• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی انتخابات:مسلم کمیونٹی کیلئے ایک ہی چوائس کیوں؟

کیا خوب منظر ہے اور انتخابی اسٹرٹیجی سمجھنے کا کیا خوب موقع ہے۔ امریکہ کا قومی لبرل میڈیا بشمول نیویارک ٹائمنر ڈیموکریٹک ہیلری کلنٹن کی کامیابی کی سرخیاں شائع کررہا ہے اور 8نومبر کی پولنگ اور اس کے نتائج سے قبل ہی ہیلری کی تصوراتی جیت نہیں بلکہ عملی جیت کا ماحول 12روز قبل ہی پیدا کر ڈالا ہے گو کہ ڈونلڈ ٹرمپ سروے پولز کے نتائج اور لبرل میڈیا کی رپورٹس کو مسترد کرتے ہو ئے پورے انتخابی نظام کو بدعنوان قرار دے رہے ہیں لیکن خود ان کی انتخابی مہم کے بعض منتظم اور ترجمان بھی اس حقیقت کو تسلیم کررہے ہیں کہ سخت مقابلہ کی بعض ریاستوں میں ہیلری کلنٹن ڈونلڈ ٹرمپ پر بازی لے جارہی ہیں۔ یہ وہ ریاستیں ہیں جہاں یا تو ری پبلکن پارٹی کی جانب زیادہ رجحان ہے یا دونوں کے د رمیان مقابلہ سخت ہے۔ ان میں فلوریڈا، ایری زونا،کلوراڈو، نارتھ کیرولینا وغیرہ شامل ہیں ۔ 8نومبر کو پولنگ اور اس کے نتائج سے قبل ہی ہیلری کی الیکشن اسٹرٹیجی تیار کرنے والے معاونین نے ہیلری کی کامیابی کا یہ عملی ماحول اس وجہ سے طاری کیا ہے کہ 37امریکی ریاستوں میں 8نومبر سے قبل ووٹرز اپنا ووٹ مخصوص پولنگ اسٹیشنوں پر جاکر ڈال سکتے ہیں۔ صدر اوباما بھی اپنا ووٹ ڈال چکے۔ کئی ریاستوں میں 24 اکتوبر سے مذکورہ انداز میں قبل از 8نومبر ووٹ ڈالنے کا کام شروع ہوگیا۔ فلوریڈا کے بعض حصے، کلوراڈو، نارتھ کیرولینا وغیرہ میں قبل از 8نومبر ووٹنگ شروع ہوگئی۔ 34 ریاستوں میں کسی عذر کے بغیر ووٹر کو پہلے ہی ووٹ ڈالنے کا حق ہے۔ جبکہ 3ریاستوں میں سرکاری ڈیوٹی اور دیگر عذر اور وجوہات بتانا ضروری ہے۔ فائنل مباحثہ کے بعد کے بعض سروے پول تو یہ بتارہے ہیں کہ قومی سطح پر ہیلری 10 تا 12 پوائنٹ سے ٹرمپ پر برتری رکھتی ہیں اور عام تاثر بھی کچھ یہ ہے کہ اپنے شوہر صدر بل کلنٹن کے علاوہ صدر اوباما، مشعل اوباما، نائب صدر جوزف بائیڈن جیسے تجربہ کار سیاستدانوں کی بھرپور حمایت اور معاونت سے الیکشن لڑنے والی ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے تو اپنی ری پبلکن پارٹی کے اعلیٰ قائدین کو ہی ناراض نہیں کررکھا بلکہ خود ان کے اپنے انتخابی معاونین و مشیران کے بیانات اور ٹرمپ کے موقف میں بھی اکثر یگانگت نہیں پائی جاتی لیکن ٹرمپ ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے اس سسٹم کو ’’بدعنوان‘‘ کہہ رہے ہیں جس پر عمل کرتے ہوئے امریکہ دنیا کی مضبوط ترین جمہوریت کہلانے کا حقدار کہلاتا ہے۔ یہ غیر مرکزیت کا حامل چیک اینڈ بیلنس کے توازن اور مختلف ریاستوں میں مختلف ضابطوں اور تفصیلات پر مشتمل انتخابی سسٹم پیچیدہ تو کہا جاسکتا ہے مگر الیکٹورل ووٹوں کی تکمیل تک وفاقی اور جمہوری نظر آتا ہے گو کہ بعض حالتوں میں صدارت کیلئے ایسے امیدوار بھی کامیاب قرار پائے جن کو عوامی ووٹ کم ملے لیکن وہ الیکٹورل ووٹ 270 حاصل کرکے چار سال کیلئے صدر بن گئے۔
مختصر یہ کہ ہیلری کی انتخابی اسٹرٹیجی تیار کرنے والوں نے 8نومبر سے 15 روز قبل ہی جاری پولنگ کو جواز بنا کر اپنی کامیابی کا جو نفسیاتی اور اشاراتی ماحول پیدا کر رکھا ہے اس کے فوائد بھی حاصل ہوں گے تو کچھ انتخابی نقصان کا بھی امکان ہے (1) گو کہ ہیلری کی کامیابی کا ماحول غیرجانبدار ووٹروں کےہیلری کے حق میں ووٹ دینے کا فیصلہ کرنے میں اثرانداز ہوگا (2) کہیںقبل از وقت کامیابی کا ماحول طاری کرنے سے ہیلری کے بہت سے ووٹر اپنا ووٹ ڈالنے کے معاملہ میں ہیلری کی کامیابی کو یقینی سمجھ کرسست روی کا شکار ہوکر ووٹ نہ ڈالیں۔ اور اس سے 270 الیکٹورل ووٹ کے حصول پر منفی اثر بھی پڑسکتا ہے۔
