• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کڑے وقت میں دشمن کی چالوں کے شر سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ہم نوا بنانے کے آرٹ کو تخلیقی سفارت کاری کہا جاتا ہے۔ پاکستان اِس وقت داخلی اور بیرونی خطرات میں گھرا ہوا ہے اور بھارت کی گیدڑ بھبکیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اِس نے پاکستان کو سرجیکل اسٹرائیک کا تاثر بھی دیا ہے اور اڑی کا ڈرامہ رچا کر کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کو سبوتاژ کرنے کی بھی کوشش کی ہے جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ برہان وانی کی شہادت نے کشمیری نوجوانوں کا خون گرم کر دیا ہے اور وہ بھارت کے چنگل سے نجات پانے کے لیے اپنی تاریخ کے ساتھ میدان میں اُتر چکے ہیں۔ بھارت کی چھ لاکھ فوج آزادی کے متوالوں کے جذبۂ ایثار سے شکست کھاتی دکھائی دیتی ہے اور بدترین بربریت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ سینکڑوں کشمیری جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں اور ہزاروں بصارت سے محروم ہو گئے ہیں، مگر وہ زخم پر زخم کھا کر ایک نئے جذبے اور ایک نئی قوت سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہیں اور اُن کا وژن تیزتر ہوتا جا رہا ہے۔ جنت نظیر وادیٔ کشمیر بھارت کی چیرہ دستیوں سے جہنم زار بن گئی ہے جس میں کشمیریوں کا جینا حرام ہو گیا ہے۔ ڈیڑھ ماہ پر محیط کرفیو کے دوران زندگی کی بنیادی ضرورتیں ناپید ہیں اور کھانے پینے کی اشیاء کا قحط پڑگیا ہے اور یوں ایک ہولناک انسانی المیہ اکیسویں صدی کے اوائل میں عالمی تہذیب وتمدن کے لیے نہایت گہرے ناسور کی شکل اختیار کرچکا ہے جس کا درد انسانی برادری محسوس کرنے لگی ہے۔ حریت کانفرنس کے سربراہ سید علی گیلانی کے اِس بیان سے درد میں مزید اضافہ ہو گیا ہے کہ وادی میں لاشیں اُٹھانے کے لیے بوڑھے رہ گئے ہیں یا عزت مآب خواتین۔ کشمیریوں کی سرفروشی اور وارفتگی کو دیکھتے ہوئے عالمی مبصرین اِس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور بھارت کے لیے کشمیری عوام کو غلام بنائے رکھنا محال اور نا ممکن ہوتا جا رہا ہے۔
انہی دنوں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس جاری ہے جس میں دنیا بھر کے سربراہانِ مملکت حصہ لے رہے ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم اِس ایک نکاتی ایجنڈے کے ساتھ نیویارک پہنچ گئے ہیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بھارت کے خوں آشام اور انتہائی سنگ دلانہ مظالم دنیا کی سب سے بڑی اسمبلی میں پیش کریں گے اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو تاریخی تناظر میں یاد دلائیں گے کہ اِس نے 68سال پہلے کشمیر کو ایک تنازع قرار دیتے ہوئے کشمیر کے عوام کو ایک آزادانہ اور منصفانہ رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا تھا۔ وزیراعظم نوازشریف نے کشمیر کے مسئلے پر امریکی وزیرِخارجہ جان کیری کے علاوہ برطانیہ اور نیوزی لینڈ کے وزرائے اعظم سے ملاقاتیں کیں اور اُن پر واضح کیا کہ بھارت ستم رسیدہ کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ جو دھمکی آمیز رویہ اختیار کیے ہوئے ہے، وہ علاقائی اور عالمی امن کے بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ ان ہم منصبوں نے مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا جبکہ ترک صدر جناب رجب ایردوان نے کشمیری عوام کے ساتھ کامل یک جہتی کا اظہار کیا اور اوآئی سی کے سیکرٹری جنرل عیاض الدین مدنی جن کا تعلق بھی ترکی سے ہے، انہوں نے کشمیر میں بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی پامالی اور بھارت کی ہٹ دھرمی پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے انتہائی سخت اور باوقار موقف اختیار کیا اور کشمیر کی صورتِ حال کا تفصیلی جائزہ لینے کے لیے اوآئی سی کا وفد بھیجنے کی تجویز بھی پیش کی۔ دراصل وزیراعظم پاکستان نے اِس بار کشمیر کا تھیم دے کر اوآئی سی میں کشمیر رابطہ گروپ کو کسی قدر متحرک کر دیا ہے۔ اِس سے قبل انہوں نے کشمیر کے مسئلے کو عالمی برادری میں ازسرِنو اُجاگر کرنے کے لیے مختلف ممالک میں پارلیمانی وفود بھیجنے کا بھی اہتمام کیا اور جناب اویس لغاری کی قیادت میں جو وفد جنیوا گیا اور اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے ساتھ جو ٹھوس شواہد کی بنیاد پر بات چیت ہوئی، اِس کے اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں اور دوسرے ممالک میں بھی ایک ارتعاش پیدا ہوتا جا رہا ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اس اُبھرتی ہوئی عالمی صورتِ حال کا سامنا کرنے کے بجائے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں جانے سے اجتناب کیا اور اہلِ کشمیر کی تحریکِ آزادی کو دہشت گردی کا رنگ دینے کے لیے اڑی سیکٹر میں فوجی یونٹس پر دہشت گردوں کے حملے کا شاخسانہ تیار کیا گیا۔ بھارتی میڈیا نے شواہد کے بغیر ہی پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگانا شروع کر دیا اور یوں محسوس ہوا جیسے پاکستان کے خلاف طبلِ جنگ بجا دیا گیا ہو۔ اِس امر کا قوی امکان ہے کہ بھارتی وزیراعظم کے علم میں لائے بغیر بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے اِس نام نہاد حملے کی منصوبہ بندی کی ہو جس کا ایک مقصد عالمی رائے عامہ کی توجہ کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی سے ہٹانا اور دوسرا پاکستان کو دہشت گرد ریاست ثابت کرنا ہے۔ بھارت اپنی مستعد سفارت کاری سے اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نظر آتا ہے۔ جنرل اسمبلی میں کچھ ایسا اہتمام کیا گیا کہ وزیراعظم پاکستان کی تقریر سے پہلے افغانستان کے نائب صدر محمد سرور دانش نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ پاکستان سے افغانستان میں دہشت گردی کی جا رہی ہے۔ اس الزام کے باوجود وزیر اعظم پاکستان کا خطاب پورے انہماک سے سنا گیا کہ اس میں مظلوم کشمیریوں کی آواز جذب تھی اور جنوبی ایشیا میں امن اور خوشحالی کے لئے زبردست طلب موجود تھی۔ انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیروں کے ساتھ کئے گئے وعدے پورے کرے، بھارت کو لگام دے، مقبوضہ کشمیر میں وحشیانہ مظالم بند اور کالے قوانین ختم کرائے اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کی فضا ہموار کرے۔وزیراعظم نوازشریف کا خطاب اقوامِ متحدہ کو یہ سوچنے پر مجبور کر دے گا کہ اگر اِسے لیگ آف نیشنز کے عبرت ناک انجام سے بچنا ہے، تو اِس پر لازم آتا ہے کہ مظلوم لوگوں کو بنیادی حقوق دلانے کے لیے نہایت فعال کردار ادا کرے۔ بڑی طاقتوں کی مصلحتوں نے فلسطین اور کشمیر میں انسانوں کو لامحدود اذیتوں سے دوچار کیا اور حقیقی آزادی اور اپنے جائز حقوق حاصل کرنے والے سرفروش ہتھیار اُٹھانے پر مجبور ہوئے اور انتہا پسندی کو محروم طبقات کی زندگی کا حصہ بنا دیا ہے۔ اِس انتہا پسندی نے القاعدہ اور داعش کو جنم دیا جو ایک دنیا میں امن اور سلامتی کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
پاکستان کے موقف سے کشمیر مشن کو جوں جوں تقویت ملتی جائے گی اور مظلوم کشمیریوں کی آواز ہر بین الاقوامی فورم تک پہنچتی جائے گی، توں توں بھارت کی شرانگیزی میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ اِس نے براہمدغ بگٹی کو بھارتی شہریت کی پیش کش کر کے اپنے مذموم ارادے بے نقاب کر دیے ہیں اور یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ وہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے طاقت کا ہر حربہ استعمال کرے گا۔ یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہو گی اور سیکورٹی کونسل حرکت میں آ سکے گی۔ اِس کی خفیہ ایجنسی ’را‘ ایک مدت سے کراچی اور بلوچستان میں تخریب کاری کی پشت پناہی کرتی آئی ہے، مگر ہمارے سیکورٹی اور انٹیلی جنس کے ادارے اِس کے خطرناک منصوبوں کو ناکام بناتے آئے ہیں کیونکہ ’’را‘‘ میں تحقیق کی صلاحیت ہے نہ تجزیے کی۔ اِسی طرح بھارتی افواج بھی پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کی اہلیت نہیں رکھتیں۔ پاکستان نے جو چھوٹے سائز کے ایٹم بم تیار کیے ہیں، وہ اِن فوجی دستوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں جو پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھنے کی حماقت کریں گے۔ یہی سبب ہے کہ بھارتی عسکری قیادت نے اپنے وزیراعظم کو ’ایڈونچر‘ کرنے سے منع کیا ہے۔ اب تمام تر جنگ سفارتی محاذ پر لڑی جائے گی اور ہماری قومی قیادت کو بہت چوکس رہنا اور تخلیقی سفارت کاری کو فروغ دینا ہو گا۔ ہمارے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے بلند اور مستحکم آواز میں اعلان کیا ہے کہ ہم قومی سلامتی کے تحفظ کی خاطر آخری حد تک جائیں گے اور ہر داخلی اور خارجی چیلنج سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ اِسی طرح ہماری تمام تر سیاسی قیادتوں کو یہ مشترکہ اعلان کرنا چاہئے کہ ہم کشمیری عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنی فوج کے شانہ بشانہ نظر آئیں گے۔ ہمارا قومی عزم یہ ہونا چاہیے کہ ہم دستور کی پابندی اور جمہوری عمل کو مستحکم کریں گے اور پُرامن انتقالِ اقتدار کی ضمانت دیں گے۔ سیاسی عمل اور سفارت کاری میں تخلیقی عمل رک جائے، تو جمود اور اضمحلال پیدا ہوتا ہے اور تنہائی بڑھتی جاتی ہے۔ تازہ افکار کی نمو کیلئے ہمیں پورے ملک میں تھنک ٹینکس کا ایک جال بچھا دینا اور ماہرین کی ایک ایسی فوج تیار کرنا ہو گی جس کو زیادہ سے زیادہ دوست بنانے اور اختلافات کو شائستگی سے طے کرنے کا ہنر آتا ہو۔


.
تازہ ترین