• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، لوگوں کو آئے دن کوئی نہ کوئی دن مناتے دیکھ رہے ہیں۔ والدہ کا دن، محبوب کا دن، مزدوروں کا،محنت کشوں کا دن۔ نوعمری میں، سنہ45ء کے لگ بھگ ہم تعلیم کا دن مناتے تھے اور شہر میں اسکول کے لڑکوں کا جلوس نکالا جاتا تھا۔ سارے بچّے نعرہ لگایا کرتے تھے:’ علم کا بول بالا، جہالت کا منہ کالا‘۔سچ تو یہ ہے کہ دنیا والے کسی نہ کسی بہانے کوئی نہ کوئی دن مناتے ہیں۔ ایک دوسرے کو کارڈ یا پھول بھیجتے ہیں، تحفے دیتے ہیں یا مل جل کر دھومیں مچاتے ہیں۔ یکم مئی کو پوری دنیا میںمحنت کشوں کا دن ’یوم محنت‘ منایا جاتا ہے۔ اس دن کا نعرہ ہوتا ہے کہ دنیا کے محنت کشو،ایک ہو جاؤ۔ دکھ یہ ہے کہ بس یہی نہیں ہوتا، ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا۔
محنت پر خیال آتا ہے کہ ہم نے اخبار اور ریڈیومیں پچا س سال سے زیادہ جو محنت کی، یوں سمجھئے کہ زندگی کے یہ بے شمار دن ڈیسک پر ترجمہ کرتے گزارے۔ رات دن، صبح و شام جو کام مسلسل کرتے رہے وہ بیشتر ترجمہ ہی تو تھا۔اس مشقت میں ہم نے بال سفید کرلئے، صحت کو داؤ پرلگایا اور کتنے ہی دکھ جھیلے، مگر دنیا کو کبھی ترجمہ کرنے والوں کا دن مناتے نہیں دیکھا۔ کبھی نہیں سنا تھا کہ ہر سال ستمبر کی تیس تاریخ کومترجموں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ بات اس لئے نہیں کہی جارہی ہے کہ ترجمہ کرنے والے بڑے مظلوم ہوتے ہیں، ان سے اظہار ہمدردی اور یک جہتی کی خاطر ان کا دن بھی منالیا جائے۔ بلکہ ایک بات تو طے ہے اور وہ یہ کہ ترجمہ کرنا ایک بہت بڑا فن ہے جو بڑی ریاضت اور مشقت کے بعد آتا ہے۔ ترجمہ کرنے والا کسی کے لکھے کو اپنی یا کسی دوسری زبان میں منتقل نہیں کرتا بلکہ ادبی یا علمی تخلیق کو وسعت دینے اور دور دور تک پھیلانے کا کارنامہ سرانجام دیتا ہے۔ اس کی تفصیل میں ذرا دیر بعد جائیں گے، پہلے اپنے وہ دن یاد کرلیں جب اخباری صنعت میں نیا نیا قدم رکھا اور خیر خواہوں اور دیگر خواہوں کو علم ہوا تو ایک جانب مبارک باد ملی اور دوسری جانب یہ سننے کو ملا کہ ٹرانسلیٹر ہوئے ہیں۔ مترجم کا کام ملا ہے۔ اب عمر بھر اسی بھٹّی میں جھونکے جائیں گے۔ اور آگے آپ خود سوچ لیجئے۔
