہو جائے گا ‘‘۔بھارت اور امریکہ نے ایک دوسرے کے فوجی اڈے استعمال کرنے کا جو معاہدہ کیا ہے۔اس کے پس منظر میں بھی بھارت کے انہی جارحانہ اراروں کا عمل دخل ہے۔پاکستان مخالف دنیا کا خیال ہے کہ اگر’’سی پیک‘‘ کو نہ روکا گیا تو دوتین سال کے اندر پاکستان معاشی طور پر بھی ناقابلِ تسخیر ہوجائے گا سو جو کچھ کرنا ہے وہ فوری طور پر کیا جائے۔بھارت کا ایک خیال یہ بھی ہے کہ اگر پاکستان میں مارشل لا لگ جاتا ہے تواسے حملہ کرنے میں اور زیادہ آسانی ہوگی۔وہ اس غلط فہمی میںبھی ہے کہ مشرقی پاکستان کی طرح یہاں بھی کچھ سیاست دانوں کو وہ اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوجائے گا۔بھارت اس وقت کشمیر کی وجہ سے بھی بہت پریشان ہے اور اسے جنگ کے سوا اس کا کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا۔بھارت کا خیال ہے جنگ روایتی ہتھیاروں تک محدود رہے گی پاکستان ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال نہیں کرے گا۔جب کہ امریکہ بھارت کو کئی بار یہ بات سمجھا چکا ہے کہ پاکستان کیساتھ جب بھی جنگ ہوگی وہ ایٹمی ہو گی۔کئی سال پہلے بھارت نے ایٹمی جنگ کے سلسلے میں عوام کو حفاظتی انتظامات کے حوالے سے ٹریننگ بھی دی تھی۔امریکہ کے تھنک ٹینکس نے بھی وائٹ ہائوس کو یہ تجزیہ دیاہے کہ پاکستان پر بھارتی حملے کی صورت میں چین براہ راست شریک ہوگا کیونکہ وہ پہلے کہہ چکا ہے کہ اسلام آباد پر حملہ بیجنگ پر حملہ تصور کیا جائے گا۔اس لئے ممکن ہے کہ اس جنگ سے تیسری عالمی جنگ کا آغاز ہوجائے سو اس سے اجتناب بہتر ہے مگر سپر پاورکیا کرے اس کے نیو ورلڈ آرڈر میں پاکستانی آرمی کا کہیں وجود نہیں۔اورپاکستانی آرمی آسمان کی چھاتی پرپوری آب و تاب کے ساتھ چمکتے ہوئے سورج کی طرح موجود ہے۔بہر حال تین چار ستمبر کو پاکستان کے مشرقی محاذوں پر بلا اشتعال بھرپور فائرنگ کا سوفیصد امکان ہے۔

.
تازہ ترین