• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حیدرآباد سندھ میں نوجوان خاتون اور انقلابی سیاسی کارکن بینظیر قادری اور اسکے ساتھی نوجوان مصطفی شیخ کے مبینہ قتل کو تین ماہ سے زائد عرصہ ہو چکا ہے لیکن انکے ورثا ہیں کہ اب تک انصاف کیلئے بھٹکتے پھرتے ہیں۔ ان نوجوان مقتولین کے ورثاء دوست و احباب ساتھی انکی ہلاکتوں کو قتل جبکہ پولیس اس پر مصر ہے کہ بینظیر قادری اور مصطفی شیخ کی جلی سڑی ہوئی لاشیں محض اتفاقی اموات تھیں۔ ہوا یوں تھا کہ سترہ جون کو بینظیر قادری اور مصطفی شیخ ترتیب وار ایک بجے دوپہر کے قریب اپنے دفتر اور گھر سے نکلے تھے اور سر شام سپر ہائی وے کے قریب ایک کار میں دو لاشیں مرد اور عورت کی پڑی ہوئی کی خبریں سوشل میڈیا پر آنے لگی تھیں۔ ان سوختہ لاشوں کی شناخت بعد میں بینظیر قادری اور مصطفی شیخ کے طور پر ہوئی۔ بینظیر قادری اور مصطفی شیخ ایک دوسرے کے کلاس فیلو تھے اور دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے جنکی شاید منگنی ہونیوالی تھی۔
مصطفی شیخ کا تعلق ایک کاروباری اور بیوروکریٹوں کے خاندان سے ہے جبکہ بینظیر قادری بائيں بازو کی سیاست سے تعلق رکھنے والی سرگرم کارکن اور ایک مقامی ادارے میں کام کرتی تھی۔
پولیس نے ان ہلاکتوں کو اتفاقی حادثہ قرار دیا جو بقول انکے کار کا زیادہ ایئر کنڈیشنر چلانے کی وجہ سے ممکنہ طورپر گیس کے اخراج سے ہوا۔ مبینہ طور پرپولیس کے ہی اصرار پر ان جھلسی ہوئی لاشوں کو بغیر کسی پوسٹ مارٹم کے دفنا دیا گيا...یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا۔
ایک نظریہ یہ تھا کہ اس نوجوان جوڑے کو غیرت کے نام پر قتل کردیا گيا۔ دوسرا نظریہ ہے کہ ان دونوں کو دشمنی اور حسد کی بنیاد پر انتہائی ایک منصوبے کے ساتھ بظاہر پر اسرار حالات میں قتل کردیا گیا ہے۔
حیدرآباد کی "ہاف فرائی" "فل فرائی " پولیس جو کہ ویسے بھی تفتیش، گرفتاریوں اور عدالتی چارہ جوئی میں زیادہ یقین نہیں رکھتی۔ اب جبکہ اسکے دبنگ افسروں نے ان دوہرے سفاکانہ قتلوں کو " اتفاقی حادثاتی اموات" قرار دے ہی دیا ہے تو پھر انکی کارکردگی پر سوالات اٹھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔لیکن بینظیر قادری کے ورثاء، اسکے پارٹی ساتھی، اور سندھ کی خواتین انسانی حقوق کی سرگرم کارکن اور احباب ہیں کہ جنہوں نے سترہ جون سے اب تک بینظیر قادری کیلئے انصاف کی ٹھانی ہوئی ہے۔ یہ لوگ سڑکوں پر ہیں۔ پریس کلبوں کے سامنے ہیں۔ پریس کلبوں کے اندر متحرک ہيں۔ احتجاجی ہیں۔
حال ہی میں پاکستان میں خواتین کی انسانی آئینی اورقانونی حقوق کیلئے نمائندہ تنظیم ویمن ایکشن فورم کے سندھ چیپٹر کی سرگرم کارکنوں نے بھی حیدرآباد کی سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے کے ذریعے اہل اقتدار، اختیار اور سول سوسائٹی کے ضمیر کے دروازوں پر دستک دی ہے۔ اہل اختیار اور اقتدار کیلئے اگر ضمیر کوئی داخلی معاملہ ہے تو کم از کم وہ اپنے فرائض کا تو کچھ خیال کرلیں۔ مانا کہ قانون اندھا ہوتا ہے لیکن انصاف اور انصاف کے حصول کیلئے بھٹکنے دھکے کھانے والے بینظیر کے ورثاء کی تو آنکھیں ہیں۔ انہیں انصاف ہوتا کہیں دکھائی تو دے۔ سندھ کے حکمران جو ایک بینظیر کو اب تک انصاف نہیں دلا سکے دوسری اس بینظیر اور اسکے ساتھی مصطفی شیخ کو تو انصاف دلائیں۔ ویمن ایکشن فورم سندھ کی سرگرم کارکن اور لکھاری حسین مسرت شاہ سے جب میں نے بذریعہ سوشل میڈیا ان ہلاکتوں پر بات کی تو انہوں نے جوابات کے بجائے یہ سوالات اٹھائے:"اگر ان متوفین کی گاڑی خودکار لاک کے ذریعے اندر سے بند تھی تو پھر لاک کھولا کسطرح گيا؟ جو شخص گھر کے قریب کے گيراج سے لاشیں لیکر آیا تو اس نے سب سے پہلے متوفین یا مقتولین کے اعزا کو اطلاع کیوں نہ دی؟ اگر دونوں متوفین کے موبائل فون کی بیٹریاں ختم ہو گئی تھیں تو پھر انکو چارج کس نے کیا ؟اور مصطفی کا فون کسطرح چالو کر کے اطلاع دی؟ کار کے اندر اگر گیس کے اخراج سے انسانی جسم گل سڑ گیاتو پھر کار کے ایئر کنڈیشنر کو کچھ کیسے نہیں ہوا؟ گاڑی بڑے آرام سے لاشیںاسپتال چھوڑ کر روانہ کیسے ہوگئی؟ ہلاکتوں کی آلہ واردات ہونیوالی گاڑی کو پولیس نے چھوڑ کیسے دیا؟ اور پھر ہلاکتوں کے ایک ہفتے بعد پولیس نے کار کو اپنی تحویل میں کیوں لیا؟
یہ ایسے سوالات ہیں جن پر نہ کوئی تا حال تفتیش ہوئی ہے اور نہ ہی پولیس متوفین کے لواحقین کے اطمینان کیلئے ان سوالات کے جوابات لارہی ہے۔بینظیر قادری کے کچھ اعزا خود مصطفی کے خاندان کے ایک فرد پر بھی انگلی اٹھاتے ہیں جو مصطفی کاکاروبار میں ساجھے دار یا پارٹنر تھا اور ایک جج کا رشتہ دار ہے۔ بینظیر کے یہ اعزا ان ہلاکتوں کو کاروباری یا شخصی رقابت سے بھی تعبیر کر رہے ہیں۔بینظیر قادری سندھ میں جانی پہچانی سیاسی کارکن اور ذہین شخصیت تھیں، اسکا اپنے خاندان کے کچھ لوگوں کی طرح واسطہ بائیں بازو کی سیاسی پارٹی عوامی ورکرز پارٹی سے تھا۔ کتنی المناک بات ہے کہ وہ بینظیر قادری جو کہ اپنے مبینہ قتل سے ایک دن پہلے تک سندھ اور ملک میں قتل ہونیوالی تشدد سہنے والی عورتوں کیلئے ہر جگہ پر اپنی آواز اٹھاتی رہتی تھی، آج اسکے ساتھی ا سکے خون سے انصاف کا مطالبہ لیکر سڑکوں پر ہیں۔ یہ ایک اور بینظیر کا قتل ہے۔ کیا اس بینظیر سے انصاف ہوگا کہ نہیں؟
یہ سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ سے بھی سوال ہے جو کہ بہتر طرز حکومت کادعویٰ کر رہے ہیں۔ لیکن عملی طور پرایسا کچھ بھی نہیںہورہا سوائے سرکاری ملازمین اور سرکاری اعلیٰ عہدیداروں کی انکے دفاتر اور ملازمتوں پر حاضری بہتر ہونے کے۔ وہ تو فوجی آمریتوں میں بھی ہوتا ہے کہ بس ٹرینیں وقت پر چلنے لگتی ہیں۔ باقی کارکردگی وہی ہے۔ پرانی شراب نئی بوتلوں میں ہے۔ بس عمر کے فرق کے علاوہ باقی جوں کا توں جا رہا ہے۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو بیدل مسرور سندھ کی جدید اور با مقصد شاعری کو گانے والا جسے سندھ کے لوگوں نے چلی کے گٹارسٹ اور گیت کار وکٹر ہارا سے تشبیہ دی تھی یعنی سندھکا وکٹر ہارا قرار دیا تھا ،بھی اپنے ساتھ انصاف کو آج کے دن علامتی بھوک ہڑتال اور کل تک سڑکوں پر نہ ہوتا۔
سچل گوٹھ کراچی میں بیدل مسرور کے گھر پر ڈاکہ پڑا جہاں اس صوفی منش بیدل مسرور کی عمر بھر کی کمائی ڈاکو لوٹ کر چلے گئے۔ سچل گوٹھ میں جہاں سندھ کا با شعور طبقہ اندرون سندھ بدامنی سے تنگ آکر آباد ہوا تھا وہاں پر آئے دن بدامنی کی صورتحال ہے جہاں کتیا چوروں کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ صرف بیدل نہیں کتنے ہی اور شریف شہریوں اور سندھی معتبرین کے ساتھ ڈاکہ زنی کی وارداتیں ہوچـکی ہیں۔ اسی لئے سندھی ادیب اور شاعر بیدل مسرور بدوی کے ساتھ احتجاج پر ہیں۔ یہ سب کچھ اسوقت ہورہا ہے جب دوسری طرف سندھی ادیبوں شاعروں کو خریدنے کیلئے سندھ میں منڈی لگی ہوئی ہے۔


.
تازہ ترین