مترجم کا کام شروع کرتے ہوئے خود ہمیں بھی یہی لگا کہ بقول شخصے مکھی پر مکھی مار رہے ہیں۔ سامنے جو انگریزی عبارت ہے اسے پڑھتے ہیں اور اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اسی بات کو اپنی زبان میں بیان کرنے کی اچھی یا بری کوشش کرتے ہیں۔ پھر جب شعور نے ذرا سی آنکھ کھولی، اور دنیا کے اعلیٰ ادب کا اپنی زبان میں ترجمہ پڑھا۔ یہی نہیں،جب اسی ادب کو پرکھنے کے لئے موازنے کی خاطراس کی اصل کی طرف لوٹے تو پتہ چلا کہ گورکی کی ماں جب اردو میں ڈھلی تو اس پر کیسا نکھار آیا۔ ارنسٹ ہیمنگ وے کا بوڑھا اور سمندر جب اردو کے ساحل پر لگا تو مچھلیوں سے اس کے مکالمے میں کون سے رموز پنہاں تھے۔ترجمہ کرنے والے کا کمال یہی ہے کہ وہ تفہیم کے ایسے ایسے دریچے وا کرتا ہے جو اس سے پہلے ہماری فہم میں نہ تھے۔ مجھے محلے کی وہ دو آنہ لائبریری عمر بھر یاد رہے گی جس کے شیلف پر یہاں سے وہاں تک اردو ناول چنے ہوتے تھے۔ اس وقت یہ احساس بھی نہیں ہو ا کہ ان میں زیادہ تر انگریزی سے ترجمہ ہوتے تھے۔ کیسا کیسا اعلیٰ اور پست ادب دو آنہ روز کے عوض ہمارے گھروں میں نہ صرف آتا تھا بلکہ پڑھا جاتا تھا۔ ان ناولوں سے ذرا سی شدبد رکھنے والا ایک نام کبھی نہیں بھول سکتے اور وہ ہے منشی تیرتھ رام فیروز پوری کا نام۔ ترجمہ ان کا پیشہ نہیں تھا، ان کی جبلّت تھی۔ منٹو نے کسی جگہ ان کے خاکے میں لکھا ہے کہ تیرتھ رام کہا کرتے تھے کہ میں جب انگریزی تحریر پڑھتا ہوں تو دو سطروں کے درمیان مجھے اردو ترجمہ نظر آتا ہے۔ ان کے ترجمے نہ ہوتے تو ہم کونن ڈائل کے آتشی کتّے سے واقف نہ ہوتے۔ گوگل میں سی ایم نعیم کا لکھا ہوا مقالہ موجود ہے جو تیرتھ رام فیروزپوری کی زندگی پر پڑے پردے نہ صرف اٹھاتا ہے بلکہ بڑی دیانت سے ان پردوں کے پیچھے روپوش سچائیا ں کہہ سناتا ہے۔ مثلاً یہ کہ فیروز پور میں ہائی اسکول سے زیادہ تعلیم نہ تھی اور منشی جی کی تعلیم بھی بس اتنی ہی تھی۔ اپنے شروع شروع کی ایک تحریر میں انہوں نے آرکسٹرا کو ’آرچسٹرا‘ لکھا تھا۔ لیکن آگے چل کر شہر لاہور کے علمی اور ادبی ماحول نے ایسی جلا بخشی کہ تیرتھ رام فیروز پوری نے اپنی زندگی میں ڈیڑھ سو کتابیں لکھیں جن میں زیادہ تر انگریزی سے ترجمہ تھیں او ران کے صفحات کل ملا کر ساٹھ ہزار بنتے ہیں۔ خصوصاًان پر تحریر کی جولانی کا جو دور آیا اس میں انہوں نے بیس برسوں میں ستائیس ہزار صفحے ترجمہ اور شائع کئے۔ بر صغیر کی تقسیم نے ان کے کام میں اڑنگا ڈالا۔یوں وہ 1954ء تک زندہ رہے۔ ان کا نام ابھی ذہنوں سے محو نہیں ہوا ہے۔ یہ بھی ترجمے کی دین ہے۔
