• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رمضان میں کھانے پینے کے تمام ریستوران اور دکانیں کھلی رہتی ہیں، کسی کا روزہ خراب نہیں ہوتا، قرضوں پر سود وصول کیا جاتا ہے، خواتین کے مقابلہ حسن منعقد کئے جاتے ہیں، ملک میں جوئے خانے ہیں، نائٹ کلب اور ڈسکوز بھی، مے فروشی کی اجازت ہے، اس کے باوجود کسی کا ایمان خطرے میں نہیں پڑتا، ہر کوئی اپنے عقیدے کے مطابق کھاتا ہے پیتا ہے اور اپنی مرضی کا لباس پہنتا ہے جو سر سے پیر تک حجاب بھی ہو سکتا ہے اور گھٹنوں سے اونچی شارٹس بھی، ائیرہوسٹس دھوتی نما اسکرٹ پہنتی ہیں جس کی تفصیل بیان کرنا مناسب نہیں..... یہ اس ملک کی بات ہے جسے مسلم دنیا ایک ماڈل اسلامی ملک سمجھتی ہے..... ملائشیا!
یہاں کرپشن اور سرکار لازم و ملزوم ہیں، موجودہ حکومت کے کارپردازوں کے بارے میں عام تاثر ہے کہ وہ بدعنوان ہیں، وزیراعظم کی اہلیہ کی شاہ خرچیوں اور شاپنگ کی کہانیاں زبان زدعام ہیں، بات صرف شاپنگ تک محدود نہیں بلکہ حکومت کے کلیدی فیصلے بیگم صاحبہ ہی کرتی ہیں۔ سیاسی اثر رسوخ کی بڑی اہمیت ہے، آپ اگر عام آدمی ہیں تو قانون کی کتاب کھول کر آپ کو اصول و ضوابط سمجھائے جائیں گے لیکن اگر آپ کے تعلقات حکومتی ایوانوں میں ہیں تو ملائشیا کا ریزیڈنٹ پرمٹ بھی آپ کو عنایت کیا جا سکتا ہے جس کا حصول عام حالات میں قریباً ناممکن ہے کیونکہ ملائشیا میں کسی کو شہریت نہیں دی جاتی، تارکین وطن یہاں برس ہا برس سے ویزے پر رہ رہے ہیں، انہیں اپنا پاسپورٹ ہر وقت ساتھ رکھنا پڑتا ہے، پولیس روک کر پاسپورٹ مانگ سکتی ہے اور نہ ہونے کی صورت میں رشوت بطور گفٹ وصول کرکے آئندہ محتاط رہنے کا مشورہ دے کر چھوڑ دیتی ہے۔ تاہم پولیس کی یہ سہولت صرف غیرملکیوں کے لئے ہے، کسی مقامی سے ’’گفٹ‘‘ نہیں لیتی! مقامی لوگوں میں تین قسم کے لوگ ہیں، ایک وہ جنہیں یہاں ’’بھومی پتر‘‘ کہا جاتا ہے جو اصل ملائے ہیں یعنی ’’سن آف سوائل‘‘، دوسرے چینی اور تیسرے نمبر پر ہندوستانی جن میں زیادہ تعداد تامل مسلمانوں کی ہے، اس کے بعد پاکستانی اور بنگلہ دیشیوں کا نمبر آتا ہے۔ چینی کا معاملہ خاصا دلچسپ ہے، ان کی اگر تین نسلیں بھی ملائشیا میں پیدا ہوئی ہیں اور ان میں سے کسی نے بھی چین کی شکل نہیں دیکھی تو بھی انہیں ملائشیا میں چینی ہی کہا جائے گا، گویا یہ نسلاً چینی ہیں ان کا ملک چین سے کوئی تعلق نہیں، یہ گھر میں چینی زبان بولتے ہیں، چینی کھانے کھاتے ہیں، پورے ملائشیا میں کاروبار پر زیادہ تر انہی کا قبضہ ہے، یہ سیاست سے دور رہتے ہیں۔ سیاست پر ملائے لوگ چھائے ہوئے ہیں، مہاتیر محمد اب بھی مقبول ہیں مگر جب سے انہوں نے ملائشیا کی مین اسٹریم پارٹی سے ہٹ کر اپنی علیحدہ جماعت بنائی ہے ان کا سیاست میں اثر کم ہو گیا ہے، ایک زمانے میں وہ سیاست چھوڑ چکے تھے اور پس پردہ رہ کر ایک قائد کا کردار ادا کرنا چاہتے تھے جو شاید ممکن نہیں تھا۔
جس وقت موصوف وزیراعظم تھے ان دنوں میڈیا خاصا پابند تھا اب حالات بہت بہتر ہیں، لیکن صحافیوں کے لئے مہاتیر کی پریس کانفرنس کور کرنا ایک دلچسپ تجربہ ہوا کرتا تھا کیونکہ مہاتیر اپنے مخالفوں کے بارے میں جملے بازی کرنے او ر چٹکلے چھوڑنے میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔
پینینگ سمندر کی پٹی پر واقع ایک خوبصورت ریاست ہے، کوالالمپور سے تقریباً چھ گھنٹے کی ڈرائیو، ریاست میں داخل ہونے کے لئے ساڑھے تیرہ کلومیٹر طویل ایک پُل سے گزرنا پڑتا ہے جو سمندر کے اوپر سے ہوتا ہوا آپ کو شہر میں لاتا ہے جو اپنی نوعیت کا ایک عجیب و غریب تجربہ ہے۔ شہر کچھ کچھ اسلام آباد کی طرح ہے، نواح میں اونچی نیچی پہاڑیاں، خوشگوار موسم، بارش کا سماں رہتا ہے۔ یہاں سے پینینگ ہل تک ایک کیبل کار چلائی گئی ہے جو سات سو میٹر کی بلندی تک آپ کو لے جاتی ہے (پورے ٹریک کی لمبائی زیادہ ہے)، یوں سمجھیں جیسے اسلام آباد میں کوئی کیبل کار آپ کو اونچائی تک لے جائے اور پھر چوٹی سے آپ پورے اسلام آباد کا نظارہ کریں۔ پینینگ ہل سے یہ نظارہ بے حد دلکش تھا کیونکہ شہر کی بلند و بالا عمارتیں سمندر کے کنارے ایستادہ تھیں، یوں لگتا تھا جیسے کسی مصور نے تصویر میں رنگ بھر دئیے ہوں۔ اس ہل اسٹیشن میں انگریزوں کے دور کے مکانات ہیں جن میں سے ہر مکان تقریباً ڈیڑھ سو برس پرانا ہے، کچھ حکومتی ریسٹ ہاوس بن چکے ہیں جبکہ زیادہ تر ارب پتی چینیوں نے خرید لئے ہیں۔ میرا ارادہ ایسے ہی کسی جگہ کافی پینے کا تھا جہاں بیٹھ کر میں سفرنامہ لکھ سکتا جس میں بتاتا کہ جب میں نے کافی کی چسکی کے ساتھ سگرٹ کا پہلا کش لیا تو ساتھ بیٹھی دوشیزہ نے نشیلی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور ایک دل آویز مسکراہٹ پھینک کر کہا ’’ماچس ہوگی آپ کے پاس!‘‘..... اور پھر میری اس سے دوستی ہو جاتی لیکن افسوس کہ گھن گرج کے ساتھ موسلا دھار بارش شروع ہو گئی اور مجھے اپنا یہ پلان ملتوی کرنا پڑا۔
بے حد کرپشن کے باوجود ملائشیا نے بے حد ترقی کی ہے۔ کوالالمپور کی اسکائی لائن ہو یا پینینگ کی پہاڑیاں، ملائشیا کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ یہ ترقی پورا ایک پیکیج ہے، کوالالمپور کی ٹرین سروس بھی موجود ہے اور عوام کو علاج معالجے اور تعلیم کی مناسب سہولتیں بھی میسر ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ملائشیا کا پاکستان کے مقابلے میں صحت کافی کس بجٹ دس گنا زیادہ ہے اور یہ اس لئے ممکن ہے کیونکہ وہ اپنے عوام سے ٹیکس وصول کرتے ہیں، ہم نے یہ فرض تو ادا نہیں کرنا البتہ سہولتیں امریکہ والی مانگتے ہیں۔ ملائشیا میں اگر آسمان سے باتیں کرتی ہوئی عمارتیں موجود ہیں تو وہیں ایک مڈل کلاس شخص بھی بینک سے قرضہ لے کر اپنا اپارٹمنٹ خرید سکتا ہے اور ُاس کی ماہانہ قسط اُس کرائے سے زیادہ نہیں بنتی جو وہ اپنے مکان کا ادا کررہا ہوتا ہے۔ یہا ں کوالٹی آف لائف ہے، آپ پچھتر ہزار سے ایک لاکھ روپے میں با عزت زندگی گزار سکتے ہیں، لیکن یہ باعزت زندگی گزارنا اتنا سہل بھی نہیں، بندہ مزدور کے اوقات بے حد تلخ ہیں۔ چکاچوند روشنیوں اور بلندوبالا شاپنگ مالز کے پیچھے زندگی انسان کا خون چوس لیتی ہے، عمارتوں کی بنیادوں میں اپنا لہو ڈالنے والے بنگلہ دیشیوں سے لے کر شاپنگ مالز میں گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہوئی سیلز گرلز غلامی کی ایک نئی شکل ہے جسے ہم روزانہ دیکھ کر آنکھیں چرا لیتے ہیں۔ ملائشیا ایک خوشگوار تجربہ تھا، سیاحت کے تمام لوازمات یہاں موجود ہیں، اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ تاریخ ہے جو ان کے پاس نہیں، ایک ہم ہیں جو اپنے پاس ہزار برس کی تاریخ لئے بیٹھے ہیں اور کوئی پوچھتا نہیں، یہ مغرب کی نہیں ہماری اپنی سازش ہے!
نوٹ :گزشتہ کالم میں دو غلطیاں تھیں، پہلی، پیٹروناس ٹوئن ٹاور کی کل لاگت سہوا ًڈیڑھ سو ارب ڈالر لکھی گئی جو کہ اصل میں ڈیڑھ ارب ڈالر کے قریب ہے۔ دوسری، اسلام آباد کا ہوائی اڈہ فتح جنگ، ضلع اٹک میں تعمیر ہو رہا ہے اسلام آباد میں نہیں..... ویسے یہ کوئی ایسی غلطی بھی نہیں تھی !


.
تازہ ترین