• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ 15جو لائی کی صبح صادق تھی۔ دن کے آغاز سے ہی ہوا میں خنکی بکھر رہی تھی۔ترکی کے جنوب مغربی علاقے مارمارس میں سب اچھاچل رہا تھا۔جزیرے نماتفریحی مقام مارمارس میں خاندان کے افراد کے ہمراہ جمعہ کی نماز کے بعد اسٹاف افسر سے ملکی صورتحال کے بارے میں دریافت کیا۔استنبول سمیت پورے ترکی میں صورتحال معمول کے مطابق چل رہی تھی۔خوشگوار دن گزارنے کے بعد جب میں اپنے بیڈ روم میں داخل ہوا تو شام کے سات بج چکے تھے۔کچھ دیر ترک ٹی وی (ٹی آر ٹی ) پر خبریں اور تبصرے سنے اور پھر ٹی وی بند کردیا۔ابھی ٹی وی بند کئے مشکل سے 20منٹ ہی گزرے تھے کہ بہنوئی کا فون آیا اور اس نے استنبول میں غیر معمولی نقل و حرکت کی اطلاع دی۔میں نے وہم سمجھ کر بہنوئی کے خیال کو نظر انداز کردیا اور کہا کہ ابھی کچھ گھنٹوں پہلے تک تو مجھے سب اچھاکی اطلاع ملی ہے۔ فون بند ہوگیا مگر میرے دل میں عجیب و غریب وسوسے چل رہے تھے۔اسی کیفیت میں استنبول کے انٹیلی جنس افسران سے رابطہ کیا تو بہنوئی کی بات کی تصدیق ہوگئی اور مجھے بتایا گیا کہ فوج کے ایک گروہ نے استنبول پر چڑھائی کردی ہے۔استنبول سے آنے والی اطلاع پریشان کن ضرور تھی مگر میرے تمام اوسان بحال تھے۔
میں نے تمام اسٹاف اور پائلٹس کی ہنگامی میٹنگ بلالی۔ہیلی کاپٹر ز کے انچارج نے بتایا کہ اس وقت ہمارے پاس چار ہیلی کاپٹرز ہیں۔ائیر پورٹ کے حوالے سے سوال کرنے پر ایک پائلٹ نے پھرتی سے جواب دیا کہ سر ہم آپ کو انہی ہیلی کاپٹرز پر آدھے گھنٹے میںبحفاظت یونان پہنچا سکتے ہیں۔میں اپنے آپ پر کنٹرول نہ رکھ سکا اور سخت غصے میں جواب دیا اگر میں جان دوں گا تو استنبول میں جا کر دوں گا۔ مجھے بتایا جائے کہ یہاں سے ائیر پورٹ کتنا دور ہے۔اس بار ہیلی کاپٹر کے انچارج نے جواب دیا کہ سر ہم15سے 20منٹ میں ائیر پورٹ پہنچ سکتے ہیں۔جواب سننے کے بعد میں اپنے دماغ میں پورا منصوبہ تیار کرکے فیصلہ کرچکا تھا ۔اسی دوران میں نے ایک ہیلی کاپٹر کے اسٹاف سے کہا کہ وہ ائیرپورٹ کے لئے روانہ ہو اور وہاں جا کر ہمیں صورتحال سے آگاہ کریں۔ہیلی کاپٹر کے روانہ ہوتے ہی میں نے فیس ٹائم کے ذریعے ترکی کے ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل کو پیغا م بھیجا اور ساتھ ہی وہی پیغام سوشل میڈیا پر بھی نشر کردیا۔مجھے فیس ٹائم پر نشر ہونے والے پیغام کی اس قدر افادیت کا علم نہیں تھا مگر چونکہ میں ایسے مقام پر تھا جہاں پر فیس ٹائم کے علاوہ ویڈیو کمیونیکیشن کی کوئی دوسری سہولت موجود نہیں تھی ۔بہر حال ائیرپورٹ پر پہنچنے والے ہیلی کاپٹر کی کلیئرنس کے بعد میں نے اپنے تمام خاندان کے افراد کے ہمراہ ائیر پورٹ جانے کا فیصلہ کیا۔ائیر پورٹ پر پہنچتے ہی مجھے بتایا گیا کہ سر! آپکی آمد سے کچھ دیر قبل باغی فوجیوں کا ایک گروہ ائیرپورٹ آیا تھا اور تلاشی لینے کے بعد کسی کو نہ پاکر واپس چلا گیا۔میں نے اپنے جہاز کے پائلٹ سے پوچھا کہ ہمارے پاس جہاز میں کتنا فیول ہے۔مجھے بتایا گیا کہ ہم باآسانی 4سے5گھنٹے سفر کرسکتے ہیں۔اپنی منزل کابتائے بغیر میں اپنی فیملی کے ہمراہ جہاز میں بیٹھا اور دونوں پائلٹوں سے کہا کہ ترکی کی فضاؤں میں اڑان بھرتے رہیں۔پائلٹس نے جونہی جہاز کو رن وے پر ڈالا ،میں نے اپنے ذاتی اسٹاف افسر سےکہا کہ وہ کاک پٹ میں جاکر بیٹھ جائیں۔گو کہ مجھے اپنے دونوں پائلٹس پر بھرپور اعتماد تھامگر معاملے کی حساسیت کی وجہ سے کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔ابھی جہاز نے آدھا ہی سفر طے کیا تھا کہ میں خود کاک پٹ میں چلا گیا اور ائیر ٹریفک کنٹرول سے رابطہ کیا ۔