ہمارے دوست محمد عمر میمن ادب اور اردو کے سرکردہ استا د ہیں ۔امریکہ میں رہتے ہیں۔ بے حد پڑھے لکھے ہیں لیکن ان کا اصرار ہے کہ ان کی بیگم ان سے کہیں زیادہ پڑھی لکھی ہیں حالانکہ وہ جاپانی ہیں اور انگریزی برائے نام جانتی ہیں۔ ان کی علم دوستی کا راز ان کے شوہر نامدار یہ بتاتے ہیں کہ دنیاکے کسی بھی علاقے میں اعلیٰ سے اعلیٰ کتاب چھپتے ہی راتوں رات جاپانی میں ترجمہ ہو کر بازار میں آجاتی ہے اور خاتون جھٹ خرید کر پڑھ ڈالتی ہیں۔ اس معاملے میں جاپان والے بہت تیز ہیں۔میری مراد ترجمے کی برق رفتاری سے نہیں، حصول علم کے شوق سے ہے۔ خود محمد عمر میمن ترجمے کے استاد ہیں۔ اعلیٰ اردو ادب کو انگریزی میں منتقل کرتے ہیں اور یہی حال اردو تراجم کاہے۔ اپنی مشقت کا احوال خود بتاتے ہیں۔ ایک ایک لفظ کے پیچھے سرگرداں رہتے ہیں۔کوئی بات سمجھ میں نہ آئے اور اس کا مصنف اگر زندہ ہو تو اس سے رابطہ کرکے کہتے ہیں کہ مجھے سمجھاؤ۔
کہتے ہیں کہ ہندوستان کے ایک عالمِ دین مصر تشریف لے گئے جہاں ان کی ملاقات مصر کے ایک بڑے عالمِ دین سے ہوئی جنہوں نے ہندوستانی عالم سے کہا کہ سنا ہے آپ کو قرآن کے ترجمے کا دعویٰ ہے۔ اس پر ہندوستانی عالم نے کہا کہ ہمیں تو صرف ترجمے کا دعویٰ ہے، سناہے کہ آپ کو قرآن کی ترجمانی کا دعویٰ ہے۔یوں سچ تو یہ ہے کہ وہ ترجمانی ہی ہوتی ہے جسے ہم ترجمے کا نام دیتے ہیں۔ ترجمے کا صرف مترجم کی اپنی سمجھ بوجھ اور اظہار کی استعداد ہی سے تعلق نہیں، اس کا مترجم کے دور اور زمانے سے بھی تعلق ہے۔ قدیم یونانی ادب کے شہ پاروں سے لے کے قرون وسطیٰ کی تخلیقات تک سوبرس پہلے بھی ترجمہ ہوئیں، پھروہی تخلیقات پچاس برس پہلے ترجمہ ہوئیں، اور ابھی پچھلے برس بھی ہوئیں اور اگلے سال بھی ہوں گی۔ٹالسٹائی کے ایک مشہور ناول کا ابھی دو چار مہینے پہلے کوئی جدید ترجمہ بازار میں آیا ہے۔ لوگ خرید رہے ہیں۔
ترجمہ ایک شاخ سے دوسری شاخ تک اڑنے والا پرندہ ہے۔ یہ ایک ٹہنی سے اڑان بھرتا ہے، راہ میں اپنا چولا بدل کر اس شاخ کا چولا اختیار کرتا ہے جہاں اسے اترنا ہے۔ وہ ایک ضابطے کی زنجیروں سے خود کو آزاد کرتاہے، دوسرے رویّوں کا احترام اپنے اوپر طاری کرتا ہے، تب کہیں وہ اس شہر میں اترتا ہے جسے ہم شہر ِ ترجمہ کہیں تو غلط نہ ہوگا۔ ترجمہ زبان کا نہیں، رویے کا ہوتا ہے۔ زبا ن ہی نہیں بدلتی، اس کی لطافت کے ڈھنگ بھی بدلتے ہیں۔ لطیفے کا ترجمہ ممکن ہیں۔ پنجابی لطیفے کا کوئی نعم البدل نہیں،دشنام طرازی کو بھی ڈھالنا مشکل ہے۔غزل کا ترجمہ نہیں ہوسکتا۔ ذراسوچئے کہ کیاکوئی انیس کے اس مصرعے کا ترجمہ کر سکتا ہے : ’آج شبیر پہ کیا عالمِ تنہائی ہے‘۔
مختصر یہ کہ 30 ستمبر ترجمے کا عالمی دن ہے۔ کراچی میں جمعہ کی شام دانش وروں کی نشست ہو رہی ہے۔ اکابرین اظہار خیال کر رہے ہیں۔ انہیں اپنی نیک تمنائیں بھیجتے ہوئے یہ اعتراف بھی کرتا چلوں کہ best wishesکا یہ نہایت کمزور ترجمہ ہے۔ معافی چاہتا ہوں۔


.
تازہ ترین