• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اس کو ملک کے دیگر بڑے بڑے شہروں کے مقابلے میں ہر چیز پر سبقت حاصل ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ دنیا کے بہت سے چھوٹے چھوٹے ملکوں سے بڑا ہے ۔ دنیا کے سب سے بڑے صنعتی ملک سوئٹزر لینڈ کی آبادی سے تقریباً ڈھائی گنا ہے ۔ اگر صنعتی معنوں میں پاکستان کے تمام صنعتی علاقوں کو ایک جگہ ملا دیا جائے تب بھی کراچی کی صنعتیں 10گنا زیادہ ہیں۔ یہ ملک کی کل آمدنی کا 65فیصد سے زائد ٹیکس دیتا ہے ۔ ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کہلاتا ہے ۔ باوجود اس کے اس شہر کو دیگر شہروں کے صنعتی علاقوں کی طرح رعایتیں نہیں دی گئیں۔ بلکہ قیام پاکستان کے وقت اگر کوئی نا دانستہ رعایتیں دی گئی ہوں گی تو وہ تمام کی تمام ماضی کی حکومتوں نے یکے بعد دیگرے واپس لے لی ہیں۔ اگر معاملہ سیاسی بوجھ کا ہو تو کراچی کی سیاست دیگر شہروں کے مقابلے میں مختلف اور منفرد ہے ۔ اپوزیشن کی ساری تحریکیں کراچی سے شروع ہو کر حکومتوں کے زوال تک جاری رہیں۔ اس شہر کی منفرد خوبی یہ ہے کہ پاکستان کے دیگر صوبوں کے باشندے بھی اس شہر میں آباد ہیں اور اس شہر کی خوبیوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ 3فیصد دیگر صوبوں سے کراچی ہر سال آکر روزگار تلاش کرتے ہیں اور اسے منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے ۔ یہاں غالباً 1985 تک سندھی ، پنجابی ، پٹھان ، بلوچ اور مہاجر کی سیاست نہیں تھی ، نہ کوئی تعصب ہوا کرتا تھا۔ کراچی کی شامیں امن اور راتیں روشنیوں سے بھری ہوتی تھیں۔ پاکستان کے دیگر شہروں سے سیاح یہاں آکر بہت خوش ہوتے تھے اور واپس جا کر کراچی کے گن گاتے تھے۔ سیاحت کی ایک وجہ کراچی کا سمندر بھی ہے ۔ پاکستان کی واحد بندرگاہ کی حیثیت بھی کراچی کو حاصل ہے ۔ لوگ کراچی کے باشندوں کی طرح ساحل پرجا کر منفرد فرحت محسوس کرتے تھے۔ کراچی پڑھے لکھے لوگوں کا شہر تھا ، اسی وجہ سے یہاں حکومتوں پر تنقید بھی سب سے زیادہ ہوتی تھی جو حکومت وقت کو ناگوار گزرتی تھی ۔ کراچی کو حکومت کی نبض پر ہاتھ رکھنے پر ملکہ حاصل تھا۔ پہلے اس اجارہ داری کو ختم کرنے کے لئے دارالحکومت کراچی سے راتوں رات اسلام آباد منتقل کر دیا گیا۔ اس طرح کراچی والوں کو سیاسی بصیرت کی پہلی سزا دی گئی۔ اس کے بعد بیوروکریٹس اور سیکرٹری لیول تک کے لوگوں کو کرپشن کا الزام لگا کر فارغ کردیا گیا۔ اس میں زیادہ تر پڑھے لکھے تھے جن کا تعلق کراچی سے تھا۔ یہ عمل یحییٰ خان کے دور میں دہرایا گیا اور جو ایوب خان سے بچ گئے تھے وہ یحییٰ خان نے نکال دیئے ۔ پھر ویسٹ پاکستان ایکٹ کے ذریعے جس کا صدر دفتر لاہور تھا تمام بڑی بڑی پولیس اور انتظامیہ کی خالی اسامیوں پر میرٹ کے بجائے کھلے عام اپنے اپنے رشتہ دار بھرتی کر کے کراچی کی انتظامیہ پر قبضہ کر لیا گیا۔
آج کراچی کی انتظامیہ اور مرکزی حکومت کے اہلکاروں میں کراچی ڈومیسائل کا اہلکار تو مل جائے گا مگر اصل کراچی کا باشندہ اس منصب پر بڑی مشکل سے ملے گا۔ یعنی کراچی کے اہل باشندوں کو نہ صرف مرکزی حکومت میں بلکہ صوبائی اور بالخصوص کراچی کی انتظامیہ میں کوئی مقام حاصل نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی کے 90فیصد تھانوں میں دیگر صوبوں اور شہروں سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد 100فیصد ہے ۔ آج اس شہر میں پولیس کی کارکردگی خراب اور لوٹ مار و رشوت عام ہے ۔ عدالتیں اپنے احکامات جاری کرتی رہتی ہیں مگر ان پر عمل نہیں ہوتا اس لئے رشوت کا خاتمہ ممکن نہیں ہے ۔ اگر روزمرہ کے اخبارات کا مطالعہ کریں تو ہماری عدلیہ کا پولیس سے اعتماد اُٹھ چکا ہے ۔ عوام کا اعتماد تو پہلے ہی اُٹھ چکا تھا۔ عدلیہ کی بار بار تنبیہ کے باوجود اکثر کیسوں میں پولیس اور حکومت کے اہلکار کئی کئی سال تک نہ خود حاضر ہوتے ہیں اور نہ ملزموں کو عدالت میں لاتے ہیں ۔ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے ۔ گلی گلی تلاشی کے بہانے کراچی کے باشندوں کی زندگی اجیرن کر دی گئی ہے ۔ پولیس نے آج تک کوئی بڑا کارنامہ سر انجام نہیں دیا اور نہ ہی آتے جاتے کوئی اسلحہ پکڑا ۔ دہشت گرد جہاں چاہتے ہیں ، جب چاہتے ہیں گولیاں برسا کر نکل جاتے ہیں۔ حکمرانوں کو کراچی سے کوئی ہمدردی نہیں رہی ہے ۔ صدر اور وزیر اعظم کے پاس کراچی آنے کے لئے وقت نہیں ہے ۔ صبح کی فلائٹ سے آکر شام واپس چلے جاتے ہیں ۔ لوگ غیر محفوظ ہیں ۔ صلاح الدین ، مرتضیٰ بھٹو، حکیم سعید ، بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کا آج تک پتہ نہیں چل سکا ۔ آج تک اردو بولنے والے اس شہر کے باسی کو وزیر اعلیٰ کے عہدے تک پہنچنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ جو بھی وزیر اعلیٰ بنا وہ اندرون سندھ کے گاؤں سے لا کر کراچی پر مسلط کر دیا گیا۔ کیونکہ آبادی کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اردو بولنے والوں اور سندھی نہ بولنے والے باشندوں کی تعداد صرف 30فیصد بتائی جاتی ہے ۔ مردم شماری میں بھی غلط اندراج کر کے تعدادکم رکھی گئی ہے اور اسی لحاظ سے صوبائی اور قومی اسمبلی کی سیٹیں رکھی ہوئی ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔سندھ میں سندھی نہ بولنے والے باشندے یعنی مہاجر، پنجابی ، پٹھان اور بلوچوں کی تعداد 55فیصد سے زائد ہے مگر کاغذی کارروائی میں سندھی بولنے والوں کی تعداد 60فیصد ظاہر کی گئی ہے ۔
گزشتہ 7سالوں سے جب سے پی پی پی کی حکومت آئی ہے کراچی کو کوئی بجٹ نہیں دیا گیا۔ مشرف کے دور میں کراچی کو کھل کر بجٹ دیا گیا تھا جس میں کراچی کے اس وقت کے مئیر نے دن رات کام کر کے ثابت کر دیا تھا کہ کراچی شہر دنیا کے کئی شہروں سے بہتر ہے ۔ مگر پرویز مشرف کے جانے کے بعد اور پی پی پی کی حکومت آنے کے بعد گزشتہ 7سالوں سے کراچی کو بد حال کر دیا گیا ہے ۔ کراچی میں اردو بولنے والوں کی واحد جماعت متحدہ قومی موومنٹ ہوتی تھی جو سندھ گورنمنٹ اور وفاقی گورنمنٹ کی آنکھو ں میں کھٹکتی تھی ۔ آج اس کے بھی 4ٹکڑے کردیئے گئے ہیں۔ جب تک اس شہر میں امن قائم نہیں ہوگا اور بنیادی حقوق بحال نہیں کئے جائیں گے یہی خراب صورتحال رہے گی۔ایک بات حکمرانوں کو سمجھ لینی چاہئے کہ کراچی کے رہنے والوں کو نظر انداز کرنے کے بھیانک نتائج نکلیں گے ۔ میں اردوبولنے والے تمام گروپوں سے بھی گزارش کروں گا کہ وہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے بجائے ماضی کی طرح متحد ہو جائیں تب جا کر کراچی کے حقوق حاصل کر سکیں گے ۔ اردو بولنے والے تمام گروپ اپنے میں سے ٹیکنو کریٹ تاجر اور دیگر شعبوں کے کھلے ذہن رکھنے والے افراد پر ایک کمیٹی بنائیں اور اس کا سیاسی حل تلاش کر کے اپنا ایک رہبر تلاش کریں ۔
آخر میں میری وزیراعلیٰ سندھ جناب مراد علی شاہ صاحب سے گزارش ہے کہ انہوں نے جو شادی ہال رات 10بجے بند کرنے کا اعلان کیا ہے وہ مناسب ہے مگردکانیں 7بجے بند کرنے کےاعلان پر نظر ثانی کریں اور تاجر برادری سے مل کر کوئی فیصلہ کریں اور سب سے پہلے دکانیں صبح 9بجے کھلوانے کی کوشش کریں ۔ پھر بعد میں بند کروانے کی بھی کوشش کریں اور خصوصی طور پر سندھ میں مہنگائی پر توجہ دیں۔ دودھ ، دہی، دالوں کی دن بدن قیمتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ کوئی کنٹرول کرنے والا نہیں۔ لہٰذا اس پر خصوصی توجہ دیں اور تمام فیصلے تاجروں کے ساتھ مل کرکریں۔



.
تازہ ترین