مجھے بتایا گیا کہ پورے ائیر پورٹ پر باغی فوجیوں نے قبضہ کرلیا ہے اور رن وے پر آرمڈ گاڑیاں کھڑی کی گئی ہیں۔میں نے ائیر ٹریفک کنٹرول کو پیغام دیا کہ میری استنبول پولیس چیف سے بات ہوسکتی ہے۔چند منٹ بعد ائیر ٹریفک کنڑول کی جانب سے پیغام آیا کہ استنبول پولیس چیف ترک صدر سے رابطہ کررہے ہیں۔پولیس چیف نے ائیر ٹریفک کنٹرول کی معلومات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ درست ہے کہ پورے ائیر پورٹ پر باغی فوجیوں کا قبضہ ہے مگر آپ مجھے 15منٹ دے دیں ،میں پورا ائیر پورٹ کلیئر کرادوں گا۔آپ بے شک 20منٹ بعد ائیر پورٹ پر لینڈ کرجائیں۔پولیس چیف نے ساتھ یہ بھی بتایا کہ کورکمانڈر استنبول بھی ہمارے ساتھ ہیں اور اس بغاوت کا حصہ نہیں ہیں۔پھرمیں نے کورکمانڈر استنبول سے رابطہ کیا۔کورکمانڈر استنبول نے بھرپور اعتماد سے جواب دیا کہ سر آپ استنبول لینڈکریں۔ہم ائیر پورٹ کلیئر کرا کر آپ کا استقبال کریں گے۔دونوں پائلٹس کو میں نے حکم دیا کہ جہاز کا رخ استنبول ائیر پورٹ کی طرف موڑ دیں۔مجھے پھر بتایا گیا کہ صدر صاحب! نیچے گھمسان کی جنگ جاری ہے۔میرے بیوی بچوں نے مجھے کہا کہ آپ پولیس چیف پر اعتماد کرکے اتنا بڑا فیصلہ کیسے لے سکتے ہیں۔کہیں آپ کے ساتھ دھوکا نہ ہورہا ہو۔میں خاموش رہا کیونکہ مجھے اپنے چند افسران پر اندھا اعتماد تھا۔حالات انتہائی کٹھن تھے۔آدھی رات گزر چکی تھی۔مگر میں ہر حال میں استنبول جانے کا فیصلہ کر چکا تھا۔جب جہاز استنبول ائیر پورٹ کی فضاؤں میں پہنچا تو پائلٹ نے مجھے بتایا کہ سر ائیرپورٹ کی تمام لائٹس آف ہیں۔میں نے سوال کیا کہ کیا تم رن وے پر لائٹس کے بغیر جہاز اتار سکتے ہو۔اس نے جواب دیا کہ سر بہت خطرنا ک ہوگا۔موت کو گلے لگانے والی بات ہے۔ عین ممکن ہے باغی فوجیوں نے رن وے پر آرمڈ گاڑیاں نہ کھڑی کی ہوئی ہوں۔جس پر میں نے کہا کہ تم جہاز کا رخ رن وے کی طرف کردو اور پھر جب رن وے کے قریب پہنچو تو پھر فوری جہاز کو ہوا میں لے جانا ۔ایسا عمل چار ،پانچ با ر کرنے سے جہاز کی لائٹس کی وجہ سے تمہیں رن وے واضح نظر آجائے گا ۔پائلٹس نے ایسا ہی کیا۔جونہی ہمارا جہاز رن وے پر اترا ۔ائیر پورٹ کے دونوں طرف لاکھوں عوام کا جم غفیر تھا۔مگر ابھی جہاز رکنے ہی والا تھا کہ ہمارے بالکل اوپر سے درجن بھر ایف 16جنگی طیارے گزرے۔میں نے اپنی زندگی میں اتنی خوفناک آواز کبھی نہیں سنی تھی۔مگر حیران کن طور پر ان طیاروں نے ہم پر بمباری نہیں کی۔حالانکہ یہ طیارے میرے جہاز کو ہٹ کرنے آئے تھے اور انہیں معلوم تھا کہ یہ میرا طیارہ ہے ،مگر عوام کے سمندر نے انہیں ایسا کرنے سے باز رکھا۔جبکہ تحقیقات میں یہاں تک سامنے آیا کہ تین دفعہ باغی فوجیوں نے مجھے نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا مگر مارنے والے سے بچانے والا زیادہ مہربان ہے۔مارمارس میں میری قیام گاہ پر بمباری کی گئی،صدارتی ہاؤس کو نشانہ بنایا گیا اور تیسری مرتبہ ایف 16کی مدد لی گئی۔بغاوت کی تفصیلی کہانی ترک صدر رجب طیب ایردوان نے اپنے قریبی دوستوں کو سنائی ہے مگر یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ایسی کیا چیز تھی جس نے ایردوان کو استنبول آنے پر مجبور کیا۔جب آپ نے عوا م کو ڈلیور کیا ہوتا ہے اور آپکی بھرپور کمٹمنٹ ہوتی ہے تو پھر حکمران موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔طیب ایردوان کی جانب سے فوجی بغاوت کو ناکام کرنا دنیا بھر کی جمہوری قوتوں کے لئے واضح پیغام ہے کہ خدارا عوام تک ان کے حقوق پہنچائیں،کیونکہ جب عوام کی تمام بنیادی ضروریات پوری ہوجائیں گی تو پھر پوری دنیا میں عوامی جم غفیر ایسی بغاوتوں کو اپنے قدموں تلے روندتا ہوا چلا جائے گا۔


.
تازہ ترین