ادھر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اپنے ووٹروں کو فعال بنانے کیلئے صدر امریکہ منتخب ہو کر پہلے 100 دنوں میں جس ایجنڈے پرعمل کرنےکاعوامی وعدہ کیا ہے ان میں امریکہ، میکسیکو اور کینیڈا کے درمیان تجارتی معاہدہ پر پھر نئے سرے سے دوبارہ مذاکرات کرنا حالانکہ اس معاہدہ پر کئی سال سے عمل ہورہا ہے۔ اسی طرح بحرالکاہل کے علاقوں اور ممالک کے ساتھ پارٹنر شپ ختم کرنا اور اقوام متحدہ کو ماحولیات کی بہتری کیلئے تمام امریکی ادائیگیاں روک کر اس رقم سے امریکہ میں ماحولیات کا انفراسٹرکچر بہتر بنانا ہے۔ ٹرمپ کے دس وعدوں میں پہلے 100دنوں میں 20لاکھ غیر قانونی امیگرنٹس کو امریکہ سے باہر نکالنا مسلم ممالک سے امیگریشن کو معطل کرکے روک دینا اور سخت نگرانی اور قوانین کے ذریعے انتہا پسند دہشت گردی کو ختم کرنے کے اقدامات بھی شامل ہیں جن کی تعریف اور طریقہ کار کی کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی۔
یہ امریکی انتخابات خود امریکہ کیلئے انتہائی اہم یوں ہیں کہ جن تبدیلیوں اور رجحانات پر مبنی ایجنڈا ٹرمپ بیان کررہے ہیں وہ نہ صرف امریکہ کی عالمی اور علاقائی حیثیت کو منفی طور پر متاثر کردے گا بلکہ امریکی معاشرے کی اپنی موجودہ ساخت کو بھی تبدیل کردے گا۔ سیاہ فام امریکی اور لاطینی امریکن اقلیتوں کی آبادی کے مقابلے میں مسلم کمیونٹی کافی چھوٹی اور ایک نئی مذہبی اقلیت ہے جسےٹرمپ نے ٹارگٹ کرکے ایک بڑی آزمائش میں مبتلا کردیا۔
یہ مسلم کمیونٹی کی خوش نصیبی ہے کہ صدر اوباما، ان کی ڈیموکریٹک پارٹی اور امیدوار ہیلری کلنٹن نے آگے بڑھ کر مسلم کمیونٹی کو امریکی معاشرہ کا حصہ اور یکساں حقوق کے حامل امریکی شہری قرار دیتے ہوئے ٹرمپ کے مذہبی امتیاز کو مسترد کیا اور مسلم کمیونٹی کا ساتھ دیا ورنہ سیاست اور وقت کی مصلحت بھی اس چھوٹی اور نووارد کمیونٹی کے بارے کئی جواز فراہم کرسکتی تھی۔ مسلم کمیونٹی کو ڈیمو کریٹک پارٹی نے نہ صرف تحفظ کا احساس دیا بلکہ انہیں دیگر امریکی شہریوں کی طرح یکساں حقوق کا حامل ذمہ داری شہری گردانا۔ یہ بھی مسلمانوں کی خوش قسمتی تھی کہ امریکی فوجی کیپٹن ہمایوں خان کی بہادرانہ جان نثاری کی داستان کو ان کے والد خضر خان اور والدہ غزالہ خان نے انتہائی وقار، تدبر اور صبر کے ساتھ امریکی عوام کے سامنے کچھ ایسے انداز میں پیش کیا کہ امریکی عوام نے تسلیم کیا کہ امریکی مسلمان بھی اپنے اس نئے ملک کے محب وطن شہری ہیں۔
اب امریکی مسلم کمیونٹی کیلئے ڈیموکریٹک پارٹی اور ہیلری کلنٹن کی مسلم کمیونٹی دوستی کا حق ادا کرنے کا وقت ہے۔ آگے بڑھ کر ووٹ کا بھرپور استعمال کرکے اپنا رول منوانے کی ضرورت بھی ہے اور نادر موقع بھی ہے ورنہ آپ کی حیثیت و اہمیت متاثر ہوگی۔ صرف امریکی پاسپورٹ حاصل کرکے سفر کرلینا ہی کافی نہیں ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ انتخابی مہم کے آخری ایام میں ہماری پاکستانی کمیونٹی اور مسلم کمیونٹی نے متحرک ہوکر کام کیا ہے۔ فنڈ ریزنگ بھی ہوئی، ووٹ رجسٹر بھی ہوئے مگرپھر بھی اتنا کام نہیں کیا گیا جتنا کہ واقعی ضرورت اور کمیونٹی کی صلاحیت کا تقاضا تھا۔ ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہم ملاحظہ ہو انہوں نے اپنی تقاریر اور مباحثوں میں بھی کیپٹن ہمایوں اور ان کے والدین اور ہمایوں کی امریکہ کیلئے قربانی کا ذکر جاری رکھا اور انتخابی مہم کے ان آخری ایام میں بھی ایک منٹ کا ٹی وی کمرشل کیپٹن ہمایوں اور ان کے والدین کے جذبہ حب الوطنی پر مشتمل ہے۔ جس میں ڈونالڈ ٹرمپ کو مخاطب کرکے خضرخان سوال کرتے ہیں کہ کیا ٹرمپ کے امریکہ میں ہمایوں خاں کیلئے کوئی جگہ ہوگی؟ خضر خان اور ڈیموکریٹک پارٹی نے امریکہ کی مسلم کمیونٹی کو ایک محب وطن کمیونٹی کے رو پ میں جس طرح پیش کیا ہے۔ اس کا شکر یہ ادا کرنے کا واحد موثر طریقہ مسلم کمیونٹی کا منظم ہو کر ووٹ کا بھرپور استعمال ہے۔




.
تازہ ترین