• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محبت میں ہمیشہ بے وفائی کا خدشہ موجود رہتا تھا۔ عشق میں بے حال ہو جانے والوں کے دل بھی دھڑکتے رہتے ہیں کہ نہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے۔ وطن سے محبت کا معاملہ مختلف ہے۔ ایک تو اس میں عوض مانگنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی، نہ ہی اس تعلق میں شکوک و شبہات کی کوئی گنجائش ہوتی ہے۔ ہاں دونوں صورتوں میں ایسے مقام آ سکتے ہیں کہ جب آپ کو اپنی وفا کا امتحان دینا پڑتا ہے۔ وطن سے محبت کبھی آپ سے انتہائی قربانی کا مطالبہ بھی کر سکتی ہے لیکن عام حالات میں بھی یہ احساس ضروری ہے کہ آپ کا اپنے وطن، اپنے ملک سے ایک خاص رشتہ ہے۔ یہی آپ کی پہچان ہے البتہ یہ ضروری نہیں کہ آپ ہر روز اپنے وطن سے وفاداری کا اعادہ کریں۔ یہ رشتہ تو آپ کے رگ و پے میں سرایت کئے رہتا ہے۔ ہاں کبھی کبھی کوئی ایسی ہنگامی یا ہیجانی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے کہ جب آپ سے توقع کی جا سکتی ہے کہ آپ کسی نہ کسی طرح اس رشتے کی توثیق کریں یا اپنے آپ ہی حب الوطنی کے جذبات آپ کے دل میں امڈ آئیں۔ میرا خیال ہے کہ ان دنوں کچھ ایسی ہی کیفیت ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشمکش اور تنائو میں اضافہ ہوا ہے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ کہیں دور جنگ کا طبل بج رہا ہے۔ میڈیا کی سرحدوں پر ہنگامہ بپا ہے۔ سرکاری اور عسکری سطح پر بھی ہر طرح کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔ عام لوگ بھی اس جنگی جنون سے متاثر ہوئے ہیں جسے میڈیا نے ابھارا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم نواز شریف کے خطاب سے درجۂ حرارت میں کسی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کسی بھی فورم پر ہندوستان سے غیر مشروط مذاکرات کیلئے تیار ہے۔
جب میں نے وطن سے محبت یعنی حب الوطنی کا تذکرہ کیا تو شاید آپ نے سوچا ہو کہ میں متحدہ قومی موومنٹ یعنی ایم کیوایم کے بحران کا حوالہ بھی دوں گا۔ یہ اس لئے ممکن ہے کہ یہاں بھی پاکستان کے خلاف اور پاکستان کے حق میں لگائے جانے والے نعروں کی بازگشت موجود ہے۔ پاکستان سے محبت کا پرجوش اور جذباتی اظہار کیا جا رہا ہے۔ یہ مانتے ہوئے کہ ایم کیوایم کی کہانی کے حیرت انگیز اور ڈرامائی موڑ تفصیلی مشاہدے اور تبصرے کے مستحق ہیں اور نہ صرف کراچی اور سندھ بلکہ پاکستان کی سیاست پر اس کے دوررس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ میں اس وقت ایم کیوایم کو اپنا موضوع نہیں بنا رہا، ایم کیوایم میں رونما ہونے والی تبدیلیاں ابھی ناتمام ہیں۔ بہت کچھ ابھی ہونا باقی ہے۔ یوں بھی ایم کیوایم نے منزل کے بجائے رہنما کی آرزو میں وفاداری اور غداری کے نئے معیار مقرر کئے ہیں اور وہ دن بھی تھے جب اس غداری کی سزا بھی وہی تھی جو وطن سے غداری کیلئے جائز تصور کی جاتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تنظیم کی حد تک جرم اور سزا کے حکم نامے کون، کب جاری کرتا ہے۔ سو ایم کیوایم پر ایک سرسری نظر ڈال کر ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ یوں بھی جنوبی ایشیاکے دو بڑے ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ملکوں کے باہمی تعلّقات کو اس ہفتے زیادہ اہم سمجھا جانا چاہئے اور ان تعلّقات کے پس منظر میں ہی میں نے وطن سے محبت کے ذہنی اور جذباتی عوامل کا پیچیدہ نکتہ اٹھایا ہے۔ یہ خیال مجھے یوں آیا کہ اس ہفتے کئی محفلوں میں میرا واسطہ ایسی گفتگو یا بحث سے پڑا جس میں ’زندہ باد‘ کے بھرپور بلکہ جارحانہ اظہار کے دوران امن اور دوستی کی دلیل دینے والوں کی حب الوطنی کو شک کی نظر سے دیکھا گیا۔ ایسی گفتگو میں غم اور غصّے کی ملاوٹ ماحول کو کافی کشیدہ بنا دیتی ہے۔ اصولاً تو وطن سے محبت کا جذبہ مخصوص حالات میں اتحاد اور یکجہتی کی بنیاد بن جاتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ سب کے دل ایک ساتھ دھڑک رہے ہیں۔ کرکٹ کے میچ کے ڈرامائی لمحے اس احساس کی موجودگی کا ایک ثبوت فراہم کرتے ہیں پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ کسی کی حب الوطنی پر شک کرنے کے جو رویّے پاکستان میں موجود ہیں وہ غیر معمولی ہیں۔ علاقائی قوم پرستوں کے بارے میں ایسی باتیں کی جاتی ہیں۔ قومی اسمبلی میں بھی شکایتوں سے لبریز ایسی تقاریر کی گئی ہیں جن سے ’زندہ باد‘ حلقے بہت ناراض ہوئے ہیں۔ لبرل اور روشن خیال فکر بھی اکثر جذباتی ردّعمل کا سبب بنتی ہے۔
یہ بات تو سچ ہے کہ پاکستان ایک وطن کی حیثیت سے دوسرے ملکوں اور دوسری اقوام سے مختلف ہے اور کتنے ممالک ہیں جن کے مستقبل کے بارے میں اتنے سوالات اٹھائے جاتے ہوں؟ یہاں میں اسرائیل کی بات نہیں کر رہا۔ سوچنے اور کہنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے تمام علاقوں کے شہریوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ وطن سے محبت کیا ہوتی ہے اور اس سے وفاداری کے تقاضے کیا ہوتے ہیں؟ یہ بھی ماننا چاہئے کہ ہم سب اپنے اپنے انداز میں محب وطن ہیں۔ میری نظر میں اس محبت کا آغاز اپنے والدین، اپنے بچّوں، اپنے گھر اور خاندان سے محبت سے ہوتا ہے۔ یہ تو ناممکن ہے کہ ہم اپنے خاندان اور گھر کی خوشی اور حفاظت کیلئے جدوجہد اور دعا نہ کریں۔ یہی رشتے تو ہمیں اپنے معاشرے سے پیوستہ رکھتے ہیں۔ اس دائرے کو پھیلا دیں تو محلّے، شہر، علاقے اور ملک بلکہ ساری دنیا سے تعلّق کی کئی جہتیں واضح ہوتی جائیں گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان تعلّقات کی بنیاد سماجی انصاف، انسانی اقدار اور وہ جمہوری روایات ہیں جو آزادی سے عبارت ہیں۔ اس مقام پر کئی سوالات ہمیں گھیر لیتے ہیں۔ ایک سوال یہ ہے کہ ہم نے ایک قوم کی حیثیت سے اپنی آزادی سے کیا حاصل کیا ہے یعنی ہم کس حال میں ہیں، ہم اپنے بچّوں، اپنے گھر اور اپنے ملک کی حفاظت کے کتنے اہل ہیں؟
بدنصیبی کی بات یہ ہے کہ اگر ہم آنکھیں کھول کر دیکھیں تو سامنے کا منظر ہمارے ہوش اڑا دے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ ہمیں سماجی شعبے میں اپنی پسماندگی کا کوئی نیا اشارہ نہ ملے۔ کم خوراکی سے ہمارے بچّوں کے اذہان اور جسم مفلوج ہوتے جا رہے ہیں۔ انسانی وسائل کا معیار گرتا جا رہا ہے۔ مقتدر طبقے کی بدعنوانیاں عروج پر ہیں۔ اب اگر کوئی اس اندھیرے کی طرف دیکھے اور اس میں چھپے ان خطرات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرے کہ جن سے پاکستان کا دفاع مجروح ہو رہا ہے تو شکایت کی جا سکتی ہے کہ یہ وقت ان خامیوں کے ذکر کرنے کا نہیں ہے۔ کسی حد تک یہ اعتراض جائز ہے کہ اس مشکل وقت میں ہماری توجّہ ملک کو درپیش چیلنج پر مرکوز ہونا چاہئے۔ گویا سمجھنا یہ ہے کہ یہ چیلنج کیا ہے؟ عسکری، سیاسی اور سفارتی سطح پر اس کی تشریح کی جاتی رہی ہے لیکن قومی اورفکری معنوں میں یہ گفتگو یا تو مفقود ہے یا بہت محدود…جب تک ہم یہ نہیں سمجھیں گے کہ ہم یہاں تک کیسے پہنچے، ہم اپنے لئے نئی راہیں کیسے تلاش کریں گے۔ یہ وہ مسائل ہیں جن پر ہم نے کبھی کھل کر اور پوری دیانت داری سے گفتگو نہیں کی۔ موجودہ مشکل حالات میں بھی اس گفتگو کو ٹالا نہیں جانا چاہئے۔ یہ مثال دیکھیے کہ مشرقی پاکستان سے علیحدگی ہمارے لئے کتنا بڑا المیہ تھا لیکن ہم نے اسے اپنی اجتماعی یادداشت اور اپنی درسی کتب سے محو کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک اور سچائی ہے جس کا ہم سامنا نہیں کر پائے اور اس جرم میں ہمارا جنوبی ایشیائی پڑوسی برابر کا شریک ہے۔ تقریباً 70سال پہلے جب ہم آزاد ہوئے تو یاد کیجئے کہ دنیا کس حال میں تھی۔ دوسری جنگ عظیم کو ختم ہوئے بس دو سال گزرے تھے اور یورپ کی تباہی کی نشانیاں ابھی باقی تھیں۔ چین اپنی آزادی سے دو سال دور تھا۔ یہ سچ ہے کہ ہماری آزادی قتل و غارت گری اور انسانوں کی غیر معمولی نقل مکانی سے عبارت تھی لیکن دوسرے ممالک بھی اپنے اپنے عذاب میں مبتلا تھے۔ تب یہ بھی کہا گیا تھا کہ قدیم تہذیبوں کی وارث اور جمہوریت کی علم بردار یہ سرزمین عالمی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کرنے والی ہے لیکن اب دیکھیے کہ باقی دنیا کا کیا حال ہے اور جنوبی ایشیاکے عوام کس اذیت میں مبتلا ہیں۔ یورپ نے ہمیں تاریخ کا نیا سبق سکھایا ہے اور ہم یہ بھی نہیں سمجھ پا رہے کہ ہماری حب الوطنی ہم سے کیا مانگ رہی ہے۔


.
تازہ ترین